بیروزگار صحافی اور عمران خان کا قصور


میں ایک نیوز چینل میں کام کرتا ہوں۔ گزشتہ دو ماہ سے میری تنخواہ نہیں آئی۔ ایسا اس چینل کے بننے کے دو سال کے اندر دوسری مرتبہ ہو رہا ہے۔ میری جیب میں لے دے کے اب دو سو روپے موجود ہیں۔ یہ اس ایک ہزار کے نوٹ سے بچے تھے جو پچھلے ہفتے میرا ایک بچپن کادوست جس نے ایک دن شام کا کھانا میرے ساتھ کھایا اور میرے خالی بٹوے میں جھانکتے ہوئے زبردستی میری میز پر رکھ گیا تھا۔ سوچئے اگر آپ میں کبھی ایسی عادت رہی ہو کہ آپ نے کبھی کسی سے ایک پائی ادھار نہیں لیا ہو، تو کیا گزری ہو گی اپنی میز پر وہ ایک ہزار کا نوٹ دیکھ کر، اس کے ہاتھ نے اس نوٹ کے بوجھ کے ساتھ میز کی سطح سے جیب تک کا سفر کیسے کیا ہو گا؟

آج صبح میں دفتر کے لئے نکلا تو میری موٹر بائیک جو کافی روز سے ’کرڑ۔ ‘ ’کرڑ۔ ‘ کی گردان سنائے جا رہی تھی، ارفع کریم ٹاور کے پاس پہنچ کر ایک ببانگِ دہل، اورطویل ’کرڑڑڑڑڑڑ۔ ”کے ساتھ فیروز پور روڈ کے کنارے سے آ لگی، میں نے مُڑ کر جو دیکھا تو شکر ادا کیا چلو پوری کی پوری بائیک ایک حصے میں موجود ہے، صرف چین ٹوٹی ہے۔ موصوفہ جب رکیں، تو میں نے شکر کا کلمہ پڑھا کہ پیچھے سے آتی ہوئی کسی قصور کی کوسٹر نے مجھے کچل کر بابا بلھے شاہ کے قدموں میں نہیں پہنچا دیا۔ کلمہ پڑھ کے کلمہ چوک ہی کی طرف منہ کر کے بائیک کو ساتھ ساتھ گھسیٹنا شروع کیا، کہ اسی جانب تو تھی ہماری منزلِ نامراد۔ میٹرو کا پارک اینڈ رائیڈ آیا تو سوچا یہاں بائیک کھڑی کر کے دفتر پیدل چلا جاوں۔ لیکن پھر اس جیب کا خیال آیا۔ کہ اگر یہ دو سو بھی لگا دیے تو پھر کہاں کو جاوں گا؟

مجھے خبروں والے چینلوں میں کام کرتے پانچواں سال ہو چلا۔ اس سے پہلے میں ریڈیو میں تھا۔ آج کل لاہور کے ایک معروف چینل میں کام کر رہا ہوں۔ قلم کو جنبش اس لئے دینا پڑی کہ اب آواز نہ اٹھاتے تو شاید وہ لوگ مجھے معاف نہ کرتے جن کی تنخواہ میری طرح دوسری مرتبہ دو مہینے لیٹ ہوئی، اور وہ لوگ جنہیں سیٹھ نے نوکریوں سے نکال دیا گیا اور ان کے بچوں کو سکول والوں نے۔

تو میں بتا رہا تھا کہ میری تنخواہ دوسرے مہینے بھی نہیں آئی تھی۔ حالات یہ تھے کہ اس دوران میں ہفتے کے چار دن دفتر کے میس سے ایک وقت کا کھانا مفت میں کھا لیتا تھا۔ باقی تین دن، جن میں ایک ہفتے کا روز جب میری رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے، دوسرا سوموار کا دن جب میری چھٹی ہوتی ہے اور تیسرا اتوار کا دن جب میس یعنی لنگر بند ہوتا ہے، شامل ہیں۔ ان تین دنوں میں کسی نہ کسی دوست کو پیغام بھیجتا ہوں، کہ یار ملتے ہی نہیں تم۔ آو نا ملتے ہیں، بتاؤ کہاں آنا ہے؟ اور اس طرح ایک وقت کا کھانا کھا لیتا ہوں۔ یا ایک دوست کی کھولی پر چلا جاتا ہوں۔ اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بھوکا رہ لیتا ہوں! ایک دو بار تو ایسابھی ہوا کہ جمعے کو دفتر سے کھا کر آیا اورمنگل کو دفتر جاکر ہی کھانا تناول فرمایا۔

مجھے ایک مخلص کا میرے بارے میں وہ تبصرہ یاد آگیا۔ جب میں لاہور میں نیا نیا آیا تھا، اور اسی طرح ایک اور چینل میں کام کرتا تھا وہاں بھی کام کے پیسے نہیں ملے تھے۔ تو انہوں نے اپنی بڑی بہن کو میرے بارے میں بتایا، کہ ایک بچہ ہے، لیکن اس کی عجیب بات یہ ہے کہ وہ کھانے کو عجیب انداز میں دیکھتا ہے! لیکن صرف جوس منگواتا ہے، اور وہی پی لیتا ہے، کبھی حد ہو گئی تو پیٹیز میں سے ایک آدھ کھا لیتا ہے۔ مجھے جب بعد میں انہوں نے یہ بتایا تو مجھے بالکل تعجب نہ ہوا! کیونکہ میں عجیب طرح سے دیکھتا تھا، کنکھیوں سے دیکھتا تھا، ندیدہ نہیں تھا، لیکن بھوک بھی لگی ہوتی تھی اور حفظِ مراتب اور آداب کا بھی پاس رکھنا ہوتا تھا۔

ان دنوں میری ایک پرانی کلاس فیلو بڑی محبت سے میرے لئے پراٹھے بنا لاتی تھی، جہیں میں اپنی طرح کے ایک دو اور دوستوں کے ساتھ شئیر کر کے کھایا کرتا تھا۔ خیر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میں نے ان دنوں اپنا خیال نہیں رکھا، اور جو جوآپ ابھی اس وقت سوچ رہے ہوں گے وہ سب میں سوچ چکا ہوں، اور بخوبی جانتا ہوں! اور لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جوآپ نہیں جانتے۔ میں الحمد للہ دیسی گھی کی خوراکیں کھا کر پلا ہوا ہوں۔ اور میرے جسم میں اتنی برداشت ہے کہ اتنا بہت گرم سرد برداشت کر لوں اور گھر والوں کو زحمت نہ دوں، نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاوں۔

خیر آج صبح جب بائیک نے سلام وداع پڑھ کر سنایا اور میرے پاس اسے مرمت کرانے کو پیسے نہ تھے۔ میری جیب میں موجود دو سو روپوں سے میرے بائیک کی ٹوٹی ہوئی چین مرمت نہ ہوتی۔ سو میں نے ایک لمبا چوڑا پیغام اپنے باس کو بھیجا کہ میں آج دفتر نہیں آوں گا۔ ساتھ میں خوب جلی کٹی سنائیں۔ اس پیغام کو لکھنے میں مجھے کوئی آدھ گھنٹہ لگا، بھیجنے سے پہلے اس کے شروع میں میں ایک عبارت تحریر کی۔ ’ہَیہَات مِنَّ الذِّلَّہ‘ یہ جملہ واقعہ کربلا سے منسوب ہے، جس کے مفہوم کی تشریح کے لئے آلِ رسول ﷺ نے آلام و مصائب کو گلے لگایا تھا۔ کہ دینِ اسلام کے ساتھ یہ سلوک ہونے کے بعد اب وہ وقت آ گیا تھا کہ چپ رہنا ذلت و رسوائی کا مقام تھا دین کے لئے بھی اور دین دینے والوں کے لئے بھی۔ ایسے میں اب وہ وقت آ گیا تھا کہ قیام کیا جانا لازم تھا۔ بول اٹھنا واجب تھا۔ اس عالم میں امام حسین علیہ السلام نے یہ نعرہ بلند کیا۔ سوچ رہا تھا کہ میں نے تو لکھ دیا ’ہیہات من الذلۃ‘ ۔ کیونکہ میرے کاندھوں پر ابھی چھوٹے چھوٹے بچوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ میرے والد کو اللہ سلامت رکھے وہ اس عمر میں بھی محنت کر کے اپنے بچوں کے پیٹ میں حلال نوالہ پہنچانے کی سعی کر رہے ہیں۔

میرے ذمے میری بہنوں کی یونیورسٹی کی فیس اور کچھ تھوڑا بہت اور خرچ آتا ہے۔ جسے میں پورا کر دیا کرتا ہوں! اس کے علاوہ میرے ذمے گھر کا کرایہ ہے، جہاں میں اپنا ایک پرائیویٹ کام بھی کرتا ہوں۔ اور اس نئے کاروبار کے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی اسی تنخواہ میں بھرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک کچھ پیسے بچا بھی لیتا تھا۔ اور کبھی کبھار کسی دوست کی کال آ جاتی کہ کہاں ہو ملتے ہی نہیں۔ تو جا کر اس کو کھانا بھی کھلا آتا تھا۔ لوگوں کی مدد بھی کر دیتا تھا۔ مگر یہ ان دنوں کی بات ہے جب تنخواہ آتی تھی!

سوچتا ہوں میں نے تو ’ہیہات من الذلۃ‘ لکھ دیا اور کہا کہ تبھی دفتر آوں گا جب مجھے میری دو ماہ کی تنخواہ دی جائے گی۔ میں اس بات کا ذکر گول نہیں کر سکتا کہ جب میں پیلے یرقان سے نبردآزما تھا، اور میرے دفتر میں سوائے میری ایک سینئر کے کوئی ایسا باس نہیں نہ تھا جس نے خالی تسلی بھی دی ہو۔ مجھے صرف ڈانٹ ہی پلائی گئی کہ اتنی بھی کیا بیماری علی صاحب، بس اب آپ دفتر واپس آ جائیں۔ یہاں تک سنایا گیا کہ بہانے کرتا ہے۔ اور میں جواب میں مسکرا کر رہ جاتا۔ میرے لبوں تک یہی دعا آتی تھی کہ خدا نہ کرے کہ کسی کے ساتھ کبھی ایسا مسئلہ ہو اور پھر میں اس سے پوچھوں کہ بہانہ ہے یا بیماری! میری ساری جمع پونجی اس بیماری پر لگ گئی!

خیر میں سوچ رہا تھا کہ میں نے تو ہیہات کا نعرہ بلند کر دیا۔ کیونکہ میرے پاس ایک چھوٹا سا کاروبار بھی ہے، جو کبھی نہ کبھی تو چل ہی جائے گا۔ ایک امید ہے، ایک پلان ہے۔ پھر میری ایک اور جگہ نوکری بھی ہو گئی ہے۔ اب مجھے سمجھ میں آ رہا تھا کہ جو صدا میں نے بلند کی، وہ باقی لوگ کیوں نہیں کر پائے ہوں گے۔ جس کے بچے کے کالج سے اس مہینے بھی ایس ایم ایس آیا ہو گا کہ اگر اس بار فیس نہ آئی تو بچے کا نام نکال دیا جائے گا۔ اس ماں پر کیا گزری ہو گی جس نے اپنی آنکھوں کو رفو کر کے آنسو روکتے ہوئے میٹرک میں پڑھتی اس نوخیز جوانی کے تنے ہوئے گلے پر سے جھٹکتے ہوئے سر پہ بوسہ دیتے ہوئے اپنے لعل کے سویٹر کو یہ کہتے ہوئے سرمئی دھاگے سے رفو کیا ہو گا، کہ ’بابا کی تنخواہ آتی ہے تو میں اپنے بیٹے کو نئی جرسی لے کر دیتی ہوں! ‘ ایف ایس سی کی اس بچی کا کتنا دل چاہتا ہو گا کہ سپیڈو بس میں سفر کے دوران گھر اپنے بابا کو میسج کرنے کے لئے اس کے پاس بھی بٹنوں والے موبائل کے بجائے ایک اچھا موبائل ہو، جو اس کے چینل میں کام کرنے والے بابا اپنی سیلری آنے پر اس کے فرسٹ ائیر کے نمبروں کا گفٹ دیں گے؟

اس ادھیڑ عمر آدمی کے ضمیر نے جب اسے کچوکے لگائے ہوں گے تو کیا اس کا دل نہیں چاہا ہو گا، کہ وہ اپنا وہ کمبخت ہاتھ ہی کاٹ ڈالے جو اس نے پریشانی کی وجہ سے اپنی بیوی پر اٹھایا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میں نے تو ہیہات کا نعرہ لگا دیا۔ کیونکہ میرے پاس اور آپشن موجود ہیں، مجھے صحافت کے علاوہ اور کام بھی آتے ہیں۔ میرے تن میں ابھی جان باقی ہے۔ لیکن وہ لوگ کیسے مجبور ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اس پیغمبری پیشے کے لئے گلا چھوڑی۔

تنگی و عسرت میں زندگی گزار لی مگر اپنی اولاد کو حرام نہیں کھلایا۔ ان لوگوں کا کیا بنے گا؟ وہ لوگ صرف اسی آس پر سیکڑوں روپے لگا کر روز دفتر چلے آتے ہوں گے کہ چلو اس ہفتے تو تنخواہ آ ہی جائے گی، ملتی ہے تو دوستوں کا ادھار چکتا کر دوں گا۔ لیکن اس حمیت کا کیا بنے؟ اس خودداری کا کیا بنے؟ اس سفید پوشی کا کیا بنے؟ جو ایک صحافی قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

آج مجھے اس کیمرہ مین کے درد کا حقیقی معنوں میں احساس ہوا ہے، جو اس نے دل میں محسوس کیا ہو گا، جب اسے دس ماہ کی تنخواہ نہ دینے کے بعد پچھلے ہفتے نوکری سے نکال دیا گیا اور وہ دل کے اسی درد کو لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا، اور خبر یہ آئی کہ اسے ہارٹ اٹیک ہو ہے، پتا نہیں کسی نے جاننے کی کوشش بھی کی ہو گی کہ اس نے کتنے دن سے کھانا نہ کھایا ہو۔ یا پتا نہیں کچھ کھا کے نہ مر گیا ہو۔ میری کھال پر مجھے کراچی کے میر حسن کے جسم سے نکلتے ہوئے بھاپ کی تپش محسوس ہوئی جس نے ایسے ہی حالات سے تنگ آ کر خود کو آگ لگائی تھی۔

آج میں ان حالات کا شکر گزار ہوں کہ اس غریب کا ذہن پڑھنے کی کوشش کی کہ جو استحصال لفظ سے بھی ناواقف ہو مگر اس کو اس حال تک پہنچا دیا گیا کہ اس نے اپنی آٹھ ماہ کی کمسن بیمار کلی کو مار کے صحن میں دفن کر دیا تھا، اس کے گھر کی کچی دیواروں پر لکڑیوں والے چولہے کی وہ کالک محسوس کی جو اب اس کے اپنے منہ پر آ گئی تھی۔ مجھے ان گنت لوگوں کی کہانیاں یاد آرہی ہیں جنہوں نے ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہوئے زہر کھا لیا ہو گا۔

اور مرتے مرتے بھی لوگوں کی سرگوشیاں سنی ہوں گی۔ کہ کیسا بے صبرا تھا، حالات سے ڈر گیا۔ کیا معلوم اس پر کیا گزرتی ہو؟ کیا معلوم کسی ایکسیڈنٹ میں کسی نے خود ہی سکوٹر مار دیا ہو، کہ گھر والوں کو بیمہ کی رقم مل جائے گی۔ کیسے کیسے زہر پھانکے گئے ہوں گے؟ مجھے اس ماں کا قصہ یاد آ رہا ہے، جس نے بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی خاطر اپنے سر کے بال ڈیڑھ سو روپے میں بیچ دیے تھے۔ اور پھر سو روپے کی روٹی لی اور پچاس روپے میں زہر کی پُڑیا۔ اس ماں کی لاش کا تصور کرتے ہوئے مجھے بچپن میں پڑھے ہوئے کچھ اشعار یادآگئے

روٹی امیرِ شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا

چہرہ بتا رہاتھا کہ مارا ہے بھوک نے
اور لوگ کہہ رہے تھے کچھ کھا کے مر گیا

اب میں سوچ رہا ہوں کہ میرے اس بھاری بھر کم واٹس ایپ پیغام پر کیا ری ایکشن آئے گا؟ کیا کوئی ایکشن لیا جائے گا؟ کیا میری تنخواہ مجھے ملے گی؟ میری تو بائیک بھی خراب ہے۔ میں توآج ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکوں گا۔ لیکن چلو مجھے تو کوئی دوست کھلا دے گا۔ میری ماں کو پتا چلے تو وہ میراحشر کر دے کہ ”پتر تو پردیس میں جا کر کن حالوں میں ہے اور تو نے ہمیں بتایا تک نہیں؟ “۔ خیر میں تو سوچ رہا ہوں کہ مجھ میں تو ہمت ہے، ابھی کندھوں پر کوئی بوجھ نہیں ہے، ’ہیہات‘ بول سکتا ہوں، ان ہزاروں لوگوں کا کیا جو مجبوری کے عالم میں پڑے ہیں۔

وہ لوگ جب جب میس ہال میں کھڑے ہو کر، لائن میں لگ کے لنگر لیتے ہوں گے تو کھانے کے کاونٹر عین اوپر لگے پورٹریٹ کو کنکھیوں اور رشک سے دیکھتے ہوئے کچھ اور لوگوں کا بھی خیال تو آتا ہو گا، ان لوگوں کا کہ جو آواز نہیں اٹھاتے۔ جو ہمارے لئے کچھ کر سکتے تھے مگر نہیں کیا۔ جن لوگوں نے صحافیوں کا استحصال کیا، جنہوں نے سیٹھ کے مفادات کی ترجمانی اور حفاظت کی اور اپنی برادری کا کچھ خیال نہ کیا! دعا تو نکلتی ہو گی کہ کاش ان کا ضمیر ابھی نہ سویا ہو، اس نے بھی ہمارے ساتھ ہی کام کیا ہوا ہے، یہ بھی ہم جیسا ہی ہے۔ مگر اس نے اپنے منصب سے انصاف نہ کیا۔ دل تو ان کا چاہتا ہو گا کہ ان لوگوں کے کانوں میں چیخ چیخ کر کہیں، اور اس پورٹریٹ پر بھی چیختے ہوئے کسی رسم الخط میں لکھ دیں،

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

اتنی فضول سی تحریر پڑھنے کا بہت شکریہ! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کا عنوان ’عمران خان کا قصور‘ کیوں ہے! تو ٓپ خود ہی تجویز کر دیں کہ اس سب میں عمران خان کا کیا قصور ہے؟ اس میں تو قصور ان لوگوں کا ہے جنہوں نے صحافیوں کے ساتھ ظلم کیا۔ ان کا استحصال کیا۔ اپنے منصب بچانے کے لئے سیٹھ تک اصل بات نہیں پہنچائی! اس میں قصور ان صحافیوں کا بھی ہے، جنہوں نے اپنا پیٹ پالنے کے لئے تو قلم (اورآج کل ’کی بورڈ‘ ) کو جنبش دی، مگر اپنی برادری کے لئے آواز نہ اٹھائی۔ اس میں قصور میرا اور آپ کا بھی ہے۔ میں نے دو ہزار گیارہ میں ایک ڈرامہ لکھا تھا۔ اس میں حاشر نامی کردار تھا۔ اس کا ایک ڈائیلاگ اپنی اور آپ کی قیمتی چُپ کے نام

”تم جو ظلم کے خلاف بولتے۔ تم ہو ظالم! تم گونگے ہو! بہرے ہو۔ اندھے ہو۔ تم بت ہو، اور ہر بُت ایک اور بُت کو پوج رہا ہے! “
لیکن عمران خان کا قصور کیا ہے؟ پڑھیے ’اگلا کالم! ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments