مجبوریوں کا سودا: سب سے منافع بخش کاروبار


”سر پلیز یہ جاب میری مجبوری ہے مجھے یہ جاب دے دیں۔ “ لڑکے نے منت بھرے لہجے میں سامنے بیٹھے باس سے کہا۔

”معاف کیجئے گا آپ اس پوسٹ کے لئے اہل نہیں ہیں۔ صرف تعلیم اور مجبوریوں کی بناء پر اگر ہم جاب دینے لگیں تو یہاں پر ہر دوسرا شخص برسر روزگار ہوجائے۔ تعلیم کی علاوہ تجربہ اور قابلیت بھی اہم ہے اور ویسے بھی دوسرے امیدوار آپ سے زیادہ تجربہ کار اور قابل ہیں۔ آپ جائیں اور کہیں اور جا کر قسمت آزمائی کریں۔ “ باس نے سخت لہجے میں جواب دیا۔

وہ لڑکا پندرہویں جگہ سے ناکام و نامراد لوٹا تھا۔ اس کے محلے کے دوست جو اسی کی طرح نوکریاں تلاش میں مارے مارے پھرنے کے بعداب چوری، ڈکیتی اور رہزنی میں ملوث ہو گئے تھے، ایک بار پھر اس کو اکسانے لگے :

”یار یہ حلال روزی کے چکر چھوڑ کیونکہ آج کل نوکری صرف اونچی سفارش والے کو ملتی ہے، یہ نوکریاں ہم غریبوں کے لئے نہیں ہیں۔ ہماری بات مان اور آجا، استاد تجھ سے بہت خوش ہوگا۔ “

لڑکے نے تھکے تھکے اعصاب اور مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے دل سے ایک بار سوچنا چاہا۔ مگر اب کی بار اس کا ایمان اس کے نفس اور پیٹ کی بھوک سے ہار گیا تھا۔ اس نے غربت کی آگ سے

نکلنے کی خاطر ایک اور آگ میں قدم رکھ دیا۔ اور شیطان اور نفس کے پجاری لوگ اپنی جیت کی خوشی میں نہال ہوگئے۔

۔ ۔ ۔

”باجی مجھے تھوڑے سے پیسے ادھار دے دیں اگلے مہینے میری تنخواہ میں سے کاٹ لینا۔ میرے بیٹے کو تھیلیسیمیا تھا۔ مہینے میں دو دفعہ اس کے خون کی بوتلیں چڑھتی تھیں۔ میں نے کبھی آپ سے ادھار نہیں مانگا لیکن آج میرا بچہ اس دنیا سے چلا گیا ہے اور اس کے کفن دفن کے لئے بہت پیسا چاہیے۔ میں اس کی میت گھر چھوڑ کر آئی ہوں، خدا کے واسطے رحم کریں اور اس دفعہ ادھار دے دیں“۔ ملازمہ نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بیگم صاحبہ کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے یہ بات کہی تو بیگم صاحبہ نے بری طرح دھتکارتے ہوئے کہا۔

”تمہارا بچہ مر گیا تو میں کیا کروں اور ویسے بھی تم لوگوں کا تو یہی ہے، کبھی کسی طرح پیسے بٹورتے ہو کبھی کسی طرح۔ ہمارے پاس بھی کوئی خزانے دفن نہیں ہیں جو تم پر لٹا دیں۔ اور اگر پیسے چاہیے ہیں تو پہلے کام کرو، پتہ نہیں کتنے دن کی چھٹیاں کرو گی۔ آج آئی ہو تو پہلے کام کردو گھر کا پھر پیسے لے لینا“۔ بیگم صاحبہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ ”اور ہاں ذرا صفائی کا کام کرنا کبھی جلدی کے چکر میں آدھا ادھورا کام کرو۔ کام پورا کرو گی تب ہی کچھ پیسے مل سکتے ہیں تم کو“۔

ملازمہ نے بے حد دکھ سے ان کی طرف دیکھا اور ٹوٹے ہوئے قدموں سے اندر کی جانب چل پڑی۔ اوربیگم صاحبہ نے چند روپوں کے عوض ملازمہ کے دکھوں کا سودا کر لیا تھا اور اس کے بیٹے کی میت کو اپنی دولت اور طاقت سے خرید لیا۔

۔ ۔ ۔

”سر پلیز میری تنخواہ بڑھا دیں، مجھے تین سال ہوگئے یہاں کام کرتے ہوئے۔ شروع میں تو یہی بات ہوئی تھی کہ ہر سال تنخواہ بڑھے گی اور بونس وغیرہ بھی ملے گا لیکن اب تو تین سال ہونے والے ہیں۔ عید کا بونس بھی ہزار دو ہزار ملتا ہے بس۔ سر گزارش ہے کہ آپ بات کریں ناچیرمین صاحب سے“۔ اٹھارہ ہزار ماہوار کمانے والا مزدور نے اپنی فیکٹری کے مینجر سے لجاجت بھرے لہجے میں کہا۔

”میں نے آگے تمہاری سفارش کردی ہے تم بے فکر رہو تمہاری تنخواہ میں اضافہ کردیا جائے گا“۔ مزدور بس اتنا ہی سن کر بہت خوش ہوا تھا کہ آگے سے مینجر نے کہا:

”تم بس ایسا کرو کہ آج سے ایک ہفتہ اوور ٹائم لگا لو، میں نے تمہاری سفارش تو کردی ہے۔ اگر تم اوور ٹائم لگاؤ گے تو جلد ہی تمہاری تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے گا“۔

”سر کب تک اضافہ ہوگا“۔ مزدور نے بے قراری سے پوچھا۔

”بس کچھ مہینے انتظار کرلو، جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں تھوڑا اور سہی“۔ مینجر نے مصروف انداز میں جواب دیا اور مزدور بھی اداس چہرے کے ساتھ اپنی جگہ پر چلا گیا۔

”اپنی اوقات دیکھتے نہیں ہیں اور آجاتے ہیں تنخواہ بڑھوانے“۔ مینجر نے غصہ میں کہا تو اس کے قریب بیٹھے ایک چمچے نے پوچھا ”سر آپ نے اسے جھوٹی تسلی کیوں دی؟ “

مینجر نے قہقہہ لگا تے ہوئے کہا ”انسان کو اپنا الو سیدھا کرنا آنا چاہیے۔ اس کی پوسٹ پر میں نے دو اور بندوں کو رکھا ہوا ہے، تنخواہ کہاں سے بڑھے گی اگر اس کی بڑھاتاہوں تو سب کی بڑھانی پڑے گی اور کمپنی کو نقصان ہوگا“۔

”لیکن سر بندے کم بھی تو کر سکتے ہیں فیکٹری میں“۔ پاس بیٹھا وہ بندہ بولا

”ارے یار بندے زیادہ ہیں کام بھی تو زیادہ ہو رہا ہے۔ ہم کو تو کام سے مطلب ہے ان لوگوں کی تنخواہ بڑھے یا نہیں ہمیں اس سے کیا۔ ہم نے سب کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا“۔ مینجر نے لاپرواہی سے شانے اچکائے اور اپنے آپ کو مطمئن ظاہر کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

۔ ۔

”انکل یہ غبارہ خرید لو، پچاس روپے کا ایک ہے۔ انکل جی خدا آپ کو اور دے گا یہ غبارہ لے لو نا“۔ بچے نے پارکنگ میں کھڑی گاڑی کے شیشے پر تین چار بار دستک دیتے ہوئے کہا۔

شیشہ نیچے کرکے ایک کرخت چہرے والے نے اس کو دس کا نوٹ دیا اور جانے کا اشارہ کیا۔ بچہ معصومیت سے بولا ”انکل میں بھیک نہیں مانگ رہا محنت کرکے کما رہا ہوں۔ بس ایک غبارہ لے لو میرا بھی بھلا ہوجائے گا“۔

گاڑی میں بیٹھے کرخت نقوش والے آدمی نے گھور کر بچے کا جائزہ لیا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ بچہ سہم کر دورہٹا مگر اتنی ہی دیر میں اس گاڑی والے نے اپنے بندوں کو اشارہ کردیا تھا۔ دو لمبے تڑنگے غنڈؤں نے مل کر اس بچے کو زبردستی گاڑی میں دھکیلا۔ بچے نے جیسے ہی ڈر کر شور مچانا شروع کیا تو اس کے بازو میں ایک انجیکشن پیوست کردیا گیا۔ چند لمحے میں ہی وہ بچہ ہوش و خرد سے بیگانہ سیٹ پر ڈھے گیا۔

یہ منظر وہاں کھڑے کئی لوگوں نے دیکھا بھی اور سنا بھی مگر اس شخص کی گاڑی اور طاقت کی وجہ سے سب خاموش رہے۔ کسی جرات مند شخص نے تھانے میں رپورٹ کروانے کی بھی کوشش کی مگر مردہ ضمیروں کے معاشرے میں انصاف کی توقع یوں ہے جیسے صحرا میں گلاب کھلنے کا انتظار۔

بچے کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک بڑے سے بند کمرے میں پایا جس میں اس ہی کی طرح کے کئی بچے موجود تھے۔ کچھ اپنے حواسوں میں نہیں تھے اور کچھ اس ماحول سے فرار کی خاطر حواسوں سے بیگانہ ہونے کی کوشش کر رہے تھے، کچھ بچوں نے تمسخر اور طنز کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ تب ہی دروازہ کھول کر ایک بندہ داخل ہوا اور اس بچے سے مخاطب ہوا ”آج سے یہی تمھاری زندگی ہے تمہیں تمھارا ایریا بتادیا جائے گا اور تمہارا گیٹ اپ بھی۔ ایک گھنٹے میں تیار ہو جاؤ پھر گاڑی تم لوگوں کو تمھارے ایریے میں اتار دے گی“۔ آدمی نے سخت آواز میں کہا۔

”میں نہیں جاؤنگا، چھوڑ دو مجھے“ بچے نے چیختے ہوئے کہا۔ اسی لمحے اس آدی کابھاری تھپڑ اس کے جبڑے پر پڑا۔ ”آئندہ اگر میں نے یہ بکواس سنی تو تجھے بھی اس نشے کی لت لگا دوں گا، تو کام کا بچہ لگتا ہے اس لیے رعایت کر رہا ہوں۔ کرنا تو تجھے یہی ہے چاہے خوشی سے کر یا ان کی طرح نشے کا عادی بن کر“۔ اس آدمی نے بچے کو بالوں سے پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔

اور ایک اور بے بس اور معصوم فرشتہ ان سفاک درندوں کے چنگل میں پھنس گیا۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں رقم درد اور بے بسی کو اس ظالم نے بہت حقارت سے دیکھا اور مڑ کر فرش پر پڑے بچوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے باہر نکل گیا۔ ان انسان نما سفاک جانوروں نے ایک اور قتل سے، ایک اور گناہ سے اپنے ہاتھ رنگ لئے تھے لیکن بے حس درندوں کو اس کا ادراک شاید قبر میں ہی جا کر ہوتا ہے۔

۔ ۔

”رشیدہ ارے کہاں رہ گئی، منا اتنی دیر سے رو رہا ہے۔ دیکھ تو سہی شاید بھوک سے رو رہا ہے“۔ بڑی بی اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے لاؤنج کی طرف بڑھیں جہاں رشیدہ ڈرامے میں مگن منے کی کوٹ کو زور زور سے ہلا رہی تھی۔ بڑی بی کی آواز پر اچھل کر آواز ہلکی کی اور بچے کو غصے سے گھورا ”اما ں دیکھ تو رہی ہوں منے کو، اس کو توہر وقت بھوک لگتی رہتی ہے“۔ رشیدہ نے بیزاری سے جواب دیا۔

”کچھ تو خدا کا خوف کرو بی بی یہ معصوم تو اپنی ضرورت کے وقت ہی روتا ہے۔ بن ماں کا بچہ ہے تمہیں رحم نہیں آتا اس پر۔ جب دیکھو اپنے ڈراموں سے، اپنے کھانے پینے سے اور سونے سے ہی فرصت نہیں ملتی تمہیں۔ ارے پیار نہیں کر سکتیں تو شفقت کا ہی برتاؤ کرلیا کرو اس مسکین کی ساتھ۔ یا کم ازکم اپنی روزی ہی حلال کرلو“۔ بڑی بی نے جلال میں آتے ہوئے رشیدہ کو جھاڑا ”۔ ہونہہ خود تو مرگئی میری جان پر مصیبت چھوڑ گئی“ رشیدہ نے کلستے ہوئے سوچا۔

پھر رونی آواز بنا کر بڑی بی سے بولی ”میں غریب ہوں نہ اسی لئے آپ ایسا سلوک کر رہی ہیں میرے ساتھ۔ غریب کی عزت تو لوگ پیسوں کے عوض خرید لیتے ہیں۔ اتنا تو اس کا خیال رکھتی ہوں لیکن آپ کو شکایت ہی رہتی ہے مجھ سے۔ “

”بس میرے سامنے زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تم جانتی ہو تمہیں کبھی آیا نہیں سمجھا نہ کبھی بے عزتی کی ہے تمہاری تم ہمارے لئے قابل اعتبار ہواسی لئے تمھیں ایک مسکین کی ذمہ داری دی تھی لیکن اگر تم اپنا رزق ہی حلال نہیں کروگی اپنا کام ایمانداری سے نہیں کروگی تو مجھے ٹوکنا تو پڑے گا نا“۔ بڑی بی نے ناصحانہ انداز میں رشیدہ کو سمجھایا جو برے برے منہ بنا کران کی باتین سن رہی تھی۔ بڑی بی اس کی طرف دیکھ کر تاسف سے سر ہلا کر واپس مڑگئیں اور رشیدہ نے اپنے دل میں کڑھتے ہوئے سوچا کہ یہ امیر لوگ جب چاہے کسی کی بھی بے عزتی کردیتے ہیں، کاش میں بھی امیر ہوتی تو یہ ٹکے ٹکے کی نوکری نہ کرنی پڑتی اور نہ ہی کسی کی آیا بننا پڑتا۔

اور بڑی بی دکھ سے سوچ رہی تھیں ”بے وقوف رشیدہ اتنا بھی نہیں جانتی کہ جو جس کا نصیب ہوتا ہے وہ ہی اس کو ملتا ہے، بندہ دوسرے کے نصیب کا چھین نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک نیک کام کے لئے چنا تھا بے شک وہ اس کام کی تنخواہ لیتی تھی مگر ہر کسی کے نصیب میں دنیا کے ساتھ آخرت کی کمائی نہیں ہوتی“۔

رشیدہ جیسی بہت سی گھریلو ملازمائیں اور بیشتر خواتین بھی اپنے نصیب سے شاکی رہتی ہیں اور احساس محرومی میں مبتلا ہوکر خود بھی حسد کی آگ میں جلتی اور دوسروں کی زندگیوں کو بدتر کرنے اور ان کو بھی احساس محرومی میں مبتلا کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔

۔ ۔

” مے آئی کم ان سر“ افشین نے باس کے آفس کے دروازے پر دستک دے کر پوچھا۔

”آیئے آیئے مس افشین پلیز کم ان“ سامنے کھڑے آدمی نے بڑے پر تپاک انداز میں اندر آنے کی اجازت دی۔

”سر یہ میری پریزنٹیشن تیار ہوگئی ہے اور اس فائل میں تمام چیزیں موجود ہیں آپ ایک نظر دیکھ لیں“ افشین نے اپنے کام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

” ہم ایک نظر کیا پوری کی پوری نظر کرم کردیں آپ پر بس آپ کی رضامندی چاہیے“۔ باس نے عجیب لوفرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر افشین کی تیوری پر بل پڑ گئے اور وہ جلدی سے فائل رکھ کر باہر جانے کے لئے مڑی۔ ”او کے سر میں چلتی ہوں آپ فارغ ہوکر یہ یکھ لیجیے گا“۔

جواباً سر کی آواز آئی ”آپ اتنی ان پروفیشنل ہیں کہ بغیر کسی ڈسکشن کے فائل یونہی چھوڑ کر جا رہی ہیں۔ آپ پہلے مجھے تو بریفنگ دے دیں“۔ سر نے بے باک نظریں اس کے سراپے پر گاڑتے ہوئے کہا۔

ناچار افشین رک گئی اور انہیں بریفنگ دینے کے لئے فائل کھولی۔ جیسے ہی افشین نے اپنی بات شروع کی تو باس اپنی کرسی سے اٹھ کر افشین کے برابر میں آکر کھڑے ہوگئے۔ کبھی غلطی سے شانہ ٹکرانے لگا تو کبھی غلطی سے انگلیاں مس ہونے لگیں۔

”سر پلیز مجھے یہ سب حرکتیں نہیں پسند“۔ افشین نے ناگواری سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا تو باس نے یک دم شرافت کا لبادہ اتار کر اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں پیار کی زبان سمجھ نہیں آرہی شاید۔ کتنا امتحان لوگی میری برداشت کا؟ میں اگر اپنی اصلیت پر آگیا تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوگی“۔

”سر اس سے زیادہ بھی آپ گر سکتے ہیں مجھے اندازہ ہے مگر یہ حالات مجھے یہاں سے جاب چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے، خدارا مجھ پر رحم کریں۔ آپ نے میری پروموشن بھی روک دی کیونکہ میں نے آپ سے کسی بھی قسم کا ناجائز تعلق قائم کرنے سے منع کردیا تھا۔ کیا ترقی کا معیار صرف اور صرف بے حیائی ہے؟ میں اگر کسی مجبوری کے تحت آپ کے پاس ہوں تو آپ میرا فائدہ اٹھائیں گے؟ “ افشین نے سسکتے ہوئے لہجے میں کہا۔

”میرے سامنے یہ نیک پروین بننے کا ڈرامہ بند کرو۔ تم نے اگر میری شرط نہیں مانی تو سوچ لو اس آفس میں تو کیا کہیں بھی نوکری نہیں مل سکے گی تمہیں۔ اچھی بھلی جاب بھی جائے گی اور کیریئر بھی تباہ ہوگا“۔ باس نے فرعونیت دکھاتے ہوئے کہا۔

لوئر مڈل کلاس افشین جو کہ اپنی بیمار ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کا واحد سہارا تھی، کب تک ان بھیڑیے نما انسانوں سے اپنی عصمت کی حفاظت کر پاتی، اپنی مفلسی اور مجبوری کے ہاتھوں اس نے یہ شرط منظور کرلی تھی اور ایک اور پاک باز اور باعفت لڑکی ان مجبوریوں کے طوق کے خاطر ان درندوں کی نفس کی تسکین کا ذریعہ بن گئی۔

یہ ہوس کے پجاری ضروری نہیں صرف مرد ہی ہوں، بہت سارے معاملات میں جہاں مرد اور عورت کی تخصیص ختم ہوتی جا رہی ہے بالکل اسی طرح ہوس کی ماری عورتیں بھی اپنی دولت اور طاقت کے نشے میں چور نیک مردوں کو مجبور کردیتی ہیں۔ نفسانی خواہشات کا منہ زور ریلا صرف مرد کو نہیں عورت کو بھی پاتال میں لے جا پھینکتا ہے۔

۔ ۔

یہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں، چھوٹے چھوٹے مناظر روزانہ ہی کہیں نہ کہیں کسی گلی، گھر یا دفتر میں رونما ہو رہے ہیں مگر کہیں معاشی لحاظ سے کہیں جسمانی لحاظ سے اور کہیں سطحی سوچ کے لحاظ سے ہم ”بے بس اور مجبور ہیں“۔ ہم یہ ظلم ہوتے دیکھتے بھی ہیں اور کبھی ہم خود بھی یہ ظلم کر رہے ہوتے ہیں مگر افسوس کہ یہ سب دیکھ کر یا سن کرنہ ضمیر جاگتا ہے نہ مردہ دل کانپتا ہے۔

ہر دفعہ ضروری نہیں کے ہم بالواسطہ طور پر یہ ظلم کر رہے ہوں، اکثر بلاواسطہ کرتے ہیں زکوٰۃ نہ دے کر، حقدار کو اس کا حق اس کا حق نہ دے کر مزدور کو اس کی مزدوری صحیح وقت پر ادا نہ کرکے، سفید پوش لوگوں کی درپردہ مدد نہ کرکے، صدقات نہ دے کر، اور کبھی جسمانی لحاظ سے کسی کی مدد نہ کرکے۔

ہم مسلمان تو وہ قوم ہیں کہ جس کے لئے کسی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ، راستے کا کنکر یا پتھر ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ مگر پتہ نہیں ہم کس ڈگر پر جا رہے ہیں۔ مجبور کی مجبوری، بے کسوں کی بے کسی کا فائدہ اٹھا کر اپنی جھوٹی انا کی تسکین کرتے ہیں، اپنے وحشیانہ سلوک سے اندر کے شیطان کو غذا دیتے ہیں دعا ہے کہ ہمیں قبر کے اندھیروں سے پہلے اپنے اندر کے اندھیروں، اپنے اندر کی وحشتوں کو ختم کرنا نصیب ہو جائے۔ ورنہ یہ زندگی کی وحشتیں، ظلم و ستم کی ہولناکیاں آخری سفر کے اژدھے بن جائیں گے۔ یہ سفاکیت معاشرے کی بربادی کے ساتھ آخری آرام گاہ کی تباہی کا بھی سبب بن جائے گی۔

سفاکیت معاشرے کی بربادی کے ساتھ آخری آرام گاہ کی تباہی کا بھی سبب بن جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments