کورونا وائرس کے بچاؤ کے لیے کراچی بندر گاہ پہنچنے والا سامان ریلیز کرنے سے انکار


سی پیک

چین سے کورونا وائریس کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے پاکستانی حکام نے چین کے راستے کراچی بندر گاہ تک پہنچنے والے سامان کو ریلیز کرنے سے انکار کردیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جب تک اس سامان پر جراثیم کش ادویات کا سپرے نہیں کیا جاتا یا اس کو اس مشین سے نہیں گزارا جاتا جو اس وائرس کی نشاندہی کرسکے اس وقت تک اس سامان کو بندرگاہ سے ریلیز نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان اشیا کو درآمد کرنے والے افراد کے حوالے کیا جائے گا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے پاس ایسے جدید آلات نہیں ہیں جو ہوائی اڈدوں یا بندرگاہوں پر نصب کرکے کورونا وائریس کی علامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان نے چین کے ساتھ پروازیں معطل کر دیں

چین میں مقیم پاکستانی طلبا وطن واپسی کے خواہشمند

کورونا وائرس: پاکستانیوں کو احتیاط کی ہدایت

بی بی سی کو حاصل ہونے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے یہ اقدام کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اُٹھایا ہے۔

اس سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ چین کے شہر ووہان اور دیگر متاثرہ علاقوں میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد ان علاقوں سے منگوائی گئی چیزوں کو کراچی بندر گاہ پر ہی روک لیا گیا ہے۔ اس سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے گشتہ 15 روز کے دوران چین کے مذکورہ شہر اور دیگر علاقوں سے تاجروں نے جو سامان منگوایا ہے اس کو کسی طور پر بھی ریلیز نہیں کیا جائے گا۔

سرکاری دستاویز میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سامان کی ترسیل صرف اسی وقت ہی ممکن ہو سکے گی جب اس پر جراثیم کش ادویات کا سپرے یا اس مراحل سے نہیں گزارا جاتا جس کے ہونے کے بعد اس بات کا یقین ہو جائے کہ چین سے منگوائی گئی ان چیزوں میں کورونا وائرس موجود نہیں ہے۔

پاکستان کی سب سے زیادہ تجارت چین سے ہی ہوتی ہے اور ہزاروں پاکستانی چین سے چیزیں منگواتے ہیں جن میں کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ مشینری برتن اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

چین اور پاکستان کے درمیان سست بارڈر پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہوتی ہے تاہم سرد موسم کی وجہ سے آجکل اس بارڈر پر کوئی تجارت نہیں ہو رہی۔

چین سے مختلف اشیا درآمد کرنے والے ایک تاجر تنویر احمد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تاجر چین سے کھانے پینے کی اشیا منگواتے ہیں جو ڈبوں میں بند ہوتی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر چیزوں کو زیادہ تر روکا گیا تو ان چیزوں کے خراب ہونے کا خطرہ موجود رہے گا جس سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے چین سے جو چیزیں منگوائی ہے ان میں زیادہ تر کھانے پینے کی اشیا ہیں جو ڈبوں میں بند ہیں اور ان میں غدا کو محفوظ کرنے والے کیمائی اجزا بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اگر زیادہ دیر تک کھانے پینے کی اشیا کراچی بندر گاہ پر ہی پڑی رہیں تو ان چیزوں کے خراب ہونے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔

سیپیک

تنویر احمد کا کہنا تھا کہ ان کا سامان گذشتہ 10 روز سے کراچی بندرگاہ پر موجود ہے جسے ابھی تک ریلیز نہیں کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک کراچی کی بندرگاہ پر جراثیم کش ادویات نہیں پہنچائی گئیں اور نہ وہاں پر ایسے کوئی آلات نظر آئے ہیں جو چین سے منگوائی گئی ان چیزوں کو سکین کرسکے۔

امپوٹرز اینڈ ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اُنھیں اس پیش رفت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تاہم حکومت پاکستان اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے بعد امپورٹرز کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے یہ اقدام پاکستانیوں شہروں کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے۔

صحافی مشتاق گھمن کے مطابق چین سے درآمد ہونے والی اشیا پر پابندی عائد نہیں کی گئی بلکہ دونوں کے درمیان تجارت جاری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ کورونا وائریس چین کے شہر ووہان اور اس کے کچھ اور علاقوں میں پایا گیا ہے لیکن چین کے دوسرے علاقے تو ابھی تک محفوظ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی تاجر چین کے مختلف شہروں سے سامان منگواتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے چین سے آنے والے سامان کی مانٹرینگ سخت کردی گئی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی سب سے زیادہ تجارت چین سے ہی ہوتی ہے اور گذشتہ برس اس تجارت کا حجم 16 ارب ڈالر کے قریب تھا۔

دوسری طرف پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں حزب مخالف کی جماعتوں نے کورونا وائریس سے بچانے کے لیے چین میں مقیم پاکستانیوں کو فوری طور پر وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک اپنے خصوصی جہاز بھیج کر اپنے شہریوں کو چین سے نکال رہی ہے جبکہ اس کے برعکس موجودہ حکومت اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کر رہی۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر مشاہد اللہ خان اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکٹر کا کہنا تھا کہ حکومت ان چار پاکستانی طالبعلوں کو بھی وطن واپس لائے جن میں کورونا وائریس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان افراد کے لیے ایک الگ سے وارڈ قائم کیا جائے جہاں پر ان کا علاج کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے پاکستانیوں کو چین سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp