تبدیلی کے لیے خود کو تبدیل کیا جاتا ہے


فی الحال سب اچھا نظر آ رہا ہے کہ ماننے والے مان گئے ہیں یوں ”تبدیلی“ آتے آتے رک گئی ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ سب جو خفا خفا تھے مل کر حکومت کے کاموں میں حصہ لیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ انہیں ساتھ لے کر چلے تا کہ کل پھر کوئی ناراض نہ ہو سکے مگر حزب اختلاف کو بھی اسے ساتھ لینا چاہیے وہ بھی اگر ناراض ہوتی ہے تو صورت حال بگڑ سکتی ہے کیونکہ حکومت کے اندر جو لوگ پی ٹی آئی کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں مبینہ طور سے اُن کے رابطے میں ہیں۔

اگرچہ حکومتی عہدیداران اس بات کو تسلیم نہیں کر رہے مگر یہ حقیقت ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں پچھلے ادوار کی طرح ڈھیروں رقوم ملیں تا کہ وہ کچھ عوام پر خرچ کریں جس سے ان کی مستقبل کی سیاسی ساکھ مضبوط ہو پھر اس میں سے کچھ اپنے اوپر بھی صرف کریں کہ آخر وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہیں۔ مگر حکومت کو یہ منظور نہیں یعنی اسے شاید ان پر یقین نہیں لہٰذا وہ انہیں نظر انداز کر رہی ہے ۔

 زیادہ تر اختیارات غیر منتخب افراد کو دے رہی ہے جو یہی چاہتے تھے۔ لہٰذا ایک اضطراب موجود ہے جس سے سیاسی فضا مکدر دکھائی دیتی ہے اگرچہ حکومت نے اس پر قابو پا لیا ہے مگر لگ رہا ہے یہ تادیر قائم نہیں رہے گی۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ عادتیں اچانک تبدیل نہیں ہوتیں جنہیں اپنی مرضی کرنے کی عادت پڑ چکی ہو وہ کہاں چین سے بیٹھتے ہیں۔

انہیں رہ رہ کر گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہے اور اختیارات کے نشے کا احساس ہوتا ہے لہٰذا آج جب صورت حال قدرے مختلف ہے تو وہ پریشان سے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو احتجاج نہیں کر رہے وہ مکمل طور سے عوامی درد رکھتے ہیں مگر انہوں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے۔

یہ اچھی بات ہے وقت کبھی یکساں نہیں رہتا اس میں کچھ نہ کچھ بدلاؤ آتا رہتا ہے۔  اگر کوئی یہ سوچ لے کہ اس نے اپنے اندر زیست میں تبدیلی نہیں لانی تو یہ ممکن نہیں تغیر و تبدل کے ساتھ بدلنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے مسائل بڑھتے ہیں تو وہ اپنے منتخب نمائندوں کی جانب دوڑتے ہیں۔ انہیں اپنے دکھ تکالیف دور کرنے کو کہتے ہیں۔ اگر وہ اُن کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو وہ اُن سے فاصلے پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ مایوسی کے دائرے میں داخل ہوتے جاتے ہیں جو اُن کے نمائندوں کے لیے نیک شگون نہیں ہوتا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب حالات ویسے نہیں ہیں جیسے کبھی ہوتے تھے۔ لہٰذا سیاستدانوں کو اگر سیاسی میدان میں رہنا ہے اور کامیاب ہونا ہے تو انہیں عوام کے لیے کچھ نہ کچھ نہیں بہت کچھ کرنا ہو گا بصورت دیگر دوسرے غیر منتخب افراد آگے آ جائیں گے۔ بہرحال حکومت ابھرنے والے سیاسی منظر کو قابو میں کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ ڈالا ہے کہ وہ کسی صورت عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے نہیں ہٹائیں گے۔

ادھر کے پی کے میں انہوں نے تین وزراء کو ان کی وزارتوں سے ہٹا دیا ہے کہ وہ چون و چرا کر رہے تھے۔ حکومت کے خلاف صف آرا تھے ۔ان میں سے ایک تو وزارت اعلیٰ کے بھی امیدوار تھے لہٰذا وہ فارغ کر دیے گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیروں، مشیروں اور نمائندوں کے حوالے سے بھی وزیر اعظم عمران خان نے عندیہ دیا ہے کہ اگر وہ پٹڑی سے اترتے ہیں تو انہین سبکدوش کر دیا جائے گا جبکہ یہاں انہیں کسی بھی نماندے و وزیر کو ہٹانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ انہیں معمولی عددی برتری حاصل ہے جو نون لیگ تھوڑی سی کوشش سے ختم کر سکتی ہے مگر انہیں یقین ہے کہ ایسا وہ نہیں کر سکے گی کیونکہ پھر نہ رہے گا بانس اور نہ رہے گی بانسری۔

لہٰذا اب انہوں نے ہاتھ ذرا سخت کر دیا ہے اور محسو س ہو رہا ہے کہ وہ سیاسی صورت حال ہو یا معاشی کچھ نئے اور سخت فیصلے کرنے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اب مافیاز نے انہیں ناکام بنانے کے لے اپنی تمام توانائیاں صرف کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آٹے کا بحران کبھی نہ پیدا ہوتا۔  اس کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہو جائے مگر حکومت نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بحران پر قابو پالیا ہے اب آٹا مل رہا ہے اور کنٹرول ریٹ پر دستیاب ہے۔ اگرچہ تھوڑا معیار کم ہے مگر قلت نہیں ہے۔ اس بحران کے ذمہ داروں کا بھی سراغ لگایا جا چکا ہے۔ جو قانون کے شکنجے میں ضرور لائے جائیں گے۔

یہاں یہ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ ادوار میں غیر حکومتی عناصرکو خوب کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ اب جب وہ پابند کیے جا رہے ہیں تو انہیں گزرا ہوا وقت یا دآتا ہے۔ لہٰذا وہ اسے دوبارہ واپس لانے کی کوشش میں ہیں اور اپنی طاقت دکھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ویسا نہیں ہو گا جو وہ چاہتے ہیں۔ میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ سیاستدانوں کو کامیاب ہونا ہے تو انہیں عوام کے دل جیتنے ہوں گے۔ لہٰذا اب منتخب نمائندوں کو عوام کی خدمت کرنا ہو گی۔ انہیں بنیادی حقوق دینا ہوں گے۔ اگر وہ تاریخ دہرانا چاہتے ہیں تو یہ خاصا مشکل ہے۔

انہیں عوام بھی اور طاقت کے مراکز بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ بعض دانشور حضرات کہتے ہیں کہ انہیں عوام سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ جیسے بھی جئیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں مگر میں کہتا ہوں کہ مستقبل میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ اندرونی بیرونی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ لہٰذا عوام کو فراموش کرنا ان کے بس میں نہیں ہو گا۔

بہر کیف وزیراعظم اپنی بات منوانے میں آخری حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ مگر انہیں سوچنا چاہیے کہ جب نفرت جنم لے رہی ہو تو اسے دبانے کے بجائے محبت میں بدلنا چاہیے۔ کیونکہ نفرت کی موجودگی میں دلوں میں ایک خلا پیدا ہوتا ہے جو انتظامی امور ہوں یا عوامی حمایت دونوں کے لیے مضر ہوتا ہے۔ لہٰذا اجتماعی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اٹھایا جائے تو وہی کامیابی دلواتا ہے۔

عوام کو چونکہ مجموعی طور سے گڈ گورننس نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی انہیں انصاف مل رہا ہے مہنگائی نے ان کا برا حال کر دیا ہے لہٰذا اگر کوئی دوسرا منتظم اس کے لے موزوں و مناسب ہو سکتا ہے تو اسے اختیارات سونپ دیے جائیں۔ آخر اسے بھی تو عوام نے ہی منتخب کیا ہو گا مگر یہاں تو ضد بازی کا مقابلہ نظر آ رہا ہے۔ عوام کے مصائب کو کوئی نہیں دیکھ رہا۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کا علم ہے اور احساس بھی ان سے نجات دلانے کا راستہ ڈھونڈا نہیں جاتا۔

حرف آخر یہ کہ ملک میں مافیاز کو کامیابی ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جس سے عوام کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے مگر حیرت یہ ہے کہ وہ مچھلی کی مانند ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔ انہیں گرفت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی نیا طریقہ اختیار کیا جائے کیونکہ عوام میں مایوسی و بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ قانون کی طرف گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ جو ان سے سختی سے نمٹنے کے لیے ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments