#PSL5: شعیب نوید ’خبطی، دیوانے مداح‘ سے پی ایس ایل کے پراجیکٹ ایگزیکٹو کیسے بنے


کرکٹ کا مداح ہونا بھی ایک الگ کیفیت کا نام ہے۔ اپنی ٹیم سے لگاؤ آپ کو راتیں جاگنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور آپ کے دل کا امتحان بھی خوب لیتا ہے۔

تاہم اگر آپ کی دیوانگی کا عالم یہ ہو کہ آپ اس کھیل سے منسلک ہونے کے لیے مختلف براعظم گھومیں، قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہیں اور اچھی نوکری چھوڑ کر دوسرے ملک منتقل ہو جائیں تو یقیناً آپ دیوانے ہونے کے ساتھ ساتھ خبطی بھی کہلائیں گے۔

حال ہی میں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی لیگ پی ایس ایل کے پراجیکٹ ایگزیکٹو مقرر ہونے والے شعیب نوید کا تعارف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

مزید پڑھیے

چار ماہ میں تین گولڈ میڈل جیتنے والی طالبہ ندا جمالی

وہ کھلاڑی جو U-19 کھیلنے سے پہلے ہی ٹیسٹ کرکٹر بن گئے

غلطیوں سے سبق سیکھ کر عمدہ کارکردگی کا عزم

شعیب نے امریکہ میں این ایف ایل کی ایک مقبول ٹیم کے ساتھ نوکری کرنے پر پاکستان آ کر پاکستان سپر لیگ کی بنیاد رکھنے کو ترجیح دی۔

بایئو سائنس چھوڑ کر سپورٹس مینجمینٹ میں تعلیم حاصل کی اور آج وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

تاہم ایک دیوانے مداح سے پاکستان سپر لیگ کی بنیاد رکھنے تک کے سفر کے دوران انھیں ’دھچکے‘ بھی لگے اور متعدد مشکل فیصلے بھی کرنے پڑے لیکن اس سب کے باوجود کرکٹ سے ان کے لگاؤ میں کمی نہیں آئی۔

’پڑھاکو بچہ‘ اور ’کرکٹ کا کیڑا‘

لاہور میں پیدا ہونے والے شعیب اپنے آپ کو ’اسلام آبادی‘ کہتے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے والدین کی سرکاری نوکریوں کے باعث اپنا بچپن اسلام آباد میں گزارا۔

او لیولز تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت امریکہ منتقل ہو گئے۔

شعیب بتاتے ہیں کہ وہ شروع سے ہی ایک پڑھاکو بچے تھے۔ ’میرا ذہن بنا ہوا تھا کہ میں نے جینیاتی انجینیئرنگ ہی کرنی ہے۔‘

انھوں نے یونیورسٹی آف شکاگو میں داخلہ لے کر اولین ترجیح بائیوکیمسٹری کو دی۔

’میں نے جاتے ساتھ ہی تحقیق کی لیباریٹریز میں کام کیا لیکن کرکٹ کا کیڑا وہیں کا وہیں تھا۔‘

شعیب اور ان کے ایک انڈین دوست نے مل کر شکاگو کرکٹ کلب کی بنیاد رکھی اور وہ وہاں جتنا عرصہ رہے کرکٹ کھیلتے رہے۔

‘کھیلوں کی پہلی یادداشت ہاکی ورلڈکپ 1994’

شعیب میں کرکٹ کے اس ’کیڑے‘ کی نشونما میں ان کے والد اور ان کے کزنز کا ہاتھ ہے۔

’کھیلوں کے حوالے سے میری پہلی یادداشت کرکٹ کی بجائے ہاکی ورلڈکپ 1994 کی ہے جب منصور احمد نے وہ پینلٹی روکی تھی۔‘

سنہ 1995 کے بعد سے شعیب کی کرکٹ کی جانب انسیت بڑھتی چلی گئی۔ سنہ 1996 کے ورلڈکپ سے پہلے موسیقی کے بینڈ جنون کی جانب سے جاری کردہ ترانہ ’جذبہ جنون‘ شعیب کو خوب بھایا۔

https://twitter.com/thePSLt20/status/678832547019800576

یہ وہ زمانہ ہے جب 90 کی دہائی کی پاکستانی ٹیم کرکٹ کی دنیا پر راج کرتی تھی۔ ’جب وسیم اکرم اور سعید انور جیسے کھلاڑیوں کو ہم پوجنے کی حد تک چاہتے تھے۔‘

شعیب کہتے ہیں کہ ‘مجھے یقین ہے کہ میری نسل کے دیگر افراد کی بھی ایسی ہی کہانیاں ہوں گی۔‘

تاہم شعیب کی کہانی میں ایک اہم موڑ ایک ’دھچکے‘ کی صورت میں آیا جس نے ان کا زندگی کے بارے میں سوچنے کا انداز تبدیل کر دیا۔

جب شعیب نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی تو وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئے۔

اس کی ایک وجہ تو عالمی معاشی بحران تھا، لیکن دوسری جانب انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ ان کا بائیو کیمسٹری سے اتنا لگاؤ نہیں تھا اور وہ اس میں مزید پڑھائی کرنے کے خواہش مند نہ تھے۔

شعیب نے اس دوران نوکری تو کر لی لیکن انھیں یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اسے بطور پیشہ نہیں اپنا پائیں گے۔

سال 2011 شعیب کی زندگی کا اہم موڑ

یہاں شعیب ایک حادثے کا شکار ہوئے جس میں وہ جسمانی طور پر تو محفوظ رہے لیکن یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوئے کہ ’اگر آج زندگی ختم ہو جاتی تو میں نے کچھ کیا نہ ہوتا زندگی کے ساتھ۔‘

یہ حادثہ سنہ 2011 میں پیش آیا۔ یہ وہی سال تھا جب 15 برس کے بعد کرکٹ ورلڈ کپ ایشیا میں منعقد ہو رہا تھا۔

ورلڈکپ قریب تھا اور اتفاق سے شعیب نے اس وقت تک کوئی خاص لائیو میچ نہیں دیکھا تھا اور کرکٹ کی چنگاری ابھی بھی ویسے ہی سلگ رہی تھی تو انھوں نے ورلڈ کپ کی اپنے بلاگ کے ذریعے کوریج کرنے کا فیصلہ کیا۔

شعیب صحافی تو نہیں تھے تاہم پریس کانفرنسز کے دوران ان کے معنی خیز سوالات اور ان کے بلاگ کی مقبولیت میں اچانک سے اتنا اضافہ ہوا کہ سب یہ سوچنا پر مجبور ہو گئے کہ آخر یہ بلاگر کون ہے؟

وہ سری لنکا کی سیر بھی کرتے رہے، اور ساتھ ہی کرکٹ سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔

’میرا یہ تجربہ اتنا اچھا رہا کہ اس وقت میں نے سوچا کہ مجھے کرکٹ سے کسی بھی حیثیت میں منسلک ہونا چاہیے۔‘

اب جب قسمت انھیں کرکٹ کے اتنے قریب لے آئی تھی تو وہ اس ’اچھے تجربے‘ کو یہیں تک محدود نہیں کرنا چاہتے تھے۔

قرضوں کا بوجھ اور مشکل فیصلے

شعیب نے واپس امریکہ واپس جا کر پڑھانے کے ساتھ ساتھ مختلف کرکٹ بورڈز کو خظ بھی لکھے اور ان سے انٹرنشپ کرنے کے حوالے سے درخواست بھی کی۔

ایسے میں نیوزی لینڈ پلیئرز اسوسیئیشن نے انھیں انٹرنشپ دی۔ کیونکہ شعیب کو کوچنگ میں لگاؤ تھا تو آکلینڈ کرکٹ نے آئی سی سی کی جانب سے متعارف کردہ لیول ون کوچنگ کورس کرنے میں ان کی معاونت کی۔

شعیب نے اس دوران نیوزی لینڈ میں ایک مقامی کلب میں بچوں کو کوچنگ دے کر گزر بسر کیا۔ اس عرصے میں انھیں تین باتیں سمجھ آئیں۔

ایک یہ کہ وہ انٹرنیشنل یا ڈومیسٹک کی سطح پر کوچنگ نہیں کر سکتے کیونکہ انھوں نے فرسٹ کلاس یا انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی، دوسرا یہ کہ وہ اتنے اچھے لکھاری نہیں ہیں اور تیسرا یہ کہ اب زمانہ طالب علمی کے قرضے دینے کا وقت ہے۔

یہ فیصلے کی گھڑی تھی۔ ایسے میں شعیب کو سپورٹس مینجمینٹ کا خیال سوجھا۔ یہ خیال شاید اس لیے آیا کیونکہ شعیب نظام کا حصہ بن کر اس میں تبدیلی لانا چاہتے تھے جو ان کے لیے انتظامیہ کا حصہ بنے بغیر ممکن نہیں تھا۔

دو براعظموں پر محیط ڈگری اور پی ایس ایل پر مقالہ

شعیب نے آسٹریلیا کی گرفتھ یونیورسٹی سے سپورٹس مینیجمینٹ کی ڈگری حاصل کرنا شروع کی تو ان کے کورس میں اکثر چیزیں امریکہ میں کھیلوں سے متعلق تھیں۔

پڑھائی کے دوران ہی انھوں نے پاکستان میں اپنے کرکٹ کے شوقین دوستوں کے ساتھ مل کر پیس از پیس یار کے نام سے ایک آن لائن پاڈکاسٹ کا آغاز کیا جسے کرکٹ کے مداحوں میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔

آسٹریلیا میں ایک سال گزارنے کے بعد شعیب نے امریکہ واپس جا کر سپورٹس مینجمینٹ میں ہی تعلیم مکمل کرنے کا سوچا اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

یہاں پر حاصل کرنے والی تعلیم کی خاص بات یہ تھی کہ انھیں تجربہ حاصل کرنے کے کثیر مواقع میسر تھے۔

شعیب کو اس دوران نیشنل فٹبال لیگ (این ایف ایل) پلیئرز ایسوسی ایشن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جس کے بعد انھیں نیشنل باسکٹ بال اسوسیئیشن (این بی اے) کی ٹیم واشنگٹن وزرڈزاور نیشنل ہاکی لیگ (این ایچ ایل) میں کھیلنے والی آئیس ہاکی ٹیم واشنگٹن کیپیٹلز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

سنہ 2014 میں جہاں ان کی پڑھائی جاری تھی، وہیں پاکستان میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے انعقاد میں مشکلات درپیش تھیں۔

دیگر کھیلوں پر کام کرتے ہوئے بھی وہ پاکستان کرکٹ کو نہیں بھولے تھے۔ اپنی ڈگری کے آخر میں انھوں نے اپنا مقالہ پی ایس ایل کے حوالے سے لکھا اور اس کے انعقاد کے حوالے سے تجاویز پیش کیں۔

پی سی بی پاکستان سپر لیگ کو کسی نجی کمپنی کے سپرد کرنے کا سوچ رہا تھا، تاہم شعیب نے اپنے مقالے میں اس بات پر بحث کی تھی کہ پی سی بی کو یہ لیگ خود ہی کروانی چاہیے۔

اسلام آباد

شعیب نے یہ مقالہ جیسے تیسے پی سی بی کے چیئرمین تک پہنچایا جس کے بعد انھیں پی ایس ایل کے انعقاد کے لیے نوکری کی آفر بھی کر دی گئی۔

یہاں ان کے سامنے دو راستے تھے: امریکہ میں رہ کر ایک این ایف ایل کی ٹیم کے ساتھ کام کریں یا پاکستان جا کر پی ایس ایل کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کریں۔ ‘میں نے سوچا کہ اگر میں نے اتنی محنت کی ہے تو پھر مجھے پاکستان جانا چاہیے۔’

پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد

سنہ 2016 میں شعیب اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد یقینی بنایا تاہم اس دوران انھیں متعدد مشکلات کا سامنا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’سب سے پہلا مسئلہ پی سی بی کو اس بات پر رضامند کرنا تھا کہ وہ پاکستان سپر لیگ خود کروائیں، چھ مہینے ہمیں پی سی بی کو منانے میں لگے۔‘

دوسری اہم بات جدید براڈکاسٹر کا انتخاب تھا جس میں شعیب نے اس وقت کے چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کو رضامند کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

‘اگر آپ پہلا سیزن دیکھیں تو اس کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کی نشریات کا معیار تھا کیونکہ پاکستان میں لوگوں نے اس سے پہلے اتنے اچھے معیار کی نشریات دیکھی ہی نہیں تھی۔’

کراچی

پی سی بی چھوڑنے کے بعد شعیب نے بطور چیف آپریٹنگ آفیسر اسلام آباد یونائیٹڈ میں کام کیا۔ خیال رہے کہ اسلام آباد یونائیٹڈ پی ایس ایل کی سب سے کامیاب ٹیموں میں سے ہے اور اس نے اب تک پی ایس ایل کے دو سیزن اپنے نام کر رکھے ہیں۔

اور ساتھ ہی وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمینٹ سائنسز (لمز) میں سپورٹس مینجمینٹ بھی پڑھاتے ہیں۔

شعیب کہتے ہیں کہ ‘پاکستان میں سپورٹس مینجمینٹ کے حوالے سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اس مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو۔

‘اس کورس کو پڑھانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ پاکستان میں کرکٹ اور دیگر کھیل نہ ہونے سے جو سپورٹس مینجمینٹ کے حوالے سے خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کیا جا سکے۔’

آج کل شعیب کا مقصد پاکستان میں پی ایس ایل کا پر امن انعقاد اور اس کی کامیابی ہے۔ ان کے مقالے میں بھی آغاز سے ہی پاکستان میں کرکٹ کے انعقاد پر زور دیا گیا تھا۔

اب جب کہ یہ لیگ مکمل طورہر پاکستان منتقل کر دی گئی ہے تو شعیب اپنے جیسے دوسرے مداحوں کے لیے ایک ایسا ماحول دینا چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ بھی کرکٹ کے اتنے ہی دیوانے ہو جائیں جتنے شعیب خود ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp