’پاکستان کنفیوژن میں ہے کیونکہ پیدا ہی کنفیوژن میں ہوا‘


کراچی

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سفارت کاری ’بورنگ ڈپلومیسی‘ ہے، جبکہ آج کے دور میں سافٹ ڈپلومیسی کامیاب ہے۔

کراچی میں جمعے کو دوسرے ادب فیسٹیول کی افتتاخی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ معاشی اور عسکری سفارت کاری سافٹ پارٹ نہیں ہے، پاکستان کو برانڈنگ کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو اس کی موسیقی، آرٹ، اور فلم سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور دفترِ خارجہ اور اس کے ساتھ کام کرنے والے اسلام آباد سے باہر نکلیں دیکھیں، ان کے پاس کیا میوزک ہے، کیا کاریگر اور آرٹسٹ ہیں، دنیا میں ان کو شو کیس کرنے کی ضرورت ہے۔

’اقوام متحدہ گلوبل سٹیج ہے جہاں پاکستان کے آرٹ اور فن کی کوئی نمائش نہیں ہوئی، میں نے راحت فتح خان کو بلایا اور اللہ ہو کی فرمائش کی۔ ہال میں اللہ ہو کی آواز گونجنے لگی وہ اہم وقت تھا ہم انسانی حقوق کونسل کی رکنیت کا انتخاب لڑ رہا تھے، کشمیر کی وجہ سے یہ منصب اہم تھا، اس محفل کے بعد ہم وہ انتخاب جیت گئے۔ میں نے راحت فتح کو میسیج کیا کہ اس کامیابی میں آپ کا اہم کردار ہے۔‘

ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے 190 اراکین میں سے 55 افریقہ کے ممالک ہیں، 37 چھوٹے جزائر والے ملک ہیں اور 12 لاطینی امریکہ کے ملک ہیں، جنھیں ہمیں بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم قدیم تہذیب ہیں۔ ’دنیا آرٹ و کلچر سے قوموں کو پہچانتی ہے۔‘

کراچی

’ہم نے فلم فیسٹیول منعقد کیا، کئی سفیروں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آپ کے پاس فلم انڈسٹری ہے، اسی طرح آرٹ کی نمائش کی جس میں سیکریٹری آئے اور خطاطی کے سامنے آکر رک گئے اور کہا کہ میں نے تو سمجھا تھا کہ پاکستان صرف یہ ہی کرتا ہے۔‘

ملیحہ لودھی نے بینظیر بھٹو کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اُن دنوں وہ امریکہ میں سفیر تھیں ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے امریکہ کی پابندیاں عائد تھیں، بینظیر بھٹو نے صدر کلنٹن کو کہا کہ رعایت دی جائیں اور ہم نے جو ایف 16 طیاروں کی ادائیگی کی ہے وہ دیے جائیں، ان دنوں کلنٹن کا زور نہیں تھا کیونکہ سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت تھی، ہم پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے یہ گول حاصل کرسکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کانگریس کے ممبران سے ملاقات کی، پریشر گروپس اور صحافیوں سے بات کی اور ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔

کراچی میں یہ دوسرا ادب فیسٹیول ہے، جس کے روح رواں امینہ سید اور آصف فرخی ہیں۔ اس سے پہلے امینہ سید آکسفرڈ پریس سے وابستہ تھیں۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امینہ سید کا کہنا تھا کہ 2010 میں انہوں نے ادبی میلے کا سلسلہ شروع کیا تھا موجودہ وقت کراچی سمیت متعدد علاقوں میں اب یہ ادبی میلے پھیل چکے ہیں۔

دوسرے ادبی میلے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس میں کریئیٹوو رائٹنگ ورکشاپ اور انٹریئیکٹیو سیشن رکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ لٹرری ٹوئرز کا انتظام بھی کیا ہے، جس میں کراچی کے وہ مقامات جن کا ذکر کہانیوں اور افسانوں میں ملتا ہے یا جہاں رائٹرز نے قیام کیا یا وقت گزارا، ان کی سیر کرائی جائے گی۔

آصف فرخی کا کہنا تھا یہ ادبی میلہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کتابوں کی مہورت ہونی نہیں دی جارہی، پبلشرز کے دفاتر سے کتابیں اٹھائی جاتی ہیں اور فلموں کی نمائش کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ’ان قدامات سے شدت پسندی بڑھے گی، ادب اس کی روک تھام میں دیوار کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا اور عدالتی فیصلوں میں ادبی حوالوں اور شاعری کی روایت پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادبی دلائل قانونی دلائل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں وہ بات جو ویسے نہیں کہی جاسکتی وہ شاعری کے ذریعے کہہ دی جاتی ہے۔

کراچی

ادب فیسٹیول کے پہلے روز 6 موضوعات پر بحث مباحثے کیے گئے، جن میں خواتین پر تشدد، طلبہ یونین کی بحالی، پاکستانی بیانیہ کے ختم نہ ہونے والی لڑائی شامل تھی جبکہ عمر شاہد حامد کی کتاب ’دے فکس‘ پر ان کے ساتھ نشست کی گئی۔

پاکستانی بیانیہ کے ختم نہ ہونے والی لڑائی شامل پر بات کرتے ہوئے سابق سفیر نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کا خیال واضح تھا کہ یہ بریصغیر کے مسلمانوں کا ملک ہوگا جہاں انہیں معاشی آزادی ہوگی وہ اپنا طرز زندگی برقرار رکھیں ۔

’مسلم لیگ کا ڈھاکہ میں جو پہلا اجلاس ہوا اس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ برطانیہ جا رہا ہے مسلمان جو آبادی کا صرف پچیس فیصد ہیں ان پر ہندو اپنا ایجنڈہ اور خواہشات مسلط کریں گے وہ اپنا طرز زندگی کیسے برقرار رکھ سکیں کہ گے قائد اعظم جو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے پاکستان کے بانی بن گئے صرف اس لیے کہ انہوں نے یہ سمجھا ایک یہ ہی راستے ہے جس سے مسلمان وطن حاصل کرسکتے ہیں اور معاشی اور سیاسی طور پر آزاد ہوں گے۔

نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ قائد اپنی سوچ میں بلکل واضح تھے کہ وہ مسلم ریاست کے بارے میں بات نہیں کر رہے بلکہ ایسی ریاست جس میں لوگ اپنی زندگی آزادی سے گزاریں وہ مندر اور مسجد میں جاسکتے ہیں کیونکہ مذہب ریاست کا مسئلہ نہیں ہوگا۔

پروفیسر پرویز ہود بائی نے نجم الدین شیخ سے اختلاف کیا اور کہا کہ پاکستان ایک کنفیوژن کی صورتحال میں ہے کیونکہ اس کی پیدائش بھی کنفیوژن میں ہی ہوئی تھی۔

’پاکستان کی بنیاد جو محمد علی جناح نے بیان کیں کہ برصغیر میں دو قومیں رہتی ہیں جو ایک دوسرے کی مخالف ہیں وہ کبھی بھی امن کے ساتھ نہیں رہ سکتیں، دوسرا حصہ یہ تھا کہ مسلمان ایک قوم ہیں۔ پہلے موقف جس سے نریندر مودی کو پاور ملا۔ مذہبوں میں کشیدگی رہتی ہے اور ہندو مسلم میں خصوصی کشیدگی ہے تاہم جناح کی دوسری بات کافی غیر حقیقت پسندانہ ہے سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان ایک قوم بن سکتے ہیں اور پرامن رہے سکتے ہیں تو پھر بنگلادیش کیوں بنتا؟

کراچی

پرویز ہودبائی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیانیہ میں بنگلادیش پر بات نہیں کی جاتی۔ ’ہم نے بنگالیوں کے ساتھ برا سلوک کیا ہم نے انہیں کمتر تصور کیا، ہم نے پہلے ان کا استعمال کیا اور پھر ان کا قتل عام کیا، اگر تمام مسلمان پر امن طریقے سے رہ سکتے ہیں تو بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک نہ ہوتی اور منظور پشتین گرفتار نہیں ہوتا۔‘

پرویز ہو بائی نے نجم الدین شیخ سے مخاطب ہوکر کہا کہ محمد علی جناح پاکستان کے بانی ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کیا ہوگا؟ انہوں نے کبھی کوئی ریسرچ پیپر نہیں لکھا کوئی ایک مضمون تحریر نہیں کیا انہوں نے متعدد تقاریر کیں جن میں مختلف اوقات پر مختلف باتیں کہیں۔

’11 اگست 1947 میں فرنٹیئر میں خطاب کرتے ہوئے جناح نے کہا کہ تم پہلے مسلمان ہو پھر انڈین ہو ، 1948 کو کراچی میں بار کاؤنسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس زمین پراسلامی قانون ہوگا۔ ’دراصل انہیں پاکستان کا آئیڈیا نہیں تھا 1945 میں جب مولانا مدنی نے ان سے پوچھا کہ پاکستان کیا ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا فکر نہ کریں ہمارے پاس بہت وقت ہے ہم پاکستان حاصل کرلیں پھر دیکھ لیں گے کہ کیا نظام ہوگا۔‘

پرویز ہود بائی کے مطابق محمد علی جناح کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہ تھا کہ جاگیرداری سے کیسے چھٹکارہ حاصل کریں گے، پاکستان فیڈریشن ہوگا یا کنفیڈریشن، سائنس ٹیکنالوجی میں کیا ہوگا اس کا کوئی پلان نہ تھا۔

’کنفیوژن اور بھی گہرا ہوگیا جب دو قومی نظریہ 1971 میں خلیج بنگال میں بہہ گیا، اس کو وہاں ہی ختم کردینا چاہیے تھا ، ہمیں کسی نظریہ کی ضرورت نہیں ہے ملک نظریے کے بغیر رہے سکتے ہیں ہالینڈ اور جاپان کے پاس کوئی نظریہ نہیں بنگلادیش کی مثال لے لیں ہم نارمل ملک ہونا چاہیے اور نامل ملک اپنے شہریوں کے فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں، یہ ملک افواج پاکستان کے لیے نہیں عوام کے لیے بنا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp