ایم این ایس کے راج ٹھاکرے کی سیاسی تبدیلی


مہاراشٹر نَونِرمان سینا (ایم این ایس) نے اپنا رنگ ڈھنگ اچانک تبدیل کر دیا ہے۔ اُس نے نہ صرف اپنا تین رنگ والا پرچم تبدیل کر لیا بلکہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی بھی شروع کر دی ہے۔ ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے نے بالا صاحب ٹھاکرے کے یومِ پیدائش کی مناسبت سے اپنی پارٹی کا پرچم جو پہلے زعفرانی، نیلا اور سبز رنگ کا تھا، اُسے مکمل زعفرانی کر دیا۔ نئے زعفرانی پرچم کے درمیان شیواجی مہاراج کی ’راج مدرا (شاہی مہر) ‘ بھی رکھی ہے۔ اِس موقع پر اُنہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے دراندازوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کے لئے مودی حکومت کو اُن کی پوری تائید حاصل ہے۔

حالانکہ ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے اُنہوں نے چار دنوں بعد اپنے اِس سنسنی خیز بیان کو واپس لے لیا اور کہا کہ وہ سی اے اے کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کی مطابق راج ٹھاکرے کی 23 /جنوری کی تقریر میں سی اے اے کی حمایت کے بعد سے ایم این ایس کے عام پارٹی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اِس بات پر الجھن میں تھی کہ جس مسئلے کے خلاف نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سڑک پر ہے اُس کی حمایت کرنے سے کہیں پارٹی کا سب سے بڑا حمایتی نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ناراض نہ ہو جائے۔ اِس سلسلے میں پارٹی رہنماؤں نے منگل کے روز راج سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور اُنہیں عوامی جذبات سے آگاہ کیا۔

جہاں تک راج ٹھاکرے کی سیاسی تبدیلی کا سوال ہے تو اُنہوں نے سیاسی فہم کو بروئے کار لاتے ہوئے یو ٹرن لیا ہے۔ سیاست میں یو ٹرن لینے کا محرک یہ ادراک ہے کہ قبل ازیں سیاسی پالیسی کمزور یا غلط تھی۔ آنجہانی بال ٹھاکرے کی حقیقی مشابہت کی عکاسی کرتے ہوئے راج ٹھاکرے نے اشارہ دیا ہے کہ وہ چچا کی میراث کو آگے بڑھانے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ دراصل راج ٹھاکرے نے خود کو بال ٹھاکرے کے جانشین کے طور پر دیکھا ہے۔ راج ٹھاکرے نے تلخی اور تیور تو ضرور چچا بال ٹھاکرے سے سیکھ لیا، لیکن شاید اور مزید کچھ سیکھنے سے پہلے ہی یہ بھتیجا اپنے بے لگام عزائم کے سبب چچا بالا صاحب کی ’چھتر چھایا‘ سے باہر نکل گیا۔

فی الحال راج ٹھاکرے اپنے سیاسی وجود کی بقاء کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ راج ٹھاکرے کی نئی حکمت عملی کے تحت اُن کے بی جے پی کے ساتھ جانے کی باتیں چل رہی ہیں لیکن راج ٹھاکرے نے ابھی اِس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا ہے اور سسپنس برقرار رکھا ہے۔ سی اے اے کی حمایت سے ایسا محسوس ہوا تھا کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف زبردست مہم چلانے والے راج ٹھاکرے بی جے پی میں شامل ہو کر شیوسینا کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں مودی حکومت کی جانب سے عدنان سمیع کو پدم شری ایوارڈ سے نوازے جانے کی مخالفت کر کے راج ٹھاکرے نے اِس سسپنس کو مزید بڑھا دیا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے، اگر کسی صورت راج ٹھاکرے مراٹھی بقاء اور ہندوتوا کے ایجنڈے کو لے کر بی جے پی کے ساتھ جانا چاہیں تو کیا بی جے پی اُن کو اپنے ساتھ لینے میں دلچسپی رکھتی ہے؟ کیونکہ راج ٹھاکرے نے پارٹی تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے کچھ زیادہ محنت نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم این ایس مہاراشٹر کے سیاسی نقشہ میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ آپ دیکھیں جب مہاراشٹر میں انتخابات ہوتے ہیں تب وہ صرف کچھ ریلیاں کرتے ہیں اور حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں راج ٹھاکرے جان بوجھ کر یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو ترقی کے لئے مزید بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔

بہرحال جب سے سخت گیر ہندوتوا کی شبیہ رکھنے والی پارٹی شیوسینا نے بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس اور این سی پی کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے تب سے یہ مانا جا رہا ہے کہ شیوسینا اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے سے انحراف کر رہی ہے۔ اِسی صورتحال کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں راج ٹھاکرے سخت گیر ہندوتوا کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر حاشیہ پر چلی گئی پارٹی کو قومی دھارے میں واپس لانے کے خواہشمند ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ مہاراشٹر میں شیوسینا نے بی جے پی کی ”بی ٹیم“ بننے سے انکار کر دیا۔ اِسی لئے راج ٹھاکرے اُس جگہ کو پُر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ اپنی اِس سیاسی تبدیلی میں کتنے کامیاب ہو پاتے ہیں؟

فیصل فاروق، ممبئی، انڈیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فیصل فاروق، ممبئی، انڈیا

فیصل فاروق ممبئی، اِنڈیا میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صَحافی ہیں۔

faisal-farooq has 32 posts and counting.See all posts by faisal-farooq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments