پاکستانی مرد حور کے نظریے کو کیسے دیکھتے ہیں؟


حال ہی میں، وزیر اعظم عمران خان صاحب کا حوروں کے متعلق متنازعہ بیان وائرل ہو رہا ہے۔ ایک ٹرینکولائیزر کا اثر انہیں ایسے فریبی خیالات کی طرف لے جاتا ہے جس سے ان کے آس پاس موجود خواتین پر مشتمل پیرامیڈیکل عملہ انہیں حوروں کی مانند نظر آنے لگتا ہے۔

جنت میں حور اور موسیقی جیسے تصّورات اسلامی نظریات کا حصہ ہیں۔ لیکن اسلامی روایت کے ایسے حصوں کو حقیقی زندگی کے واقعات یا معاشرتی روّیوں کے ساتھ مطابقت رکھنا درست نہیں۔ کیونکہ ایسی چیز کا ادراک ہونا اور یہ تصور کرنا ممکن نہیں ہے کہ وہ کیسی چیزیں ہوں گی۔ مزید یہ کہ اسلامی اور قرآنی تعلیمات کا مقصد خود کو ایک بہتر انسان بنانا ہے۔ انعامات کو انعامات کی جگہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔

جبکہ زیادہ تر پاکستانی مرد اپنی اصل زندگی میں اپنی مطلوبہ خواتین تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں تو وہ حوروں کے لئے ترس جاتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں میں اسی خیال کو پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ ان کے حور کے رجحان پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انہیں حوروں کا ادراک کیسے ہوتا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان کی سوچ خواتین کو لے کر کے جسمانی لذّت سے اوپر نہیں جا سکتی۔ اور وہ سوچ بھی ایسی عورت کی جستجو میں ہے جن تک وہ رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔

اور ان کی یہ تلاش بالآخر انہیں حور کی تمنا میں غرق اور فنا کردیتی ہے۔ ایک اچھے مسلمان ہونے کے ناتے، وہ اس کو گناہ قرار دیتے ہوئے بار بار فتنہ اور ہوس کو مسترد کرنے کی کوشش کر تے رہتے ہیں لیکن پھر ان کا کہنا یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں جنت میں حوریں موسیقی اور لذت کی خوشیاں فراہم کی جائیں گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اس ذائقے کی تلاش اور لذت کی جستجو میں اپنے آپ کو کیسے روک سکتا ہے جبکہ بار بار انہیں یہ یاد دلایا اور اکسایا جاتا ہے کہ جنّت میں حور ایسی ہوگی ویسی ہوگی۔

اگر یہ لطیف لذّت اس دنیاوی لذت سے بالاتر ہے تو سامعین اس کے موجودہ مقام سے بالاتر ہو کر اس کا تصور کیسے کرسکتے ہیں۔ یا تو اس خوشی کی تبلیغ نہ کریں۔ ورنہ اس کا نتیجہ حرام خوری کی خواہش کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اور نہ ہی کوئی دوسرا موازنہ کرنے کا پیمانہ استعمال کریں جو دنیاوی تصّورات کے زمرے میں ڈالا جائے تو غیر اخلاقی بن جائے؟

سامعین کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے شعور سے بالاتر کسی چیز کا تصور کریں، جس کی جڑیں ان کی معاشرتی بنیاد اور وقوع پذیر ہونے والی تاریخی حیثیت میں نہ ہوں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ اسی فتنہ، جنسی خواہش اور ہوس کا شکار ہوجائیں گے جس سے انہیں مسلسل روکنے کا حکم دیا جا رہا ہے؟ ایسی خوشی کا تصور کرنا کیسے ممکن ہے جو یہاں ممنوع ہے مگر وہاں حلال ہوگی؟

براہ مہربانی یہ تصّورات پیش کرنے کی بجائے معاشرے کی تشکیل پر توّجہ دیں کیوں کہ جب بھی مردوں کو حوروں کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی تو اسی حور کے بارے میں سوچیں گے جو کسی صورت میں ان کے ارد گرد پائی جاتی ہے اور جس تک رسائی حاصل کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ صرف اس چیز کا تصور کر سکیں گے جس کے نتیجے میں جنسی تعلق کی وجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ طاٶس اور رباب کا تصور کریں گے تو، یہ وہی راگ اور موسیقی ہوگی جو مذہبی رہنما انہیں رد کرنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے شعور کے ذریعہ صرف وہی چیز دیکھ سکتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں جو کہ ان کی حقیقت ہے اور جو کہ ان کی موجودہ صورتحال سے متعلق جسمانی، علمی اور نفسیاتی تفہیم کا باعث بنتی ہے۔

اسی لئے، ایک نظریہ جو معاشرتی تشریح پیش نہیں کرسکتا اس کی وضاحت کیے جانے کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے۔ یہ اسلامی نظریہ اور اس کی معاشرتی تشکیل کے مابین فرق پیدا کرے گا۔ اسی طرح کی مثالوں کے ذریعے اخلاقیات کے دوہرے معیار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح کی تشریحات جو ان کے معاشرتی عمل سے مطابقت نہیں رکھتیں اخلاقیات کا دوہرا معیار پیدا کرتی ہیں اور آخر کار ہمارے نوجوان اخلاقی دیوالیہ پن اور مذہبی منافقت کے ہتھّے چڑھ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments