مفتی عبدالقوی سے خلیل الرحمان قمر اور مدنی تکیے تک


مفتی عبدالقوی سے خلیل الرحمان قمر تک سب ایک ہی بات کہتے ہیں کہ عورت آدمی کے لئے انعام کے طور پر پیدا کی گئی ہے جس کو وہ جب چاہے حاصل کر سکتا ہے اور جب چاہے ٹھکرا کر پھینک سکتا ہے۔ نکاح، متعہ، سفری نکاح (نکاح مسیار) اور شادی سب مرد کے لئے اپنا انعام پا لینے کے طریقے ہیں۔

مفتی عبدالقوی نے تو صاف الفاظ میں کہا کہ چار شادیوں کی حد ضرور ہے مگر مرد کے لئے نکاح کی کوئی حد نہیں۔ شادی اور نکاح کی تفریق مفتی صاحب نے یوں کیا کہ شادی گھر بسانے کے لئے ہوتی ہے اور نکاح جنسی تسکین کے لئے۔ اس بات پر کسی جید یا عام و خام کا بھی رد نظر سے نہیں گزرا اس لئے اس بات کو تسلیم کرنے کے علاوہ راستہ نہیں۔

ایک بار چند دوستوں کے ساتھ ٹرین میں سفر کے دوران ایک ساتھی ہر خاتون کو بڑے اشتیاق سے دیکھ رہا تھا۔ بعض خوتین کو ہمارے کمپارٹمنٹ میں بڑی کوفت بھی محسوس ہوئی جو ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ہر عورت کو یوں کیوں دیکھتا ہے تواس نے برجستہ کہا کہ عورت ہوتی اسی لئے ہے کہ اسے دیکھا جائے اور لطف اٹھایا جائے۔ اس نے واضح کیا کہ صرف محرم عورتوں یعنی دادی، نانی، ماں، بیٹی، بہین، بھوپھی، خالہ کے علاوہ سب مرد پر حلال ہیں۔

ہم نے سفر کے دوران وقت گزاری کے لئے پوچھا کہ کیا عورتوں کو اس طرح دیکھنا، ایسی چاہ رکھنا، جنسی تسکین کا تقاضا کرنا اور تعلق قائم کرنے میں گناہ نہیں؟ اس نے کہا کہ گناہ تو بہت سی باتوں میں ہے مگر اس گناہ میں لذت ہے اور اس کو کرنے میں کم از کم سواد تو ہے۔

اس نے مزید واضح کردیا کہ غیر مسلم عورت کے ساتھ جسمانی تعلق کا گناہ کسی مسلم عورت سے ایسا تعلق رکھنے کے مقابلے کم ہے۔ ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر مسلم عورتیں تو پیدا ہی ہماری ضروریات کو پوری کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔ کفار کے خلاف لڑائی میں اگر کسی کافر عورت ہاتھ آئے تو وہ مال غنیمت کے طور پر لونڈی رکھی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ ہر قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے اس میں کوئی گناہ وغیرہ نہیں۔ اگر لونڈی کے ساتھ جسمانی تعلق رکھ کر اس کا درجہ بڑھا دیا جائے تو یہ اس عورت پر احسان عظیم ہے۔

میں نے اس بات کا ذکر کسی اور دوست سے کیا جس کا ہمارے قبائلی سماج سے بھی ہے تو اس نے پوچھا کہ جہاں لڑکوں کو ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہو تو عورت کے بارے میں ایسے خیالات سن کر حیرت کیوں ہونی چاہیے؟ یہاں لڑکوں سے عشق کیا جاتا ہے، شاعری کی جاتی ہے اور ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، ان کے لئے دشمنی کی جاتی ہے قتل ہوتے ہیں۔

اس دوست نے کہا کہ ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں یہ واقعہ ہوا وہ واقعہ ہوا اور کڑھتے رہتے ہیں۔ کیا کبھی کسی سے پوچھا کہ وہاں رہنے والے کیا کہتے ہیں؟ میری لاعلمی پر کہا کہ ایسی باتوں کو غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا۔ لڑکوں کی ایک دوسرے سے دوستیاں اور عشق معاشقے، اساتزہ کے لڑکوں کے ساتھ ایسے تعلق کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جاتی۔ یہاں کی کہاوت “استاد بھی کبھی طالب رہا ہے اور طالب نے بھی کل کو استاد ہونا ہے” دراصل اس رواج کے تسلسل کی عکاسی ہے۔

جب ایسا واقعہ ہوتا ہے تو پولیس کو کبھی رپورٹ نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسی بات کو جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہاں اگر ایسی بات کسی لڑکی کے ساتھ ہوجائے تو اس کو برا سمجھا جاتا ہے مگر لڑکوں کے معاملے میں ایسی باتیں روزمرہ کا معمول ہے۔ لڑکوں کے لئے مدنی تکیے کی نصحیت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔

وزیر اعظم کا کسی نرس کو حور کہنا ایک طرف معاشرتی طور پر ناقابل قبول ہے تو دوسری طرف اس منصب پر بیٹھے شخص کی اندرونی کیفیت کی عکاسی بھی ہے کہ جب وہ جنس مخالف کو دیکھتا ہے اور ملتا ہے تو اس کے من میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔ منبر سے اصلاح احوال کرنے والا عالم دین، انصاف کی کرسی پر بیٹھا منصف، جرائم کا سد باب کرنے والا تھانیدار، علم کا نور پھیلانے والا اتالیق، سر پر ہاتھ رکھنے والا چچا۔ ماموں اور خالو سب ہی اسی معاشرے کا حصہ ہیں تو وزیر اعظم مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔

ہم تک جو خبریں پہنچتی ہیں وہ مقامی تھانوں میں اندراج واقعات کی ہوتی ہیں اورکہا جاتا ہے کہ ایسے واقعات ایک فی صد سے بھی کم رپورٹ ہوتے ہیں، ان میں بھی نصف سے زیادہ تھانے کی حد تک ہی صلح صفائی سے نمٹائے جاتے ہیں اور خبر نہیں بنتے۔ ایسے واقعات جن میں اگر کسی کی جان چلی جائے تو رپورٹ ہوتے ہیں اور خبر بن جاتے ہیں وگرنہ اگر صرف جنسی زیادتی کی حد تک دیکھا جائے تو صورت حال ایسی ہے جس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

خاکسار کا تعلق سماجی شعبے میں تحقیق سے ہونے کی وجہ سے ایسی سماجی برائیوں پر خود کام کرنے کا موقع بارہا ملا ہے۔ جو کچھ سنا، دیکھا اور محسوس کیا اس کو لکھنے کی ہمت نہیں۔ نرگسیت میں مبتلا ہمارا معاشرہ ہمیشہ انکار کی کیفیت میں رہتا ہے کسی بھی تلخ سچائی کو سننے کی ہمت سے عاری ہے۔ اگر کوئی سچ کہہ دے تو بات الٹا اسی کے گلے پڑتی ہے اور بجائے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے کئی علاقوں میں بھی لڑکوں سے شادیاں ہوتی ہیں، ان کو رکھیل رکھا جاتا ہے، وہ لڑکیوں کی طرح ناچتے اور مردوں کی دلجوئی کرتے ہیں۔ معدنیات کی کانوں میں کام کرنے والے کیمپوں، شہروں میں تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں کے کیمپوں اور ایسی دیگر جگہوں میں جو کچھ دیکھا جا سکتا ہے وہ لکھنے کی ہمت نہیں۔ میں سماجی تحفظ کے لئے کام کرنے کے دوران ایسی جگہوں پر ہمیشہ صرف ایک ہی بات کہتا ہوں کہ ایڈز، ایچ آئی وی اور دیگر ایسی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ کم از کم زندگیاں تو محفوظ ہوں۔

کراچی کے نزدیک ایک مچھیروں کی ساحلی بستی میں سماجی حالات معلوم کرنے گئے تو خواتین کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ وہاں کے مرد منشیات اور لڑکوں کی لت میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو ازدواجی زندگی کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ لونڈے بازی، بچہ بازی اور چھوکرا بازی کی اصطلاحین بھی ہمارے ہاں عام استعمال ہوتی ہیں مگر بطور مجموعی ہمارا معاشرہ ایسی کسی بھی برائی کے ہمارے ہاں موجود ہونے کا انکاری ہے۔

گزشتہ سالوں میں سوارا اور ونی جیسی سماجی برائیوں کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ کام ہوا ہے۔ گھروں اور سکولوں میں بچوں کے تحفظ کے لئے شعور و آگاہی پر کام ہورہا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی بھی ایک احسن قدم ہے۔ مگر جب تک مدارس، ہوٹلوں، بس اڈوں، تعمیراتی کیمپوں، معدنیات کی کانوں میں نابالغ بچے موجود رہیں گے ان کا استحصال جاری رہے گا۔ اور جب تک ہم اس استحصال کو جرم نہیں سمجھیں گے جرائم ہوتے رہیں گے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments