خلیل الرحمن قمر کا پیش گفتہ تعزیت نامہ


موم بتی والی عورتوں کو اللہ غارت کرے!

خلیل الرحمن قمر نے عجب وصف پایا ہے، جب بھی منہ کھولتے ہیں، دانائی اور علم ودانش کے پھول جھڑتے ہیں اور ہم ان کے دہن دریدہ سے برآمد ہوتے رموز بے خودی پہ سر دھنتے ہیں

ارشاد فرماتے ہیں “عورتوں کی اکثریت مجھے بہت پسند کرتی ہے، واری صدقے جاتی ہے، بس پینتیس چھتیس موم بتی والی عورتیں ہیں جو میرے خلاف بولتی ہیں”

کیا کہیے سوائے اس کے کہ چلیے گیارہ کروڑ میں سے پینتیس چھیتیس تو جی دار نکلیں اور صد شکر کہ ہمارا بھی اسی قافلہ حریت میں شمار قرار پایا۔

مزید گل افشانی کرتے ہیں: ” مرد تو عورت کی ساری عمر خدمت کرتا ہے، پہلے کما کے ماں کے ہاتھ پہ تنخواہ رکھتا ہے، پھر بہنوں کی شادیاں کرتا ہے، پھر بیوی کے پیٹ کی فکر کرتا ہے، پھر بیٹی کو پالنے پوسنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ آخر بے چارہ اور کیا کرے؟ “

اور اسی بےچارگی کے زیر اثر خلیل الرحمن کچھ اردو اور کچھ انگریزی کی بھاری بھرکم گالیوں کا سہارا لینے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ شعور کی سطح کمزور ہو، اخلاقی قامت پست ہو تو ضعف ضمیر سے کانپتے ہاتھ پیروں کو کمزور مرد اسی بدزبانی سے سنبھالا کرتے ہیں۔

محترم خلیل الرحمن غالباً عورت کے حقوق کا مطلب ماں اور بیوی کا پیٹ بھرنا، چھت فراہم کرنا اور مناسب وقت پہ بہن بیٹی کو اپنے گلے سے اتار کر دوسرے کھونٹے سے باندھنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بے زبان بھیڑ بکریوں کو چارہ ڈالا جاتا ہے، چھپر میں باندھا جاتا ہے، دودھ دوہا جاتا ہے، فروخت کیا جاتا ہے اور جب دل چاہے ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کا مالک بھی تو یہی سمجھتا ہے، اب اس کے علاوہ اور کیا کروں؟

محترم مزید فرماتے ہیں “ہماری مٹی کی روایات اور معاشرے کی اقدار مغرب سے مختلف ہیں، ہم کچھ عورتوں کی بے سروپا باتوں کی وجہ سے اسے نہیں بدلیں گے”

بالکل ٹھیک کہتے ہو خلیل الرحمن قمر، یہ وہی سرزمین ہے جہاں عورت شوہرکے مرنے کی صورت میں ستی کی جاتی تھی اور آج بھی بیوہ کو زندگی کے رنگوں کی طرف لوٹنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ یہ وہی معاشرہ ہے جو عورت کو زمین وجائیداد میں حصہ دینے کی بجائے قرآن سے شادی کا جعلی اور بھونڈا ڈرامہ رچاتا ہے۔ یہاں کی اعلی اقدار وہی ہیں جہاں عورت کو مرد کی غلطیاں معاف کرانے کے لئے ونی یا سوارہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہی عالیشان روایات ہیں جہاں عورت پٹتی ہے، گالیاں کھاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے تم نے ایک خاتون کو اپنے ڈرامے پر تبصرہ کرنے پہ دی ہیں۔

اگر اس پہ غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو منہ پہ تیزاب پھینکنے کی باری آتی ہے، نازک حصے بجلی کی راڈ سے داغے جاتے ہیں، ریپ کر کے توڑا پھوڑا جاتا ہے، چولہے پھٹتے ہیں، اور مالک کی بخشی ہوئی زندگی چھین لی جاتی ہے کہ روٹی کھلانے والے کو زعم اس قدر ہے اپنی مہربانی کا کہ اس کا خراج لے کر اپنی وحشتوں کو بجھانا اسے بھاتا ہے۔

کیا آپ سننا چاہتے ہیں اس سوال کا جواب کہ عورتوں کی اکثریت کے منہ میں ویسی زبان اور رویے میں ویسا احتجاج کیوں نہیں جو پینتیس چھتیس عورتیں موم بتی جلا کے کرتی ہیں۔ خلیل الرحمن قمر کے زہر اگلتے قلم اور گالی دیتی زبان پہ صدقے واری ہونے والی کون ہیں یہ آخر؟

خلیل الرحمن قمر، آؤ بتائیں تمہیں کہ مسوجنی نظام ہے کیا اور یہ کیسے کام کرتاہے؟ (یہ لفظ  misogynyشاید تم نے سن رکھا ہو پڑھے لکھوں کی کسی مجلس میں غلطی سے بیٹھے ہوئے۔ سمجھنے کی امید تو خیر تم سے کیا خاک ہو۔)

ماضی قریب ہی کی بات ہے نا جب وطن عزیز میں ہر طرف خود کش بمبار گھوم رہے تھے۔ چھوٹی عمر کے لڑکے، اپنی جان جانے کے غم سے بے نیاز، بےشمار بے گناہوں کی ہنستی مسکراتی زندگیاں موت میں بدلنے کو ہمہ وقت تیار۔ نہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کے جانے کا غم اور نہ اوروں کی زندگی اجاڑ دینے کی پریشانی۔ ان کے پاس نہ سوچ اپنی تھی، نہ خیال وی قین کے مالک تھے۔ پھر کیسے بے شمار ماؤں کے ان گنت معصوم جگر گوشوں کو سنگ سیاہ جیسے دل رکھنے والے روبوٹس میں بدل دیا گیا؟

ان معصوموں کے ذہن کی کوری تختی وہ سب لکھ دیا گیا جو کسی نامعلوم کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا۔ کسی خاص مکتبہ فکر کی دانش استعمال کرتے ہوئے انہیں یہ باورکرا دیا گیا کہ انسانیت کی فلاح اور ترویج کے لئے ان کی جان کی قربانی اشد ضروری ہے۔ بدلے میں رب کائنات انہیں جنت میں اعلیٰ مقام اور حسین و جمیل حوروں کا جمگھٹ عطا کرے گا۔ ناپختہ، کم فہم, زمانہ ناشناس ذہنوں کو یہ سبق اتنی دفعہ گھول کے پلایا گیا کہ وہ اس کی حقانیت پہ یقین لا کے خود ساختہ معرکہ حق و باطل میں بلا خوف وخطر کود پڑے۔ ان کو ایقان کی منزل پہ پہنچا دیا گیا تھا اور جب یقین حاصل ہو جائے تو آگے کی منزلیں سر کرنا مشکل نہیں ہوا کرتا۔

مسوجنی نظام یہی تکنیک بروئے کار لا کے عورت کو زیر کرتا ہے۔ اس نظام میں مرد کو خاندان کی اکائی میں کلیدی حیثیت دی جاتی ہے اور عورت کو اس کےگرد طواف کرنے اور سوال نہ کرنے کا کردار سونپا جاتا ہے۔ عورت کیا کرے گی؟ کیسے رہی گی؟ زندگی کیسے گزارے گی؟ شریک حیات کسےچنے گی؟ کس سے بات کرے گی؟ کس سے منہ پھیر کے کھڑی ہوگی؟ اس فیصلہ سازی کا حق مرد اپنے پاس رکھتا ہے اور تمام عمر کی مشقت عورت کے کندھے پہ رکھ کے ہاتھ میں لاٹھی لیے ہانکنا شروع کرتا ہے۔ لیجیے جہاں کسی نے سراٹھایا، وہ آئی چھمک۔

اس طویل منصوبہ بندی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عورت اسی روپ میں ڈھلتی ہے جیسا مرد چاہتا ہے۔ اس کا ذہن اسے وہ باور کراتا ہے جو مرد اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ گونگی، بہری، اور اندھی بنا دی جاتی ہے۔ وہ ایک دائرے میں مقید ہو کے اس سے باہر کا منظر دیکھ ہی نہیں پاتی۔ اس کی مرضی اور رائے مختلف ہو سکتی ہے، کہنا سیکھ ہی نہیں پاتی۔ اس کو زندگی کا کیا رنگ برتنا پسند ہے، بتا ہی نہیں پاتی۔

اس لئے کہ کوری تختی پہ مرد نے کندہ کر دیا ہے کہ عورت صرف وفاداری، پاکیزگی، بے لوث ممتا اور قربانی کے کردار میں جچتی ہے اور مرد کو صرف اسی مقام پہ قبول ہے۔

اس نظام سے بغاوت کرنے والی سرکش عورت کے بارے میں یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کے حصے میں خاندان کی تھو تھو کے علاوہ معاشرے کی سنگ باری بھی آئے گی۔ کیا کیجئے، جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے عورتوں کی اکثریت بھی مجبوراً اس نظام کا حصہ بن کے اپنے ہی قاتل کو مسیحا مان لیتی ہے اور تم جیسے ذہنی کبڑے مرد ان غلام جسموں کی مجبوریوں کو پسندیدگی جان کر اپنے آپ کو ہی تھپکیاں دیتے رہتے ہیں۔

باقی رہ گئیں ہم جیسی، پینتیس چھتیس باغی عورتیں جو اس ظالم نظام کو سمجھ کے ان کچلی ہوئی عورتوں کی مدد کے لئے فکر اور سوچ کے دیے جلاتی ہیں، سنگ باری کی صلیب اٹھاتی ہیں، الزام و دشنام کی تیز دھار پہ چلتی ہیں، تو اسی نظام کے ٹکڑوں پر پلنے والے تم جیسے خانہ زاد، لے پالک کارندے انہیں “موم بتی والی…..عورتیں کہ کر اپنا جی خوش کرتے ہو۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم نے انصاف کی یہ شمع روشن کی ہے، زندگی کی سنگلاخ راہوں میں اپنے حصے کا دیا جلایا ہے۔ یہ تو آنے والا مورخ ہی بتائے گا کہ تاریخ کی شمع ہماری لوحوں پر روشن ہو گی یا خلیل الرحمن اس انعام کا حق دارٹھہرے گا؟

آج کے تقویم میں بہرحال یہ نظر آتا ہے کہ خلیل الرحمن قمر کے لئے عقیدت کی موم بتیاں نہیں جلائی جائیں گی، کافوری اگربتیاں سلگائی جائیں گی جن سے اسی طرح دھواں اٹھے گا جیسے 35 یا شاید 36 عورتوں سے تنقید سن کر تمہارے لفظ ختم ہو جاتے ہیں، دلیل تمہارے پاس کبھی تھی نہیں، گالیاں تمہارے دہان بے لگام سے بے دریغ برآمد ہوتی ہیں اور تم شاید بازاری گالیوں ہی کو ڈرامائی مکالمے کی معراج سمجھتے ہو۔ تم بھلے اپنی کھوٹے سکے جیسی بے وقعت عقل کے مطابق مقبول ڈرامے لکھ کر لکشمی چوک میں بدتمیزی کا لائسنس لے لو لیکن تمہیں بتا دینا چاہیے کہ تاریخ کے صدیوں پر پھیلے ہوئے ڈرامے میں تمہارا اپنا کردار محض ایک مسخرے کا ہے اور ایسا بدنصیب مسخرا جس کی ہونق حرکتوں پر کسی کو ہنسی نہیں آتی، تمہاری جہالت پر رحم آتا ہے۔

لو یہ رہے تمہارے سرانڈ زدہ دہن اور کوڑھ زدہ ذہن کے دو نمونے:


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments