کورونا وائرس: پاکستان میں اس سے بچاؤ کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟


کورونا وائرس

چین کے صوبے ووہان میں کورنا وائرس کی تشخیص اور اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں کے بعد جہاں دنیا بھر میں اس وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہی پاکستان میں بھی اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

حکام کے مطابق پاکستان میں ابتدائی طور چین، افغانستان،ایران اور انڈیا کے ساتھ لگنے والی سرحد کے داخلی راستوں سمیت تمام ایئر پورٹس، بندرگاہوں اور ان مقامات پر زیادہ حفاظتی اقدامات کیے ہیں جہاں چین کے ساتھ زیادہ آمدو رفت ہے۔

نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیویٹ (این آئی ایچ) میں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشن کے فوکل پرسن ڈاکٹر سلمان نے بی بی سی کی نامہ نگار آسیہ انصر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں ہائی رسک کی صورتحال ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر مملکت برائے صحت ظفر مرزا کی سربراہی میں پورے ملک میں اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے قومی سطح پر ایک ایمرجنسی آپریشن سنٹر قائم کیا ہے جہاں پر ہر 48 گھنٹوں کے بعد کی صورتحال کا جائزہ وزیر مملکت خود لے رہے ہیں۔

ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ ابھی تک پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ کسی مریض کی لیبارٹری نے تصدیق نہیں کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’چین میں موجود طلبا فوری سفارتخانے کے پاس رجسٹر ہوں‘

کورونا وائرس: 132 ہلاکتیں، چار پاکستانی طلبا متاثر

کورونا وائرس: ووہان میں لاک ڈاؤن، شہری پریشان

کورونا وائرس: پاکستانیوں کو احتیاط کی ہدایت

انھوں نے بتایا کہ ملک کی تمام ہوائی اڈوں پر کورنا وائرس سے بچاؤ سے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور ان ایسے تمام مسافروں کا معائنہ کیا جا رہا ہے جنھوں نے گذشتہ 14 دنوں کے دوران چین کا سفر کیا ہو اور ان میں اس وائرس سے متاثر ہونے کی کچھ علامات سامنے آئیں ہوں۔

ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انھیں ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز قائم کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

آئسولیشن وارڈز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی کی ان وارڈز میں نیگیٹو پریشر کو قائم کیا جائے، ہر مریض کے لیے ڈسپوزیبل آلات استعمال کیا جائے اور خصوصی عملے کو ان کی خفاظتی آلات کے ساتھ مختص کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اس وائرس کا شکار افراد میں اموات کی شرح بہت زیادہ نہیں ہے، تقریباً دو سی تین فیصد متاثرہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن ہمیں پھر بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایسا کوئی کیس پاکستان میں سامنے آتا ہے تو اس مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

کس صوبے اور جس ضلع میں ہسپتالوں میں ایسے کتنے وارڈز قائم کیے جائیں گے کے جواب میں ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا گیا البتہ صوبے اپنے وسائل کے مطابق اس کا فیصلہ کریں گے۔

کورونا وائرس

آئسولیشن وارڈز کے حوالے سے ڈاکٹر سلمان کا کہنا ہے کہ کوشش ہو گی کی ان وارڈز میں نیگیٹو پریشر کو قائم کیا جائے، ہر مریض کے لیے ڈسپوزیبل آلات استعمال کیا جائے اور خصوصی عملے کو ان کی خفاظتی آلات کے ساتھ مختص کیا جائے۔

خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات

خیبر پختونخوا محکمہ صحت کےڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر ندیم نے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ کو بتایا کہ پشاور ایئر پورٹ پر تمام حفاظتی انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ ایئر پورٹ پر تربیت یافتہ عملہ تعینات ہے اور انھیں تھرمل گن اور تھرمل سکینر فراہم کر دیے گئے ہیں۔

پشاور ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ آئسولیشن روم بھی قائم کیا گیا ہے جبکہ مریض کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس بھی فراہم کی گئی ہے۔

پشاور ائیر پورٹ پر تعینات عملہ کی انچارج ڈاکٹر کشمالہ اورکزئی نے بتایا کہ اس وقت بیرون ملک سے آنے والے تمام مسافروں کی سکیننگ کی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر مسافروں کا تھرمل گن سے بخار کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان میں زکام ، کھانسی نزلہ اور سانس کی تکلیف کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مسافروں کے سفر کا ریکارڈ بھی ان کے پاسپورٹ سے چیک کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں مسافر نے کہاں کہاں سفر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تربیت یافتہ عملہ ایئر پورٹ پر تعینات ہے جس میں ڈاکٹروں کے علاوہ نرسز اور دیگر عملہ شامل ہے۔ تعینات طبی عملے کے تحفظ کے لیے بھی ماسک اور دیگر حفاظتی سامان فراہم کیا گیا ہے۔

کورونا وائرس

محکمہ صحت کی اہلکار پشاور ہوائی اڈے پر تھرمل سکینر کی مدد سے مسافروں کو چیک کر رہی ہیں۔

صوبے کے ہسپتالوں میں حفاظتی اقدامات

پشاور میں اگرچہ تمام ہسپتالوں کو الرٹ کیا گیا ہے لیکن ڈاکٹر طاہر ندیم کے مطابق پشاور ایئر پورٹ کے قریب فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے اور ابتدائی طور پر اس ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ قائم کر دیا گیا ہے۔

پولیس سروسز ہسپتال پشاور میں بھی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق ان ہسپتالوں میں انتظامات اس لیے کیے گئے ہیں کیونکہ یہ ایئر پورٹ کے قریب ہیں اور یہاں مریضوں کی امدورفت نسبتا کم ہوتی ہے ۔

ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد اور سول ہسپتال بٹگرام میں بھی الرٹ جاری کیا گیا جہاں تمام حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈ کے علاوہ دیگر سامان بھی فراہم کر دیا گیا ہے۔

پاک چین سوست بارڈر کی صورت حال

شدید سردی اور برف باری کی وجہ سے خنجراب پاس اس موسم میں بند کر دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ حکام کے مطابق چین نے سوست بارڈر بھی بند کر دیا ہے جس کے بعد اس راستے سے آمدو رفت کا سلسلہ معطل ہے۔

کورونا وائرس

پشاور کے سروسز ہسپتال میں قائم کردہ آئسولیشن وارڈ

واضح رہے پاکستان اور چین کے درمیان یہ پہلے سے طے معاہدے کے مطابق ہر سال خنجراب پاس یکم دسمبر سے یکم اپریل تک بند رہتا ہے۔

صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اس راستے سے یا خیبر پختونخوا کے شمالی علاقوں میں جاری مختلف منصوبوں کے حوالے سے بھی احتیاطی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

نامہ نگار عزیز اللہ کے مطابق ہزارہ ڈویژن اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی سکیننگ کی گئی ہے اور ان میں کوئی ایسا شحص نہیں ملا جس نے8 دسمبر 2019 کے بعد چین کا سفر کیا ہو۔

پاک افغان طورخم بارڈر کی صورت حال

پاک افغان سرحد گزشتہ چند ماہ سے 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں سے روزانہ تقریباً 13000 افراد اور ایک ہزار مال بردار ٹرک گزرتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر ندیم کے مطابق طور خم بارڈر پر تھرمل سکینر اور تھرمل گنز فراہم کر دی گئی ہیں اور عملہ بھی تعینات ہے لیکن 24 گھنٹے سروس کے لیے یہاں عملے میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

پاک افغان سرحد پر بھی ہر مسافر کی سکیننگ کی جا رہی ہے اور ٹریول ہسٹری بھی معلوم کی جا رہی کہ کہیں مسافر نے گزشتہ دو ماہ میں چین کا سفر تو نہیں کیا۔ طورخم بارڈر پر ایمبولینس بھی فراہم کی گئی ہے۔

صوبہ بلوچستان میں اقدامات

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث متعدد شہروں میں کورونا وائرس سے بچاﺅ کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کورونا وائرس کی مجموعی طور پر مانیٹرنگ اور اس کی روک تھام کے لیے 14 رکنی ٹیکنیکل کمیٹی بنائی گئی ہے۔ تاہم ان علاقوں کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے جہاں چینی باشندے موجود ہیں۔

ان میں گوادرکے علاوہ ضلع چاغی میں سیندک اور کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا علاقہ دودڑھ شامل ہیں۔ صوبائی حکام کے مطابق صوبے بھر میں جاری مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی تعداد تقریباً 459 ہے۔

گوادر کے محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گوادر میں کورونا وائرس کے حوالے سے تین سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔ جبکہ صحت کے بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اس سلسلے میں خصوصی کٹس بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق بلوچستان کے علاقے دودڑھ میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث حب میں بھی ایک آئیسولیشن وارڈ قائم کیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں بھی ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر سمیت بلوچستان میں تاحال کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

پنجاب میں کیے گئے اقدامات

کورونا وائرس

بے نظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی میں قائم کردہ آئسولیشن وارڈ

پنجاب حکومت نے کورونا وائرس کے حوالے سے آٹھ رکنی کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کی سربراہی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کریں گی۔

کابینہ کمیٹی وفاقی حکومت، بین الاقوامی ایجنسیز اور متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے کرے گی۔ کمیٹی صوبے کے مختلف شہروں کے ہسپتالوں کی مانیٹرنگ کے ساتھ کورونا وائرس کے مشتبہ کیسز کی نگرانی کرے گی۔

جبکہ یہ کمیٹی اس حوالے سے ادویات اور ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی کے ساتھ ضرورت پڑھنے پر تربیتی ورکشاپس کو بھی یقینی بنائے گی۔

راولپنڈی کے بے نظیر بھٹو ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپریٹینڈنٹ ڈاکٹر عنایت نے بی بی سی کے نامہ نگار موسیٰ یاوری کو بتایا کہ حکومت نے بے نطیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی کو کورونا وائرس کے حوالے سے تمام شمالی علاقہ جات کے لیے فوکل پوائنٹ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ہدایات کے پیش نظر ہسپتال میں ایک خصوصی آئسولیشن وارڈ قائم کیا ہے جس کو ہائی ڈیپنڈینسی یونٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وارڈ میں تمام مطلوبہ مشینری، طبی آلات اور حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر عنایت کا کہنا تھا کہ دستیاب وسائل کے مطابق تقریباً 30 ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے کی تربیت سازی بھی کی گئی ہے۔

کورونا وائرس

کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی علامات

اس وائرس سے متاثرہ مریض میں ظاہر ہونے والی علامات بتاتے ہوئے ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا جیسا کہ یہ ایک نیا وائرس ہے اس لیے ابھی تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اس سے متاثرہ مریض میں شدید نمونیے کی علامات ظاہر ہوتی ہے۔اس میں کھانسی بخار کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔

ڈاکٹر سلمان نے بتایا کہ آیندہ ایک ہفتے تک پاکستان میں این آئی ایچ میں اس وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہوگی اور اس سلسلے میں متعدد بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔جس کے بعد دوسرے مرحلے میں اس ٹیسٹ ی تربیت ملک کی دیگر لیبارٹریوں کو بھی دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp