وہ کیمپ جہاں انڈیا کے مندروں کی ’قیدی ہتھنیاں‘ چھٹیاں گزارتی ہیں


تصویر

عدالت کا کہنا تھا کہ ‘کسی دن ہم مندروں میں ہاتھی رکھنے کی روایت پر پابندی عائد کریں گے‘

انڈیا میں سال میں ایک مرتبہ کچھ قیدی ہاتھیوں کو ایک کیمپ میں لے جایا جاتا ہے جہاں ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ صحافی اومکار کھندیکر نے انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ایک ایسی ہی جگہ کا دورہ کیا ہے۔

اکیلا نامی ایک ہتھنی سات برس سے ایک مقامی سیلبریٹی کے روپ میں ہیں اس لیے انھیں تصویریں کھنچوانے کا گر خوب آتا ہے۔ وہ کیمرے کی جانب دیکھتی ہیں، اپنی سونڈ اٹھاتی ہیں اور پھر جسے ہی کیمرے کا فلیش پڑتا ہے تو وہ ساکت ہو جاتی ہیں۔

ہر روز ہزاروں افراد کی درخواست پر یہ کرنا ان کے لیے تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیے

دنیا کے پانچ چالاک ترین جانور

پشاور کے چڑیا گھر میں جانور کیوں مر رہے ہیں؟

لوگ چڑیا گھر پہنچے لیکن وہاں جانور ہی نہیں تھے

اس سب کے باوجود اکیلا اپنے روزمرہ کے کام جامبو کیسورر مندر میں مستعدی سے انجام دیتی ہیں۔

ان میں عقیدت مندوں کو دعا دینا، ایسی رسموں میں پانی لانا جن میں بتوں کو نہلایا جاتا ہے اور شہر میں مندر کی جانب سے نکالے جانے والے جلوس میں اچھا لباس پہن کر ان کی سربراہی کرنا شامل ہیں۔

اور ساتھ ہی سیلفیز بنانا بھی۔ تاہم ہر سال دسمبر میں انھیں یہاں سے چھٹی مل جاتی ہے۔

تصویر

ہر روز ہزاروں افراد کی درخواست پر یہ کرنا ان کے لیے تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے

اکیلا کی دیکھ بھال کرنے والے بی ارجن کا کہنا ہے کہ ’جب ان کو لے جانے والا ٹرک آئے گا تو مجھے انھیں یہ بھی نہیں کہنا پڑے گا کہ اس پر چڑھو اور جلد ہی وہ اپنے دوستوں میں موجود ہوں گی۔‘

انڈیا میں تقریباً 27 ہزار جنگلی ہاتھی موجود ہیں۔ ان ہاتھیوں میں سے ڈھائی ہزار ریاست آسام، کیرالا، راجھستان اور تمل ناڈو میں قید ہیں۔

انڈیا کو ’ہاتھیوں کو سدھانے اور انھیں انسانوں کے کاموں کے لیے استعمال کرنے کی درسگاہ‘ سمجھا جاتا ہے تاہم وہاں ہاتھیوں کو صدیوں سے قید میں رکھا جا رہا ہے۔

17 برس قبل، جانوروں کے حقوق کے کارکنوں نے قید میں رکھے جانے والے ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں پر تشدد کرنے اور انھیں بھوکا رکھنے پر احتجاج کیے جس کے بعد حکومت نے ان ہاتھیوں کو آرام دینے کے بارے میں اقدامات کیے۔

تصویر

یہ کیمپ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ایک کڑی ہیں اور یہ ریاست کے ہاتھیوں کے لیے ایک مقبول ایونٹ بن چکا ہے

یہی وجہ تھی کہ اکیلا اور دیگر ہاتھیوں کو جنھیں انڈیا کے مختلف مندروں میں قید رکھا گیا تھا اب آرام کرنے کے لیے ان کیمپس میں بھیج دیا گیا ہے۔

متعدد ہفتوں کے لیے ان جانوروں کو نلگرس کی پہاڑیوں تلے ایک چھ ایکڑ پر محیط جنگل میں رکھا جاتا ہے۔

یہ کیمپ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ایک کڑی ہیں اور یہ ریاست کے ہاتھیوں کے لیے ایک مقبول ایونٹ بن چکا ہے۔

اکیلا اور 27 دیگر ہاتھی ایک اسے کیمپ کا حصہ ہیں جو گذشتہ برس 15 دسمبر کو شروع ہوا تھا اور یہ 31 جنوری تک چلتا رہے گا۔

اس کیمپ میں آنے والے اخراجات کا تخمینہ تقریباً دو لاکھ ڈالر ہے۔

اس کیمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ پیسے اچھی جگہ پر لگ رہے ہیں۔ اس علاقے میں محکمہ جنگلات کے ایک افسر ایس سیلواراج کہتے ہیں کہ شہر سے کچھ عرصے کی دوری ان ہاتھیوں کے لیے ذہنی سکون کا باعث ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جنگلی ہاتھی کم از کم 35 ہاتھیوں کے جھنڈ میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن جب یہ مندر میں ہوتے ہیں تو یہ اکیلے ہوتے ہیں۔ یہاں رہتے ہوئے 48 دنوں میں یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور نارمل زندگی بسر کرتے ہیں۔’

16 برس کی اکیلا اس کیمپ میں سنہ 2012 سے باقاعدگی سے آ رہی ہیں۔ یہ وہی سال ہے جب انھیں اس مندر کو بیچا گیا تھا۔ ارجن نے ہر سال اکیلا کی دیکھ بھال کی ہے اور ان کے آباؤ اجداد بھی ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرتے آئے ہیں اور یہ اس چوتھی نسل میں سے ہیں۔

تصویر

ارجن بتاتے ہیں کہ اکیلا نے ایک دوسری ریاست کے مندر کے ایک ادھیڑ عمر ہاتھی انڈل سے دوستی بھی کر لی ہے

اس کیمپ میں اکیلا دن میں دو مرتبہ نہاتی ہیں اور اسے مختلف قسم کی دالیں، پھل اور سبزیاں کھلائی جاتی ہیں۔ اس کھانے میں انھیں وائٹامن بھی دیے جاتے ہیں اور انھیں گھومنے پھرنے کے لیے میدانوں میں بھی لے جایا جاتا ہے۔

کیمپ میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم موجود ہوتی ہے جو کیمپ میں آئے ان مہمانوں کی صحت پر نظر رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ان ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والوں ہاتھیوں کی غذا اور ورزش کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کرتے ہیں۔

ارجن بتاتے ہیں کہ اکیلا نے ایک دوسری ریاست کے مندر کے ایک ادھیڑ عمر ہاتھی انڈل سے دوستی بھی کر لی ہے۔

تاہم ان گھنے درختوں اور اس خاموشی کے باوجود یہ کیمپ ان ہاتھیوں کے لیے عام زندگی گزارنے کی جگہ نہیں ہے۔

اس قلعہ نما کیمپس کی اونچی دیواروں پر آٹھ واچ ٹاور ہیں اور اس کی حدود پر تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر لمبی برقی تار بھی لگی ہے۔ حالانکہ ان ہاتھیوں کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے لیکن یہ زیادہ تر وقت زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے ان پر نظر رکھتے ہیں۔

تصویر

ممبئی میں پودوں اور جانورں کی فلاحی سوسائٹی سے تعلق رکھنے سنیش سبرامانیئن کا کہنا ہے کہ ‘چھ ہفتوں کا کیمپ ایسا ہی ہے جیسے سزائے موت کے قیدیوں کو پیرول پر چھوڑا جاتا ہے

جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایک سال میں چھ ہفتوں کا ایک کیمپ ان ہاتھیوں کو مندروں میں ملنے والے ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں زیادہ مدد نہیں کرتا۔

ممبئی میں پودوں اور جانورں کی فلاحی سوسائٹی سے تعلق رکھنے سنیش سبرامانیئن کا کہنا ہے کہ ’چھ ہفتوں کا کیمپ ایسا ہی ہے جیسے سزائے موت کے قیدیوں کو پیرول پر چھوڑا جاتا ہے۔

’ان کیمپوں میں بھی جانوروں کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے اور متعدد مرتبہ وہاں کا ماحول صحت کے لیے مضر ہوتا ہے۔ اگر آپ اس روایت کو جاری رکھیں تو ان ہاتھیوں کو سال کے زیادہ تر حصے میں ان کیمپس میں رکھنا چاہیے اور انھیں صرف تہواروں کے دنوں میں مندروں میں لے کر جانا چاہیے۔‘

ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی انڈل اور اکیلا کو قریب نہیں آنے دیا جاتا۔

ارجن بتاتے ہیں کہ ‘مجھے اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ میں ان دونوں میں فاصلہ رکھوں ورنہ جب یہ واپس جانے لگیں گیں تو انھیں الگ کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘

یہ صرف جانوروں کے حقوق کے کارکن ہی نہیں ہیں جن کے اس حوالے سے تحفظات ہیں۔

یہ کیمپ اب ایک سیاحتی مقام بھی بن گیا ہے اور آس پاس کے گاؤں سے متعدد افراد یہاں آتے ہیں۔ زیادہ تر انھیں پھٹی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں لیکن ہر کوئی اس کیمپ سے خوش نہیں ہے۔

سنہ 2018 میں، کسانوں کی 23 رکنی یونین نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ اس کیمپ کو کہیں اور منتقل کیا جائے۔

اس درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مندروں سے یہاں آنے والی ہتھنیوں کی خوشبو کی کشش سے جنگل میں موجود ہاتھی متاثر ہوتے ہیں۔

تصویر

‘میں اسے اپنی ماں کی طرح پیار کرتا ہوں۔ یہ میرے خاندان کو کھانا دیتی ہے میری ماں کی طرح۔ مجھے نہیں معلوم میں اس کے بغیر کیا کروں گا۔‘

اس کے باعث وہ جھنجھلا جاتے ہیں اور ان فصلوں کو تباہ کرتے ہیں جن پر ان کسانوں کا روزگار منحصر ہے۔ یونین کا کہنا ہے کہ مختلف واقعات میں اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

تاہم عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کے برعکس عدالت نے سوال کیا ہاتھیوں کی اماجگاہ میں انسانی بستیاں کیوں آباد ہیںگ۔ انھوں نے ریاستی حکومت پر تنقید کی کہ اس نے ان مندروں کو ہاتھی رکھنے کی رعایت دی ہوئی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’کسی دن ہم مندروں میں ہاتھی رکھنے کی روایت پر پابندی عائد کریں گے۔‘

تاہم ارجن اکیلا سے الیحدہ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں اسے اپنی ماں کی طرح پیار کرتا ہوں۔ یہ میرے خاندان کو کھانا دیتی ہے میری ماں کی طرح۔ مجھے نہیں معلوم میں اس کے بغیر کیا کروں گا۔‘

تاہم انھیں اس بات کا بھی اندازا ہے کہ یہ ہاتھی اکیلا ہو جاتا ہے۔ ’اسی لیے دگنا کام کر کہ اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ یہ اکیلا نہ رہے۔‘

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp