’درآمدی جوتے اب عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہوگئے ہیں‘


پاکستان

گذشتہ دو سالوں میں روپے کی قدر میں گراوٹ اور شرح سود بڑھنے سے مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے

اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان میں خاصی چہل پہل ہے۔ نئے چمچماتے جوتے گاہکوں کو لبھا رہے ہیں اور سیلز مین کے ساتھ بھاؤ تاؤ جاری ہے۔ دکان کے مالک ظریف خان ایک کونے میں لگے اپنے کاؤنٹر پر جوتوں کی اگلی کھیپ کا بندوبست کر رہے ہیں۔ یہ سب سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے۔

جو جوتے آج ظریف خان کی دکان پر فروخت کے لیے موجود ہیں وہ سب کے سب پاکستان میں بنے ہیں۔ ایک ڈیڑھ سال پہلے تک اس دکان پر صرف چینی جوتے بکتے تھے لیکن اب نہیں۔

گذشتہ دو سالوں میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود بڑھنے سے مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

معاشی سست روی اور مہنگائی سے جہاں عوام کی قوتِ خرید متاثر ہوئی ہے، وہیں ایک حوصلہ افزا چیز سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو پاکستانی فیکڑیاں سستی چینی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھیں، اب وہ ڈالر کی قدر بڑھنے اور درآمدی ڈیوٹیز کی شرح میں اضافے سے دوبارہ فعال ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں گندم کے بحران کی وجہ غلط اندازے ہیں؟

گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر کمانے والے پاکستانی فری لانسرز

سرد موسم کینو کے کاشت کاروں کے لیے ایک خوشخبری

جوتے

پاکستان میں درآمد ہونے والے جوتوں کی بڑی تعداد چین سے آتی ہے

انھی صنعتوں میں سے ایک صنعت پاکستانی جوتے کی بھی ہے۔

چین اور دیگر ممالک سے درآمد کیے گئے جوتے، جارگرز اور چپلیں اب عوام کو بہت مہنگی لگنے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ مہینوں میں بیرون ملک سے درآمد ہونے والے جوتوں کی مقدار میں بیس فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

پاکستان میں درآمد ہونے والے جوتوں کی بڑی تعداد چین سے آتی ہے جبکہ کچھ تھائی لینڈ اور اٹلی سے بھی آتے ہیں۔

چین سے جوتوں کی کم ہوتی درآمد نے جوتا سازی کی مقامی صنعت کو مضبوط کیا ہے اور اسی لیے مقامی کھپت میں اضافے کے علاوہ پاکستانی فٹ وئیر کی برآمدات بھی بڑھی ہیں اور وہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں 33 فیصد اضافے کے بعد 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہیں ہیں۔ جبکہ گذشتہ مالی سال بھی فٹ وئیر کی برآمدات میں بھی 27 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

پاکستان

’مقامی طور تیار کیے جوتے دیرپا تو ہوتے ہیں لیکن چینی جوتوں جتنے ہلکے اور آرام دہ نہیں’

ظریف خان کے مطابق ڈالر کی قدر بڑھنے سے جوتوں کی درآمد میں غیر معمولی کمی آئی ہے۔

جوتوں کا کاروبار کرتے ہوئے ظریف خان کو تیس سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی دکان میں ہمیشہ ہینڈ میڈ جوتے اور مقامی کارخانوں میں تیار جوتے رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم چھ سات سال پہلے انھوں نے مجبوری کی وجہ سے چینی جوتے رکھنے شروع کردیے تھے۔

دو سال پہلے تک ان کی دکان پر ستر فیصد درآمدی چینی جوتے ہوتے تھے لیکن اب وہ صرف مقامی تیار کردہ جوتے فروخت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کساد بازاری کے باعث انھیں اپنا درآمدی سٹاک اونے پونے داموں فروخت کرنا پڑا لیکن خوشی ہے کہ مقامی صنعت پھر چل پڑی ہے۔

بقول ظریف خان ’اپنے جوتے کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے پہنو تو پتا چلتا ہے کہ یہ چینی جوتے سے کتنا بہتر ہے۔‘

آب پارہ مارکیٹ میں دکاندار محمد مصدق نے بتایا کہ دو سال پہلے تک ان کی دکان پر 60 فیصد چینی اور 40 فیصد کے قریب مقامی بنے ہوئے جوتے بکتے تھے جبکہ اب ان کے پاس نوے فیصد سٹاک مقامی طور پر بنے ہوئے جوتوں پر مشتمل ہے۔

جوتے

’گاہک ہمیں کہتا ہے کہ اگر 1000-1500 کا ہی جوتا لینا ہے تو ہم پھر باٹا یا سروس کیوں نہ جائیں‘

محمد مصدق کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے جو چینی جوتا انھیں 300-400 روپے میں ملتا تھا اب وہی 700-800 روپے کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متوسط طبقے کے جو گاہک اس کے پاس آتے ہیں وہ مہنگا جوتا خریدنے کی استطاعات نہیں رکھتے اور اب مہنگائی بڑھنے سے وہ مجبوری میں ہی جوتا خریدتے ہیں۔

’اب انھیں کوالٹی کے بجائے اس بات سے غرض ہے کہ جوتے کی قیمت کیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’مقامی طور تیار کیے جوتے دیرپا تو ہوتے ہیں لیکن چینی جوتوں جتنے ہلکے اور آرام دہ نہیں۔ ہمارے جوتوں کا سول معیاری نہیں ہوتا۔ اگر وہ بہتر ہوجائے تو پھر مسئلہ نہیں۔‘

’گاہک ہمیں کہتا ہے کہ اگر 1000-1500 کا ہی جوتا لینا ہے تو ہم پھر باٹا یا سروس کیوں نہ جائیں۔‘

محمد مصدق نے بتایا جوتے بنانے کے بیشتر کارخانے لاہور، فیصل آباد اور کراچی میں واقع ہیں جن کی اکثریت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں پر مشتمل ہے اور ان کی ٹیکنولوجی بھی پرانی ہے۔

جوتے

’اب درآمدی جوتے عوام کی قوت خرید سے باہر ہوگئے ہیں‘

لاہور میں زارا شوز کے چیف ایگزیکٹو منصور احسن کہتے ہیں ’نہ صرف مقامی طور تیار کردہ جوتوں کی طلب میں اندرون ملک بلکہ ان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی فیکڑی میں مقامی اور غیر ملکی خریداروں کے لیے سینڈلز، سپورٹس شوز اور سلیپرز تیار کیے جاتے ہیں۔

گذشتہ مالی سال انھوں نے دس لاکھ ڈالرز مالیت کے جوتے برآمد کیے تھے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ اس سال وہ پندرہ لاکھ ڈالرز تک کے جوتے برآمد کریں گے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ دو ارب ڈالرز کے جوتے فروخت ہوتے ہیں۔ منصور احسن کہتے ہیں کہ امریکہ میں سالانہ 56 ارب ڈالرز جبکہ یورپ میں 52 ارب ڈالرز کے جوتے فروخت ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’چین کی صرف جوتوں کی سالانہ برآمدات 40 ارب ڈالرز ہیں۔ حکومت اگر اس صنعت پر توجہ دے تو نہ صرف ہم مقامی طلب کو باآسانی پورا کر سکتے ہیں بلکہ اپنی برآمدات کو بھی ایک دو سالوں میں ایک ارب ڈالرز سے زائد تک لے جا سکتے ہیں۔‘

جوتے

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ دو ارب ڈالرز کے جوتے فروخت ہوتے ہیں

سمبا انٹر پرائزز کے میاں محمد سلیمان کے مطابق ان کی فیکٹری میں زیادہ تر برائڈل جوتے تیار ہوتے ہیں لیکن گزشتہ ایک سال میں لوگوں کی قوت خرید متاثر ہونے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ سے کم آڈرز مل رہے ہیں اور اس لیے وہ بھی اب برآمدات پر توجہ دے رہے ہیں۔

محمد سلیمان کہتے ہیں’ اب درآمدی جوتے عوام کی قوت خرید سے باہر ہوگئے ہیں۔‘

ایوانِ صنعت و تجارت کراچی کے سابق صدر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے برآمدات اور مقامی صنعت کو فائدہ تو پہنچا ہے لیکن جب سے حکومت نے درآمدی خام مال پر زیرو ریٹنگ ختم کی ہے برآمدات سے جڑے لوگوں کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

آل پاکستان ایپارل فورم کے صدر جاوید بلوانی کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے علاوہ جب سے ایف بی آر نے درآمدات پر انڈر اینوائسنگ پر قابو پایا ہے اور درآمدات سے جوڑے لوگوں سے ان کی آمدنی اور ٹیکس کی تفصیلات طلب کرنا شروع کی ہیں تب سے مقامی صنعت کو کافی فائدہ پہنچا ہے، کیوں کہ وہ باقاعدگی سے تمام ٹیکسزز ادا کر رہی ہے۔

جوتے

’ماضی میں موسمِ سرما کے دوران جوتوں اور خصوصاً جاگرز کی سیلز اچھی خاصی ہوتی تھی لیکن پچھلے دو سالوں سے صورتحال بہت مایوس کن ہے‘

تاہم ان کا کہنا ایف بی آر نے برآمدات کرنے والوں کے جو اربوں روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز روکے ہوئے ہیں اس سے مقامی صنعت کو ورکنگ کیپیٹل کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور وہ اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام نہیں کر رہی۔

دوسری جانب راولپنڈی کے اندرونی علاقے جامع مسجد روڈ پر واقع درآمدی چینی اور لنڈے کے استعمال شدہ جوتوں کے بیوپار ڈالر کی قدر بڑھنے سے کافی پریشان ہیں۔

وہیں کے ایک دکاندار گلفام زمان کہ مطابق ’ماضی میں موسمِ سرما کے دوران جوتوں اور خصوصاً جاگرز کی سیلز اچھی خاصی ہوتی تھی لیکن پچھلے دو سالوں سے صورتحال بہت مایوس کن ہے۔‘

’موسم گرما میں کئی دن ایسے بھی تھے جب فروخت صفر رہی، اب سردیوں میں بھی بامشکل چار سے پانچ جوڑے فروخت ہوتے ہیں، جبکہ دو سال پہلے تک اس موسم میں پندہ سے بیس جاگرز اور جوتے یومیہ باآسانی فروخت ہوجاتے تھے۔ پچھلے ایک سال میں منافع تو دور کی بات میں بامشکل اپنا خرچہ نکال پایا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp