نیپال کا بن مانچھی: کس طرح دیومالائی مخلوق یٹی نے ہمالیائی قوم کو تقسیم کیا


یٹی

نیپال میں دیو مالائی مخلوق یٹی پر ایک تنازع نے ماہرین کو حکومتی اہلکاروں کے خلاف کر دیا ہے۔ لیکن وہ تنازع یہ نہیں ہے کہ آیا یہ دیومالائی مخلوق حقیقت میں موجود ہے یا نہیں۔

بلکہ یہ تنازع یہ ہے کہ یہ مخلوق دِکھتی کیسی ہے۔

ریشما شریستھا، اس سات فٹ اونچے مجسمے کے سامنے جو اس تنازع کی جڑ ہے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں ’یہ ٹھیک نہیں ہے، حکومت جیسا چاہے ویسا نہیں کر سکتی۔‘

’اگر آپ مجھے نہ بتاتے تو مجھے کبھی یہ علم نہ ہوتا کہ یہ ایک یٹی کا مجسمہ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہمالیہ کے پہاڑوں پر ’ہریالی میں اضافہ‘

ایورسٹ پر بسا ’خیموں کا شہر‘

چین اور نیپال کے درمیان ماؤنٹ ایورسٹ پر جنگ

یٹی

’یہ ایک سومو ریسلر ہے‘

سو سے زیادہ ایسے مجسموں جن پر ’نیپال تشریف لائیں‘ لکھا ہوا تھا کا حکومت کی جانب سے پیش کرنے کا مقصد سیاحتی سرگرمی کو بڑھاتے ہوئے ایک برس کے طویل جشن کا آغاز کرنا ہے جو یہ چھوٹی ہمالیائی قوم بیرونی دنیا کو پیش کرنا چاہتی ہے۔

یہ مجسمیں جلد ہی مشہور سیاحتی مقامات، تجارتی مراکز، ہوائی اڈوں اور ہمالیہ کے کچھ بیس کیمپوں سمیت ملک بھر میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا بھر کے شہروں میں نیک شگونی کے لیے بھی بھیجے جائیں گے۔

لیکن اس سیاحتی مہم کا آغاز، جس کا مقصد خطے میں 20 لاکھ سیاحوں کو لانا ہے مجسموں کی ظاہری شکل کی وجہ سے کسی حد تک تنازع کا شکار ہو گیا ہے۔

رام کمار پانڈے نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘لوک کہانیوں میں یٹی کو ایک بڑے بندر نما مخلوق کی طرح بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ یہ حالیہ مجسمے ایک سومو ریسلر کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مجسمے اس دیو مالائی کردار سے بالکل مشاہبت نہیں رکھتے جو بہت سی لوک کہانیوں میں بیان کیا گیا ہے۔’

اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف رام کمار پانڈے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے اعتراضات کی تائید دوسرے نیپالی ثقافتی مورخین بھی کرتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی یٹی کی بات کی جائے تو زیادہ تر نیپالی اس کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ ایک دیو مالائی درندہ جو ہمالیہ میں رہتا ہے اور ملک کی بہت ساری لوک کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔

وہ ان مجسموں سے بالکل متاثر نہیں ہیں۔

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے کیسر محل کے سامنے لگے یٹی کے اس مجسمے کا تجزیہ کرتے ہوئے ریشما اس کی بناوٹ پر قائل نہیں ہے۔

کرشنا لاما کچھ زیادہ منھ پھٹ ہیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’یہ یٹی نہیں ہے، یہ پہلوان کی طرح دکھتا ہے۔‘

تاہم، ییٹی آرٹ کمیٹی جو وزٹ نیپال ایئر سیکرٹریٹ کا ایک ذیلی محکمہ ہے، یٹی کے ان مجسموں کے حق میں کھڑی ہے۔ یٹی کا یہ ایک مجسمہ پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے۔

یٹی

اس محکمے کے کورڈینٹر پریم پرابھٹ گورنگ کا کہنا ہے کہ یٹی ایک دیو مالائی کردار ہے تو اس کی مجسمہ سازی یا تصویر کشی میں تخلیقی آزادی ہونی چاہیے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا مقصد یہ ہے کہ یٹی کو خوفزدہ کرنے والے کردار کی بجائے اس کو امن ، صلح اور عاجزی کی علامت بنائیں۔ دنیا بھر کے عوام میں نیپال کی پہچان صرف ایورسٹ کی سرزمین، بدھا یا گورکھا کے نام سے نہیں ہونی چاہیے۔ یٹی بھی ہماری انفرادیت کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔‘

اینگ شیرن شیرپا، جو یٹی کے اس مجسمے کےمتنازع ڈیزائن کے ذمہ دار ہے وہ بھی اتنا ہی ضدی ہیں۔

انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کوئی کتاب پڑھ کر یٹی کا خاکہ نہیں بنایا۔ میں نے یہ ڈیزائن ان کہانیوں کی بنیاد پر بنایا جو میں نے اپنے بچپن میں سنی تھی اور یہ ڈیزائن تیار کرتے وقت میرے ذہن میں صرف بدھا کا خیال تھا۔‘

تاہم ان کی اس پسند کے پیچھے کم از کم ایک اور عملی وجہ بھی موجود تھی۔ شیرپا کا کہنا ہے کہ انھوں نے ‘رنگ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے یٹی کو جلد کے بالوں والا نہیں بنایا جیسا کہ اس سے متعلق ادب میں بیان کیا گیا ہے۔’

یٹی درحقیقت ہے کیسا؟

یہ یٹی جسے دوسری الفاظ میں مکروہ سنو مین کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسا دیو مالائی درندہ ہے جو ہمالیہ میں رہتا ہے۔

اس کا ذکر پہاڑوں کے دونوں اطراف انڈیا، بھوٹان، تبت اور نیپال کی کہانیوں میں ملتا ہے، لیکن یہ شیرپا کمیونٹی کی لوک داستانوں میں نمایاں ہے ، یہ کمیونٹی مشرقی نیپال میں اوسطاً 12 ہزار فٹ کی بلندی پر آباد ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوق بہت انچائی پر برف میں رہتی ہے اور انسان سے بڑی ہوتی ہے جس کے پورے جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں اور یہ انسانوں کی طرح دو پیروں پر سیدھا چلتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس مخلوق کا انسان کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ یٹی کبھی گاؤں میں موجود گھروں کے دروازے بند کر دیا کرتے ہیں تو کبھی گاؤں والے انھیں ایک دوسرے سے لڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم یہ حربے صرف یٹی کی انسان سے دشمنی بڑھتے ہیں۔

ان کہانیوں میں مادہ یٹی کا ذکر بھی ملتا ہے جس نے ایک شخص کو پکڑا اور اس سے اس کے دو بچے بھی تھے۔ جب وہ شخص اپنے بیٹے کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہوا تو اس مادہ یٹی نے اپنی ہی بیٹی کو مار ڈالا اور کھا لیا۔

یٹ

شیو دھکال نے بی بی سی ارتھ کو سنہ 2015 میں بتایا تھاکہ ‘شاید یٹی کی لوک داستانوں کو انتباہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا یا ممکنہ طور پر اخلاقیات کے لیے تاکہ بچے کہیں بھٹک نہ سکیں اور وہ اپنی برادری میں ہمیشہ قریب اور محفوظ رہیں۔’

یقینا، آج کل کی یٹی کی عکاسی اکثر تھوڑی اچھی ہوتی ہے۔ پچھلے برس ڈریم ورکس کی فلم ایبنومینل میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو ایک یٹی سے دوستی کرتے ہوئے دیکھایا گیا جو اس کے گھر کی چھت پر رہتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp