کیا نیب واقعی عیب بن چکا ہے؟


نیب کا ادارہ اپنے قیام سے لے کر اب تک تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی احتساب کے ایجنڈے کے تحت قائم کیا گیا یہ ادارہ اب ملک کے تمام طبقات، اداروں اور سیاست کے لئے نہ صرف عذاب بن چکا ہے بلکہ ایک بدنما دھبے، ایک عیب کی طرح پاکستانی سیاست اور معاشرے کے چہرے کو انتہائی مسخ کر چکا ہے۔ میاں نواز شریف کے دور میں سیف الرحمان کی سربراہی میں شروع ہوا یہ عیب دار انتقامی احتساب وزیراعظم عمران خان کے اقتدار تک پہنچتے پہنچتے انتہائی مکروہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج عدلیہ سمیت ہر طبقہ نیب کے کردار، اہلیت، طریقہ کار اور انتہائی بھونڈی کارروائیوں پہ نہ صرف سنجیدہ نوعیت کے سوال کھڑے کرتا نظر آرہا ہے بلکہ اس ادارے کے وجود کے ہی درپے نظر آتا ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ نیب اب ایک استحصالی ادارہ بن چکا ہے بہتر ہے یہ قانون ہی ختم کردیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان جو کرپشن کے خلاف انتہائی مضبوط اور دوٹوک بیانیہ اختیار کرکے برسرِ اقتدار آئے تھے، محض ڈیڑھ سال کے دورِ حکومت میں کڑے احتساب کو بدترین استحصال میں تبدیل کر دیا۔ وزیراعظم نے عوام سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف بلا امتیاز، ہر سیاسی ذاتی مصلحت سے بالاتر ہوکر سخت اور کڑے احتساب کا وعدہ کیا تھا مگر اپنے ہی بلا امتیاز غیر جانبدارانہ احتساب کی دھجیاں بھی وزیراعظم عمران خان صاحب نے خود ہی اڑائی ہیں۔

وزیراعظم منتخب ہوتے ہی اپنی پہلی تقریر میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو احتساب کا خوف دلاتے ہوئے للکار کر کہا تھا کہ چور ڈاکو، ملک کو لوٹنے والے، ملک کا پیسہ باہر بھیج کر منی لانڈرنگ کرنے والے اب جیلوں میں جانے کے لئے تیار ہوجائیں، مگر یہ بھول گئے کہ اس تقریر کے دوران ان کے جو حامی انہیں اپنے حصار میں لئے ہوئے تھے ان میں سے بیشتر اربوں کھربوں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔

ان کے سب سے چہیتے آنکھوں کے تارے دل کے چین جہانگیر ترین سپریم کورٹ سے بے ایمان کرپٹ قرار پاکر تاحیات نا اہل ہو چکے تھے۔ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پنجاب کے سپیکر بن کر خود ان کا ہی منہ چِڑا رہے تھے۔ آٹے، چینی، ڈالروں کے سوداگر ان کی چھپر چھایا میں تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ احتساب کے منہ پہ تھوک رہے تھے۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں پاکستانی عوام نے تبدیلی کے نام پہ جو لکی ایرانی سرکس دیکھا وہ شاید اس سے پہلے ملکی تاریخ میں کبھی نہ لگا ہوگا، ملک کے بیرونی معاملات ہوں یا اندرونی، معاشی ہوں یا سیاسی، جس غیر سنجیدہ، غیر سیاسی، غیر پیشہ ورانہ، غیر اخلاقی، غیر تہذیب یافتہ انداز میں ان معاملات کو چلایا گیا اس کی نظیر اس سے پہلے ملک کی باہتر سالہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ احتساب کے نظام کے ساتھ تو وہ کھلواڑ کیا گیا کہ صرف اٹھارہ ماہ میں ہی ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی نظامِ احتساب کو متنازعہ، غیر شفاف اور انتہائی بھونڈا قرار دینے پہ مجبور ہوگئیں۔

خان صاحب کے معتقدین خاص ٹی وی چینلز پہ بیٹھ کر ہر دوسرے تیسرے روز کسی نہ کسی مخالف سیاسی رہنماء کی گرفتاری کی پیشنگوئی کرتے اور احتساب کے نظام کی شفافیت پہ خود ہی سوال کھڑے کرتے نظر آتے رہے۔ اسی احتساب احتساب کے کھیل کے دوران ہی چیئرمین نیب جن کو روز روز میڈیا میں آکے ہیرو گیری کا بڑا شوق ہے نے ایک تقریب میں کہہ دیا کہ اگر وہ چاہیں تو پی ٹی آئی سرکار ایک لمحے میں گِر سکتی ہے کیونکہ ان کے پاس سرکار کے بڑے بڑوں کے خلاف خاصے ثبوت ہیں جو ان کے خلاف کارروائی کے لئے کافی ہیں۔

ان کا یہ بیان ان کو خاصہ مہنگا پڑا، خان صاحب کے ایک قریبی دوست کے چینل نے چیئرمین نیب کی ایک خاتون کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی ناشائستہ وڈیو اور آڈیو منظرِ عام پہ لاکر سارے احتسابی ادارے کو ہی غلاظت زدہ عیب دار بنا ڈالا، جاوید اقبال صاحب جو کہ بحیثیت چیئرمین نیب اپنا اخلاقی جواز، اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت پہلے ہی کھو چکے تھے اس وڈیو کے بعد تو ان کا اس انتہائی معتبر ملکی ادارے کی سربراہی پہ برقرار رہنے کا جواز اخلاقی، قانونی شرعی اعتبار سے ختم ہو چکا تھا۔

حکومت کو چاہیے تھا کہ جیسے سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا گیا اسی طرح نیب جیسے آئینی ادارے کے سربراہ کے خلاف انکوائری کروا کر ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیتے مگر خان صاحب کی حکومت نے اس غیر اخلاقی ناشائستہ حرکت کی وڈیو کو بلیک میلنگ ٹول کے طور پہ استعمال کیا جبکہ چیئرمین نیب نے بھی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف انتقامی عیب دار احتساب میں تیزی دکھا کر حکومت کے آگے سرنگوں کیا۔ لیکن یہ نیب اور سرکار گٹھ جوڑ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا اور ایک بار پھر معاملات اس نہج پہ پہنچے کہ خان صاحب کی سرکار کو مجبوراً نیب کے پر کاٹنے اور اسے عضو معطل بنانے کے لئے صدارتی آرڈیننس لانا پڑا جس کے تحت نیب اور چیئرمین کے لامحدود اختیارات کے جن کو ایک بوتل میں بند کر دیا گیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ نیب قانون کی شقیں 14 (ڈی) ، 15، 25 (اے ) 26 (اے ) شریعت سے متصادم ہیں، عمومی طور پر پورا نیب آرڈیننس ہی قرآن و سنت کی اصل روح کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی حکومت کو تین ماہ میں قانون سازی کرکے نیب قوانین میں ترامیم کا حکم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک ایسا قانون جو روز اول سے ہی آئین سے متصادم ہے۔ جو غیر اسلامی، غیر انسانی اور عالمی قانون و انصاف کے تقاضوں کے بھی برخلاف ہے کب اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔ آیا جیسے سیاسی جماعتوں کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی کے موقع پہ پھرتی اور سعادت مندی دکھائی گئی اس قبیح غیر اسلامی قانون کی تبدیلی کی موقع پہ بھی دکھائی جاتی ہے یا اب بھی حقیقت میں عیب بن چکے اس قانون کی تبدیلی کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments