ریکارڈ توڑ کالم اور معاشرے کا موڈ


عمیر حسن ایک اعلٰی تعلیمی ادارے کا طالب علم اور ایک عرصے سے میری تحریروں کا دلداہ ہے، پچھلے ہفتے میرا کالم ”برفانی رات کا ہیرو“ جیسے ہی سوشل میڈیا کے تیز ترین بہاؤ میں آیا تو میں نے نوٹ کیا کہ کالم کی پزیرائی پہلے سے بھی بڑھ کر ہے لیکن سفر اور مصروفیت کی وجہ سے میں اس پر توجہ نہ دے سکا تاہم عمیر مسلسل فون اور میسجز کرتا اور خوشی سے اُچھلتا رہا اور ظاہر ہے اس کی خوشی تحریر کو ملنے والی پزیرائی کے سبب تھی۔ ( میں نے عمیر حسن کے نقطئہ نظر کو یہاں اس لئے بیان کیا کہ دو دن پہلے ممتاز کالم نگار نصرت جاوید صاحب نے لائک اور شئیرز کو موجودہ دورمیں تحریر کی مقبولیت کا پیمانہ بنا کر تفصیل سے اس پر لکھا تھا)

تین دن بعد عمیر بتا رہا تھا کہ یہ کالم ڈھائی ہزار لائک اور سو سے زیادہ شیئر لے کر سوشل میڈیا کی تاریخ (پاکستان کی حد تک ) میں مقبولیت کا ریکارڈ قائم کر چکا ہے اور مزید مقبولیت کی جانب گامزن ہے۔

لیکن میری خوشی ایک اور حوالے سے تھی اور وہ یہ کہ نہ صرف سماجی جذبہ بلند اور شعور بڑھ رہا ہے بلکہ حقیقی ہیروز کی گمنامی بھی ایک قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے ورنہ بلوچستان کے دور افتادہ پہاڑوں اور ایک برفانی رات میں انسانیت کے لئے برسریپیکار رہنے والا سلیمان خان نہ لائم لائٹ میں آتا اور نہ لوگوں کے دلوں میں اُترتا۔

تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا کا کردار قابل ستائش ہے۔
میں ذاتی طوف پر خاموشی اور گمنامی کے ساتھ ڈیلیور کرنے والے لوگوں کی تلاش میں رہتا ہوں اور عمومًا ان پر لکھتا بھی رہتا ہوں۔

اس لئے جب رات گئے بلوچستان کے کان مہترزئی میں برف میں پھنسے مسافروں اور اُنہیں نکالنے والے نوجوان سلیمان خان کی ویڈیو کلپ کہیں میری نظر سے گزری تو میرے اندر کا انسان دوست اور صحافی حسب معمول جاگ اُٹھے اور میں اپنے رائٹنگ پیڈ اور پین کی طرف لپکا مگر لکھنے کے لئے معلومات بھی تو درکار تھیں تاہم دو عشروں کا صحافتی تجربہ خبر تک پہنچ کی تیکنیک پوری طرح ازبر کراچکی ہے۔ اس لئے میں نے کوئٹہ میں موجود ایک صحافی دوست سے رابطہ کر کے سلیمان خان کا فون نمبر معلوم کرنے کی درخواست کی جو اس نے چند منٹ بعد مجھے بھیج دیا (یہی درخواست میں نے وزیراعلٰی بلوچستان کے پریس سیکرٹری کو بھی وٹس ایپ میسج کے ذریعے کی لیکن وہ بروقت میسج نہ دیکھ پایا تاہم صبح میسج دیکھ کر فورًا نمبر بھیج دیا تھا) سلیمان خان سے میرا رابطہ ہوا تو اس نے شستہ بلوچی پشتو میں پوچھا کہ ”چوک خبرے کا (کون بات کر رہا ہے ) میں نے ازراہ مذاق بلوچی پشتو ہی میں جواب دیا اور اس کا مختصر انٹرویو لے کر اسے کالم کی شکل میں ڈھال لیا جسے اگلے چند گھنٹوں میں ایک مبالغہ آمیز پزیرائی ملی۔

کہنا یہی ہے کہ ضروری نہیں کہ ہم (کالم نگار ) دن رات سیاست کو ہی موضوع بناتے اور اس پر لکھتے رہیں بے شک اس پر لکھنا چاہیے کیونکہ یہ بھی اوّلین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے لیکن گردوپیش میں بپا ہونے والے بہت سے عوامل (منفی اور مثبت دونوں ) گو کہ سیاست سے غیر متعلق ہوتے ہیں لیکن یہی عوامل معاشرے کے رُخ کا تعین بھی کرتے ہیں البتہ یہ ایک لکھاری کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان عوامل اور افراد کو سامنے لائیں اوران کے بنیادی کردار اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے آگاہی اور تحرک میں کردار ادا کر یں۔

میرے لئے وہ لمحات انتہائی پرجوش اور پر اُمید تھے جب میرے قارئین کے علاوہ عام لوگ بھی سلیمان خان کے حوالے سے حد درجہ مثبت خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے رہے۔

اس اجتماعی تاثر اور ستائش سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی آمادہ بہ مدد اور انسان دوست روئیے کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جو یقینًا ان پر آشوب حالات اور بگاڑ پر قابو پالے گی جس نے ایک ذہین قوم اور وسائل سے مالا مال ملک کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔

سلیمان خان کا کردار اور مقبولیت یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ اب بنے بنائے ہیروز یا میڈیائی بتوں کو پوجنے کا زمانہ نہیں رہا بلکہ اب یہ معیار اور عزت کارکردگی اور کردار ہی سے مشروط ہونے لگے ہیں۔

اس کے لئے اب نہ میڈیائی تکنیک کو سمجھنے کی ضرورت ہے نہ ہی صحافیوں سے پی آر اور تعلقات بنانے کی بلکہ آپ خاموشی کے ساتھ کسی مثبت کام کا بیڑا اُٹھائیں معاشرے یا افراد کی خاطر کسی نیکی کی تلاش میں نکلیں اور کردار ادا کریں جس سے دوسروں کو خیر پہنچے، آپ کے آس پاس کوئی نوجوان اپنا سیل فون نکال کر سوشل میڈیا پر آپ کی نیکی اور خیر کو اُچھال دے گا اور پھر ہم جیسے لکھاری آپ کے پیچھے یوں بھاگتے ہوئے آئیں گے جیسے سلیمان کے پیچھے بھاگتے اور اسے ہیرو بناتے رہے ورنہ کہاں کوئٹہ اور کہاں پشاور!

کوئٹہ سے یاد آیا کہ میرا عزیز بھانجا فیصل حیات آج کل گورنر ہاؤس کوئٹہ میں ایک اہم عہدے پر تعینات ہے۔ کچھ دن پہلے سلیمان خان کسی کام سے اس کے دفتر گیا تو وہی کالم زیر بحث تھا۔

فیصل نے مجھے فون ملایا اور کہا کہ ماموں جان سلیمان خان آیا ہوا ہے ان سے ذرا بات کر لیں۔ سلیمان نے شکریہ ادا کرنے کے بعد بتایا کہ اسلام آباد میں میرا کوئی کام ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل کے راستے پہلے پشاور آکر آپ سے ملنے کا ارادہ ہے پھر تھوڑے سے توقف کے بعد ایک سادگی کے ساتھ پوچھا کہ سر آپ کے لئے کیا لے کر آؤں میں نے فورا جواب دیا بس کان مہترزئی سے تھوڑی سی برف ساتھ لیتے آنا۔
اس کا بلند بانگ قہقہہ گونجا اور فون فیصل کو دے دیا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments