سانحہ یوحنا آباد: تمام ملزمان کی رہائی کا حکم، صلح یا شواہد کی عدم دستیابی؟


پاکستان

پاکستان کے شہر لاہور میں سنہ 2015 میں مسیحی برادری کی عبادت گاہوں پر دو بم دھماکوں اور اس کے نتیجے میں یوحنا آباد کے علاقے میں ہونے والے پر تشدد احتجاج کے دوران دو افراد کی ہلاکت کے بعد پولیس نے اس سلسلے میں چالیس افراد کے خلاف مقفمات درج کیے تھے۔

لگ بھگ پانچ سال بعد لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تمام 39 ملزمان کو بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا ہے۔ دو ملزمان پہلے ہی دورانِ حراست جیل میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

یوحنا آباد کے علاقے میں ہونے والے پر تشدد احتجاج کے دوران ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دو افراد بابر نعمان اور حافظ نعیم ہلاک ہو گئے تھے۔ مشتعل ہجوم نے ان دونوں افراد کو دہشت گرد تصور کرتے ہوئے تشدد کے بعد تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

چرچ حملے کے بعد یوحنا آباد میں کشیدگی، رینجرز تعینات

’سوال پوچھنے پر گھر میں گھسنے والے مارتے ہیں‘

ان دونوں افراد کے قتل کے الزام میں پولیس نے بچاس سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے چالیس سے زیادہ کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں جیل بھجوا دیا گیا تھا۔

مقتولین کے لواحقین نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ ’ان کی ملزمان کے ساتھ صلح ہو چکی تھی اور اگر ملزمان کو بری کیا جاتا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘

ملزمان نے بھی عدالت کو درخواست دے رکھی تھی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کے لواحقین کے ساتھ معاملات طے پا گئے تھے لہٰذا عدالت قانونِ فوجداری کی دفعہ 345 کے تحت ان کی رہائی کا حکم دے۔

تاہم ملزمان کے خلاف مقدمے میں دیگر قابلِ معافی دفعات کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل تھی جسے قانون کے مطابق ناقابلِ معافی تصور کیا گیا ہے۔

ایسی صورت میں اگر فریقین صلح کر لیں تو کیا ملزمان بری ہو جاتے ہیں؟ یا پھر ریاست مدعی بن کر ملزمان کے خلاف مقدمہ کی پیروی کرتی ہے اور انہیں رہا نہیں کیا جاتا؟

کیا انسدادِ دہشت گردی قانون میں صلح ہو سکتی ہے؟

قانونی ماہرین کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے دفعات کے تحت چلنے والے مقدمہ میں صلح کی بنیاد پر ملزمان کی رہائی نہیں ہو سکتی۔

تاہم مِٹیگیٹنگ سرکم سٹانسز یعنی جرم کی سنجیدگی کو کم کرنے والے حالات کی موجودگی کی بنا پر ماضی میں اعلٰی عدالتوں میں ایسے ملزمان کی سزاؤں میں کمی یا تبدیلی کی جا چکی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قانونی ماہر اور وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ’ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ نے میٹیگیٹنگ سرکم سٹانسز کو دیکھتے ہوئے جہاں سزائے موت تھی اس کو عمر قید میں بدلا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں کیا کہ سزا بالکل ختم کر دی ہو۔‘

پاکستان

اسد جمال یوحنا آباد واقعے کے مقدمہ میں کچھ ملزمان کی طرف سے وکیل بھی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ بنیادی طور پر استغاثہ کا مقدمہ انتہائی کمزور تھا۔ یعنی عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو سزا ہونا بہت مشکل تھا۔

‘تین ماہ بعد تیل کی بوتل برآمد کی’

اپنے مؤقف میں انہوں نے عدالت میں پیش کیے گئے جن کمزور شواہد کا حوالہ دیا ان میں ملزمان کی شناخت پریڈ، ان سے برآمدگیوں کی نوعیت اور تفتیش کے طریقہ کار میں نقائص کی موجودگی شامل ہیں۔

اسد جمال کے مطابق پولیس نے ایک ملزم سے واقعے کے تین ماہ بعد مٹی کے تیل کی بوتل برآمد کی۔ ‘بتایا گیا کہ ملزم کی نشاندہی پر ایک پلاسٹک کی بوتل ایک قصائی کے پھٹے کے نیچے سے برآمد ہوئی تھی جو تیل مقتولین کو آگ لگانے میں استعمال ہوا تھا۔’

اسی طرح دو ملزمان جو آپس میں سگے بھائی تھے ان کی رہائش دو مختلف مقامات پر ظاہر کی گئی۔’تفتیش کاروں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ دونوں بھائی ہیں۔’

‘ملزمان کو عدم ثبوت پر رہائی مل جانا چاہیے تھی’

اسد جمال نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ملزمان کی شناخت پریڈ بھی قانون کے مطابق نہیں کی گئی تھی۔ ‘شناخت پریڈ کو ویسے بھی کوئی بہت زیادہ مضبوط ثبوت تصور نہیں کیا جاتا جب تک اس کے ساتھ دیگر قابلِ قبول شواہد نہ پیش کیے جائیں۔’

ان کا مؤقف تھا کہ اس مقدمے میں ملزمان کو شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے رہائی مل جانا چاہیے تھی۔ ‘اس مقدمے کو بلا وجہ اس قدر طول بھی دیا گیا۔ کبھی جج تبدیل ہوتے رہے تو کبھی دو سال تک کے عرصے میں کوئی کارروائی ہی نہیں ہوئی۔’

ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے جس کے بعد وثوق کے ساتھ یہ بتایا جا سکتا ہے کہ عدالت نے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے باوجود کن بنیادوں پر ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔

‘ممکن ہے کہ عدالت نے مٹیگیٹنگ سرکم سٹانسز دیکھے ہوں اور دونوں فریقین کے درمیان صلح کے امر کو ساتھ دیکھتے ہوئے ان کی رہائی کا فیصلہ دیا ہو۔’

پاکستان

ریاست کا فیصلے کے خلاف اپیل کا ارادہ

تاہم دوسری جانب قانونی چارہ جوئی یا استغاثہ کے ادارے پنجاب پراسیکیوشن ڈپارمنٹ کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالصمد وٹو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ‘فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ جوں ہی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آئے گا، سرکار اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دے گی۔

ان کا مؤقف تھا کہ اس مقدمے میں ان کے پاس ملزمان کے خلاف مضبوط شواہد موجود تھے جو عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔

‘ملزمان کی شناخت پریڈ ہو چکی تھی جس میں ان کو شناخت کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان سے جرم میں استعمال ہونے والے آلات وغیرہ کی برآمدگی بھی ہو چکی تھی۔’

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کا استدلال تھا کہ استغاثہ کی طرف سے مقدمہ کافی مضبوط تھا۔ اگر ملزمان کو رہائی قانونِ فوجداری کی دفعہ 345 کے تحت فریقین میں صلح ہو جانے کی بنیاد پر دی گئی، تو اس صورت میں ان کا کہنا تھا کہ ‘اس دفعہ کا اطلاق انسدادِ دہشت گردی کے قوانین پر نہیں ہوتا۔‘

یوحنا آباد میں کیا ہوا تھا؟

یاد رہے کہ سنہ 2015 میں لاہور کے یوحنا آباد کے علاقے میں واقع مسیحی برادری کی دو عبادت گاہوں پر بم دھماکے ہوئے تھے جس کے بعد مشتعل علاقہ مکینوں نے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ بھی کی اور پولیس کے ساتھ بھی ان کی جھڑپ ہوئی تھی۔

اسی دوران مسلمان برادری سے تعلق رکھنے والے بابر نعمان اور حافظ نعیم مشتعل افراد کے ایک ہجوم کے ہاتھ چڑھ گئے تھے۔ ہجوم نے انہیں دہشت گرد تصور کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد ان پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی تھی۔

پولیس نے ایک طویل تفتیش کے بعد 40 سے زائد ملزمان کی نشاندہی کی تھی اور ان پر انسدادِ دہشت گردی سمیت قتل اور دیگر کئی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp