فیمنزم کیا ہے؟


”میرے پاس تم ہو“ نے کچھ کیا نہیں کیا، فیمنزم کے بارے میں ایک صحت مند بحث ضرور چھیڑ دی۔ چاہے وہ خلیل الرحمن قمر اور طاہرہ عبداللہ صاحبہ کا مکالمہ ہو یا مختلف طبقے کی خواتین کا احتجاج، معاشرے میں مرد اور عورت کے کردار اور افکار پہ بات کی گئی جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔

فیمنزم کیا ہے؟ مختلف لوگ اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں اور اکثر لوگ اس لفظ سے خائف ہو جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس لفظ کے ساتھ کئی منفی رویئے اور غلط فہمیاں بھی جڑی ہوئی ہیں مثلاً اکثر لوگ یہ لفظ سن کے اس لیے بدک جاتے ہیں کہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کا واسطہ ایسی لبرل خواتین سے پڑ گیا ہے جو ساری مذہبی اور سماجی بندشیں توڑ کر سڑک پہ آنے کو بیتاب ہیں، نہ گھر سنبھالنا چاہتی ہیں نہ بچے۔ ہر معاشرتی قید توڑ کر بس اپنی زندگی آپ جینا چاہتی ہیں اور مردوں سے نفرت کرتی ہیں۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔

ہمارے معاشرے کی منافقت اور دوغلا پن یہ ہے کہ اس میں مذہب، اقدار، روایت اور خواتین کے احترام کی بات تو خوب خوب کی جاتی ہے لیکن عمل صفر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے درمیان ہونے کے باوجود عورت ہمارے معاشرے میں محفوظ نہیں۔ چاہے وہ چھوٹی بچی ہو، طالبہ ہو، گھریلو خاتون ہو یا کوئی ورکنگ ویمن اس کو گلی سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ تک اور درسگاہوں سے لے کر دفتروں تک ہر جگہ کسی نہ کسی صورت بد تمیزی اور ہراسمنٹ کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور ایسے می بیشتر لوگ مذہب، اقدار اور معاشرت سب بھول جاتے ہیں۔

”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ بھی کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ ہمارے ہاں گھٹن زدہ ذہنیت رکھنے والے مرد کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عورت کتنی ڈھکی چھپی ہے۔ خواتین کو کبھی لیموں اور کبھی لولی پاپ سے تشبیح دینے والے جب شیطانیت پہ آتے ہیں تو برقع اور عبایہ میں لپٹی عورتوں کو دیکھ کے ان کا تجسس دوچند ہو جاتا ہے۔

اسکا حل کیا ہے یہ سوال تو بڑا مشکل ہے کیوں کہ ذہن کھولنے اور گھٹن ختم کرنے اور سوچ بدلنے کو ایک عمر کی ریاضت درکار ہے جو اپنے بچوں خصوصاً بیٹوں کی مثبت اور متوازن تربیت کے بعد ہی ممکن ہے لیکن میرے یا ایک عام عورت کے نزدیک فیمنزم کی تعریف یہ ہے کہ ہر چند جسمانی طور پہ عورت صنف نازک ہے لیکن دل اور ذہن مرد جیسا ہی رکھتی ہے۔ پسند، ناپسند، بولنے سوچنے اور رائے رکھنے اور دینے کا حق میرے نزدیک فیمنزم ہے۔ وہ عزت احترام اور تمیز جو کسی لڑکوں سے بھری کلاس میں ایک لڑکی کو بہت سارے نکموں کے سامنے سوال کرنے سے دس بار سوچنے پہ مجبور نہ کرے کہ خواہ مخواں اس کی تضحیک کی جائے گی۔

جو بازار میں سکون سے خریداری کرتی خاتون کو اس خوف میں نہ مبتلا کرے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا آواز کستا یا چھوتا ہوا گزرجائے گا۔ عورت بھی ذہن، دل اور مزاج اور شوق رکھتی ہے اس کے بارے میں سوچا جائے، کوئی پریگننٹ خاتون دفتر آئیں یا کوئی ٹیچر لڑکوں سے بھری کلاس میں پڑھانے آئے تو اُس پہ جملے اور آوازیں نہ کسی جائیں اس کو وہی عزت اور وقار دیا جائے جس کی وہ حقدار ہے۔ گاڑی چلاتی خاتون کو دیدیے پھاڑ کے نہ دیکھا جائے اور بلا وجہ نیچا دکھانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں استعمال نہ کیے جائیں۔ ہمارے معاشرے کی عام عورت بس اتنا ہی فیمنزم چاہتی ہے، یہی مل جائے تو بہت ہے۔

رہا ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ تو بھائی آپ کو اللہ میاں کی پولیس بننے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ اپنے بندے سے خود حساب کتاب کر لے گا۔ ”غلط“ کا سب کا اپنا اپنا معیار ہے، ماڈسٹی اور ڈھکا چھپا لباس پہننا اچھی بات ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ بھی تحفظ کی دلیل نہیں ہے۔ آپ جس کو صحیح سمجھتے ہیں اسی پیمانے سے سب کو تولتے ہیں۔ جو اللہ فاحشہ عورت کو صرف کتے کو پانی پلانے پہ بخش سکتا ہے اس کو لوگوں کے بناے ہوے معیار کی کوئی ضرورت نہیں اور کون جانے کب کس کو کیسے ہدایت نصیب ہو جائے اور ہم اپنی نفرت اور ججمنٹ کے ساتھ منہ دیکھتے رہ جائیں۔

جو صحیح ہے اس کو خود پہ اور اپنے گھر پہ لاگو کریں معاشرہ خود بہ خود بہتر ہو جاے گا، ہمارا ایمان اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ کسی کے لباس سے ڈانواں ڈول نہ ہو۔ اگر آپ کو کسی کا لباس گراں گزرتا ہے یا آپ کے بنائے ہوئے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس کا بڑا ہی آسان حل ہے ”مومن مردوں سے کہہ دو اپنی نظریں نیچی رکھیں“، یہ آیت کا وہ پہلا حصہ ہے جو ہم اکثر کھا جاتے ہیں اور دوسرا ہمیشہ ہائی لائٹ کیا جاتا ہے، توازن دونوں پلڑوں میں ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments