بہن یا بیٹی کو عزت کے نام پر قتل کر سکتے ہیں، وراثت میں حصہ نہیں دے سکتے


 

عورت خواہ ماں کے روپ میں ہو بہن کے، بیوی ہو یا بیٹی۔ اسکے تمام روپ دلکش، خوبصورت، محبت آمیز اور پر خلوص ہیں۔ یہ وفا اور محبت کی علامت ہے۔ کہ وجودِ زن سےہے تصویرِ کائنات میں رنگ ۔بد قسمتی سے ظہور اسلام سے قبل عورت معاشرہ کی مظلوم ترین مخلوق تھی۔ نہ عزت، نہ توقیر، نہ وراثت، نہ حفاظت۔ بیوہ کو خاوند کی وفات پر ساتھ ہی مار دیا جاتا ۔ بیٹی کو بوجھ تصور کیا جاتا اور زندہ درگور کر دیا جاتا۔ آقائے دوجہاں سرور ِ کائنات کی آمد پر انسانیت نے کروٹ بدلی۔ مظلوموں کو قرار آیا اور عورت کو تاریخِ انسانیت میں پہلی مرتبہ عزت و عفت اور عظمت وپاکیزگی سے سرفرازی ملی۔ ماں کے قدموں تلے جنت اور بیٹی کو دل کا سرُور اور بیوی کو گھر میں عزت و توقیر سے نوازا گیا۔ آپؐ نے اپنی رضاعی بہن کے لئے جس طرح اپنی چادر مبارک بچھائی اور عزت و احترام سے پیش آئے۔ تاریخ کا حصہ ہے۔سرورِ کائنات کی اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہ ؓسے محبت عقیدت اور احترام سیرت النبیؐ کا ایک روشن باب ہے۔

قرآن پاک کی سورہ النساء میں واضح طور پر عورت کی وراثت کا تعین کر دیا گیا۔ مرد کو اس کی دیگر اہم ذمہ داریوں اور گھر کے کفیل ہونے کی وجہ سے عورت سے دوگنا حصہ وراثت میں دیا گیا۔ مگر اس کے باوجود وراثت کے حصول میں عورت عموماً محروم رکھی جاتی ہے۔ معاملہ عدالت میں آتا ہے۔ تو خواری عورت کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ دعویٰ تقسیم جائیداد جو ریاضی کے سوال کی طرح دو جمع دو چار کے جواب کا متقاضی ہوتا ہے۔ برس ہا برس تک چلتے رہتے ہیں۔ ایک دعویٰ تقسیم جائیداد جو کسی بیوہ ،بہن ،بھابھی یا بیٹی نے دائر کیا ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کئی دعویٰ جات دائر کر دیئے جاتے ہیں۔ اس دوران نہ بیوہ اور یتیموں کو زمین یا جائیداد کی آمدن سے کوئی حصہ دیا جاتا ہے۔ نہ کرایہ، نہ حصہ پیداوار۔ پوری ڈھٹائی سے بھائی ،چچا اور تایا وغیرہ جائیداد پر قابض رہتے ہیں۔

پنجاب کے ایسے علاقوں میں بھی سروس کرنے کا موقع ملا۔ جہاں متوفی مالک جائیداد کی وراثت کے انتقال کی تصدیق کرانے والے روز ہی متوفی کی بیٹیوں کی طرف سے اپنے بھائیوں کے نام انتقال تملیک یا ہبہ بھی تصدیق کرا لیا جاتا ہے۔ پھر جب ان بیٹیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ اولاد جوان ہوتی ہے۔ اور وہ ننھیال سے حصہ مانگتے ہیں ۔ تو نہیں ملتا کہ جائیداد تو پہلے ہی انکے نام لگ چکی ہوتی ہے۔ پھر مقدمہ بازی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم رکھنے کے لئے کیسے کیسے گُر اور ہُنر آزمائے جاتے ہیں۔ کیسا کیسا طریقہ واردات ہے اللہ کی پناہ ، یہ خوف خدا کی کمی ہے۔ قرآنی تعلیمات سے دوری، نفسانی خواہشات کی تکمیل، لالچ اور حرص، ضد اور ہٹ دھرمی کوئی بھی نام لے لیں۔ کوئی بھی عنوان دے دیں۔ رسوائی ہے۔ حزیمت ہے۔ احکام الہی سے بغاوت ہے۔

اسے ہندو کلچر کا اثرکہیں یا خود غرضی اچھے خاص عبادت گزار لوگ بھی عورت کو وراثت دیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ سول جج سے ڈسٹرکٹ انیڈ سیشن جج تک مختلف ضلعوں میں کام کرتے ہوئے محسوس کیا کہ وراثت کے معاملے میں عورت آج بھی اُتنی ہی بے بس ہے۔ جیسی سینکڑوں سال قبل تھی۔ اپنے تجربہ میں ہزاروں ایسے مقدمات آئے جن میں خاندانی وراثت زیر تنازع تھی۔ مگر شاید کسی ایک میں بھی ، ہاں کسی ایک میں بھی، حقیقی بھائیوں اور چچوں تایوں کو بہن ، بیٹی یا بیوہ بھابی اور یتیم بچوں کو خوشدلی سے وراثت میں حصہ دیتے نہیں دیکھا۔ بلکہ بڑے عجیب و غریب عذر تراشے جاتے ہیں۔ جن میں بیٹی یا بہن پر اُٹھنے والے تعلیمی اخراجات اور شادی بیاہ اور سامان جہیز وغیرہ کے اخراجات قابل ذکرہیں۔

ایک ایسی ہی اپیل میں مشترکہ جائیداد پر قابض ایک بھائی نے والد مرحوم کے معمولی اپریشن پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیل بھی درج کر رکھی تھی۔ اور پوری ڈھٹائی سے اُن اخراجات کا مطالبہ بھی کر رہا تھا۔ میرے کانوں نے بے شمار دُکھی بیوہ اور یتیم بچوں کی آہ وزاری سُنی۔ سامنے کٹہرے میں دوسری طرف بڑے معقول حلیہ اور شخصیت میں موجود افراد کو پوری ڈھٹائی اور بے ایمانی سے اپنے غیر اخلاقی موقف پر اڑا دیکھا۔ ایسے مقدمات کا بھی دکھی دل کے ساتھ سامنا کیا۔ جس میں کسی بیوہ اور یتیم کے پاس نہ چھت تھی۔ نہ تعلیمی اخراجات کے لئے رقم بلکہ دو وقت کی روٹی بھی ایک سنگین مسئلہ تھا۔ تکلیف دہ امر یہ ہے۔ کہ عورت کو وراثت سے محروم رکھنے والا کوئی خاص طبقہ نہیں بلکہ اس میں بڑے پڑھے لکھے اور ان پڑھ پورے مذہبی اور لبرل ہر قسم کا طبقہ فکر شامل ہے۔

تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل اپنے قانونی و عدالتی تجربہ کی روشنی میں حکومتِ وقت سے یہ اپیل کر سکتا ہوں کہ عورت کی وراثت اور تقسیم جائیداد کے مقدمات کے جلد نمٹانے کے لئے قانون میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ پروسیجر کو آسان، قابل فہم اور تیز تر بنایا جائے۔ گھر کے سربراہ کی موت کے ساتھ ہی تمام قانونی اور جائز وارثان کو وراثت از خود منتقل کرنے کا طریقہ صرف تجویز نہیں بلکہ قابل عمل بنایا جائے۔ ایسے مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کے لئے ہر لیول پر خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ سے قوم کی اخلاقی برین واشنگ کی جائے کہ عورت کو وراثت سے محروم رکھ کر وہ کن اخلاقی و قانونی جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ خصوصاً آخرت کے تصور احتساب سے ضرور آگاہ کیا جائے۔

اس سلسلہ میں ہمارے علمائے کرام، دانشور،اینکر پرسنز اورسماجی فلاحی ادارے بڑا اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ایک قابل عمل تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے۔ کہ عورت کی وراثت کا باب ہمارے نصاب تعلیم کا میٹرک تا ایف اے سوشل سٹڈیز میں مستقلاً شامل کر دیا جائے۔ تاکہ ہماری نوجوان نسل کے ذہن میں عملی میدان میں آنے سے قبل اس بابت کم ازکم ایک خاکہ تو موجود ہو۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments