محمد حسین ۔۔۔۔ آزاد نہیں ہے


محمد حسین صاحب سے پہلے، کامونکی کا حوالہ، سن سینتالیس میں ریلوے سٹیشن پہ جلنے والی شرنارتھیوں کی ٹرین تھی۔ 2012 میں ریل کی یہ کہانی لکھی تو انگلستان سے ایک سندیس  آیا۔ کوئی ابرار حسین تھے جو اپنے والد، محمد حسین صاحب سے میری بات کروانا چاہ رہے تھے۔ ایک آدھ ہفتے بعد جب ہمارا وقت آپس میں ملا تو اس طرف سے ایک گھنی آواز سنائی دی ۔

“معراج صاحب بول رہے ہیں”

“جی۔ محمد حسین صاحب ۔۔ ۔۔ کہئے”

“آپ نے کامونکی سٹیشن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں ٹرین کو آگ لگی تھی۔ اس ٹائم، میری ڈیوٹی  وہیں پہ تھی۔۔”

انگریزی لہجے کی تہہ کے نیچے شفاف پنجابی جھلک رہی تھی۔ میں اس صورتحال کے لئے تیار نہیں تھا مگر پھر بھی۔۔۔۔ محمد حسین صاحب نے اس رات کی مختصر کہانی سنائی اور فون منقطع ہو گیا۔

کچھ دن گزرے اور دوبارہ رابطہ بحال ہوا تو محمد حسین صاحب کے بیٹے ابرار نے بتایا کہ وہ پاکستان آنا چاہ رہے ہیں۔ اگلے کچھ ہفتے، میں اور مصدق سانول، یہ حساب لگاتے رہے کہ کسی طرح محمد حسین صاحب کو کامونکی کے سٹیشن پہ لے جایا جائے۔

مگر پھر کہانی میں موڑ آ گیا۔ ادھر محمد حسین صاحب کو سیڑھیاں اترتے ہوئے چوٹ لگ گئی اور ادھر مصدق کے سینے میں گاہے گاہے اٹھنے والا درد، اپنی جاگیر بڑھانے لگا۔ پھر مصدق چلا گیا، کئی گیت ان سنے رہ گئے، کئی کہانیاں ان کہی رہ گئیں۔ میں بھی دیس پردیس کے سوال میں کسی اور جواب پہ دائرہ لگا کر پہاڑ کے دامن سے سمندر کے کنارے آ بیٹھا۔

ایک دن آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک اشتہار پہ نظر پڑی جس میں کسی داستان کا ذکر تھا۔

سپرش آہوجا، سیم ڈالرمپل اور سعدیہ گردیزی، سینتالیس کی ہجرت کے ماروں کو بنا ویزا کے واپس ان کے دیس پھراتے تھے۔ پچیسویں سال کے طلسم ہوشربا میں رہنے والے یہ نوجوان ایک خوبصورت خواب کے تعاقب میں نکلے تھے۔ سوائے اس الم کے، کہ ان کی نسل کے حصے میں، جغرافئے اور تاریخ سے قطع نظر، ہر طرف ایک ایسی حکومت تھی جو محبت سے زیادہ نفرت پہ یقین رکھتی ہے، ان کی داستان قابل رشک تھی۔ سو ایک شام،  ہم سب، محمد حسین صاحب سے ملنے، ان کے گھر چلے گئے۔

1928 کے دندی نظام میں پیدا ہونے والے محمد حسین کے والد بنتر کا کام کرتے تھے اور اپنی چار کھڈیوں پہ زندگی بنتے تھے۔ محمد حسین کو پڑھنے کا شوق تو تھا مگر چند مجبوریوں کے سبب، وہ چوتھی جماعت سے آگے نہیں پڑھ پائے۔ ادھورے پن کا یہ دکھ ان کے لہجے میں ابھی تک تازہ تھا۔

پچھلے وقتوں کو نئی گھڑی میں دیکھیں تو سمجھ آتی ہے کہ بند ہوتے پرانے دروازے، نئے راستے کیسے کھولتے ہیں۔ جس محمد حسین کو دندی نظام کے سکول ماسٹر نے ٹاٹ بچھانے کی جگہ نہیں دی، اسے راجپوتانہ رائفلز کے بھرتی افسر نے بوائز کمپنی کی بوٹ پٹی اور کٹ فورا ایشو کر دی۔ سپاہی محمد حسین نے دو برس دلی میں گزارے اور پھر ایک دن ایڈجوٹنٹ نے انہیں پیراشوٹ کمپنی کا موو آرڈر دے دیا۔

کیلنڈر پہ سینتالیس لگا تو وہ اپنی پلٹن میں نوکری کر رہے تھے۔ بٹالین کی ایک راجپوت اور دو جاٹ کمپنیاں تو ہندوستان کے حصے میں آئیں اور محمد حسین صاحب کی کمپنی کو بلوچ رجمنٹ میں ضم کر دیا گیا۔ مہاجرین کی محفوظ منتقلی نئی بٹالین کی نئی ذمےداری تھی اور یہی ڈیوٹٰی، انہیں کامونکی کی اس رات تک لے آئی۔

یہاں آ کر محمد حسین صاحب کی آواز بھرا گئی۔ عمر کے ڈھلوان میں ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ آدمی آج اس واردات کے غم میں بھیگتا ہے، کل جس سے خشک پوست گزرا تھا، اور اگر وہ واقعہ، وقت کی گنگا نہا کر مقدس ہو چکا ہو، تو یہ دکھ اضافی ہے ۔ بات ترش ہو رہی تھی۔ موضوع بدلنے کی خاطر میں نے دندی نظام کی کسی یاد کا پوچھا۔

 محمد حسین صاحب کے پاس اوروں کی طرح کوئی دلچسپ کہانی نہیں تھی۔ دندی نظام، گجرات کا ایک عام سا گائوں تھا جس میں زیادہ تر گھر ہندووں اور سکھوں کے تھے۔ گائوں میں ایک گرودوارہ، ایک تالاب، ایک مسجد اور ایک مندر تھا۔

“آپ لوگوں کا آپس میں رہن سہن کیسا تھا”، میں نے سوال کا سکیل تھوڑا آگے بڑھایا۔

“وہ پرانے لوگ تھے۔ ہمارے ساتھ ہندووں کا گھر تھا۔ پشوری لعل، سندر لعل اور سرداری لعل۔۔۔یہ تین بھائی تھے اور ان کے والد کو میں چاچا کہتا تھا۔ چندو رام نام تھا ان کا۔ ان کی چکی تھی، دانوں سے آٹا پیس کر بیچتے تھے۔ ان کی بیوی تھی بی بی ۔۔وہ مجھے بیٹے کی طرح چاہتی تھی۔ “

 ہمیں مائیک ایڈجسٹ کرنا تھے، سو گفتگو منقطع کرنا پڑی۔ مگر جب دھاگے میں دوبارہ گانٹھ لگی تو محمد حسین صاحب سن سینتالیس کے کامونکی میں تھے۔

” پاکستان بنا تو پوری دنیا اتھل پتھل ہو گئی۔ اب میں آپ سے کیا کہوں کہ ہندو غلط تھے یا مسلمان غلط تھے۔۔ بات یہ ہے کہ یہاں ہمارے لوگ، ہندووں کو مارتے تھے اور وہاں ان کے لوگ مسلمانوں کو ۔ اب ہم تو فوجی تھے۔۔ ہماری تو ڈیوٹی لگی ہوئی تھی کہ ادھر کے لوگوں کو بچا کے باردڑ پہ چھوڑ کر آنا اور ادھر سے ٹرین لے کر آنا مسلمانوں والی۔  کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس کا دھیان رکھنا۔ “

کامونکی سٹیٰشن پہ رکی اس گاڑی کو یہیں رات گزارنا تھی اور مقامی لوگوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ محمد حسین صاحب کی کمپنی کا پہرہ کڑا تھا۔  سو بلوائی باہر انتظار کرتے رہے۔  عارضی طور پہ بنائے گئے کیمپ کے اندر، آدم کی آدھی اولاد خوف سے کانپتی تھی اور باقی کیمپ سے باہر، غصے سے۔

“اتنی دیر میں ایک آدمی میرے پاس آیا اور بیت الخلا جانے کا کہا۔ ایس او پی تھی کہ گارڈ کا آدمی ساتھ جائے گا۔ سٹیشن کے ساتھ کھلی جگہ ہے شنٹنگ کی۔ میں اس کو لے کر گیا۔ وہاں میرا ہی ایک ساتھی آ گیا۔ وہ، ادھر کے  لوگوں سے مل کر اس چکر میں تھا کہ کوئی بندہ باہر نکلے اور ہم ماریں اسے۔”

“میرے پاس بندوق تھی وہ میں نے اسے دکھائی تو وہ کہنے لگا کہ تو مجھ سے کیوں ناراض ہے۔ میں نے کہا ان کی حفاظت ہماری ڈیوٹی ہے۔ وہ باز نہیں آٰیا۔ اتنے میں پرے بیٹھے ہوئے لوگوں نے گولیاں چلائی اور وہ شرنارتھی مر گیا۔ پھر میں نے بھی فائر کیا، ان لوگوں کو گولیاں لگیں لیکن وہ بھاگ گئے۔ آپ دیکھیں نا ۔۔ہماری تو ڈیوٹی تھی ان لوگوں کی جان بچانا ۔”

محمد حسین صاحب نے اتنا بڑا جملہ ایسی سہولت سے کہہ دیا جیسے فوجی ڈیوٹی، قوم اور مذہب کی تقسیم سے پرے، کسی اور گروہی بندوبست کا نام تھا۔

“آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔۔۔”

“نہیں، انگریز افسر تھے۔ انہیں بھی پتہ تھا۔ کارروائی کا وقت ہی نہیں تھا۔ بس وارننگ دے کر چھوڑ دیا۔ “

سن باسٹھ میں محمد حسین صاحب نے اپنی نوکری پوری کی اور انگلستان آ گئے۔ جہاں ان کی زندگی ٹرانسپورٹ فار لندن کے ساتھ گزری۔ والتھم سٹو کے اس پرانے گھر کے آتشدان پہ سالوں کی گنتی تصویروں کی صورت ہوتی ہے۔ سام نے مائیک اتار کر لپیٹا تو ان کی آنکھوں کی چمک، اٹکے ہوئے آنسووں میں تقریبا ڈوب چکی تھی ۔

وہ اپنے کمرے میں جانے کے لئے اپنے بیٹے کے سہارے اٹھے اور پھر کہنے لگے

“حالات ایسے ہیں کہ آدمی بول بھی نہیں سکتا۔۔۔ جب پاکستان بنا تو وہ لوگ جانا نہیں چاہتے تھے۔ بی بی کا بیٹا کیسر، میرا دوست تھا اور میرا سارا بچپن، ان کے گھر گزرا تھا۔ وہ اس جگہ رہنا چاہتے تھے۔ وہ مسلمان بھی ہو گئے تھے اور ہمارے گھر آ کر قران پڑھا کرتے تھے۔ پھر ایک دن کچھ لوگ آئے۔۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ یہ مسلمان ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور انہیں مار مار کر قتل کر دیا، جو لوگ چھپ گئے تھے وہ بچ گئے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے ۔ ان کو لاہور کے بارڈر پہ میں ہی چھوڑ کر آیا تھا۔”

یہاں پہنچ کر محمد حسین صاحب بھی رک گئے، بالکل ویسے ہی جیسے میں لکھتے ہوئے رکتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ لکھوں یا نہیں۔ صوفوں، تپائیوں، ڈگریوں، دوائیوں اور تصویروں سے بھرے پرے اس کمرے میں اکیلے محمد حسین کی آواز گونج رہی تھی ۔

“جہاں ہم رہتے تھے۔ وہاں ایک تالاب تھا، پورا گائوں وہاں سے پانی بھرتا تھا۔ سب بہت اچھے رہتے تھے۔ وہ بڑا اچھا وقت تھا۔ مجھے  پتہ تھا کہ اگر ہم الگ ہوئے تو ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے لوگ کٹتے ہوئے دیکھے ہیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو لیکن میرے بس کی بات تو نہیں تھی۔”

دندی نظام سے شروع ہونے والی کہانی، 92 سال پورے کر کے والتھم سٹو پہنچی ہے۔ پاکستان میں راستہ دکھانے والے، ہندوستان میں ظلم کی تصویروں کے ساتھ تاریخ کو راست کرتے ہیں، ہندوستان کو منزل تک پہنچانے والے، پاکستان کا حال سنا کر جنتا کو ہانکا لگاتے ہیں۔ شاید دنیا میں اب دو طرح کے ہی لوگ رہ گئے ہیں ایک وہ جنہیں دوسروں کا ظلم ہی ظلم سجھائی دیتا ہے اور دوسرے وہ، جو پہلے والوں کے خوف سے خاموش، چپ چاپ دندی نظام میں چندو لعل کو مار کھاتا دیکھتے ہیں۔

پس نوشت : داستان، ایک درسگاہ کے دامن میں دیکھا گیا ان آنکھوں کا خواب ہے، جو تاریخ کو نصاب، تعصب اور وطن پرستی سے الگ دیکھتی ہیں۔ یہ طالب علم، نئے بیانیوں کی پیچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے، پرانے لوگوں کی ساد مرادی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔  (محمد حسن معراج)

https://www.kickstarter.com/projects/projectdastaan/project-dastaan-reconnecting-refugees/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments