امریکہ ایران کشیدگی: امریکہ میں مقیم ایرانی نژاد خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں


لیلی

لیلیٰ جب دو برس کی تھیں تو انھوں نے پہلی بار ایران کا سفر کیا تھا اور اس کے بعد سے وہ 20 سے زیادہ بار وہاں کا سفر کر چکی ہیں۔

’ہم ایران میں اپنے گھر والوں کے لیے پریشان ہیں۔ میں کئی دنوں سے نہ کھا پا رہی ہوں اور نہ ہی سو پا رہی ہوں۔ میرے سر میں مستقل درد ہے۔‘

19 سالہ ایرانی نژاد امریکی شہری لیلی اوغابیان اس طرح اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔

امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے سے تقریباً دس لاکھ سے زیادہ آبادی والے ایرانی نژاد امریکی پریشان ہیں کیونکہ بس کچھ ہی دن پہلے تک دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر تھے۔

لیلی کے والد رضا، ایران کے کرمان علاقے میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا آبائی علاقہ ہے جو کہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے اور جس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی۔

امریکہ نے ایران کی جانب سے میزائل حملوں کے بعد ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اور پھر اس کے بعد سے ایران مخالف بیانات اور ٹویٹس کا تسلسل برقرار ہے۔

ایک ایرانی نے مجھے بتایا: ’ایران کے متعلق مستقل بیانات سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم پر مستقل طور پر نظر رکھی جا رہی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا مسلم ممالک ایران کے لیے متحد ہو پائيں گے؟

پاکستان واقعی ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کر سکتا ہے؟

مشرق وسطیٰ کے بحران میں کون جیتا، کون ہارا؟

رضا اپنی بیٹی لیلی کے ساتھ ایران میں

رضا اپنی بیٹی لیلی کے ساتھ ایران میں

امریکی انتظامیہ نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اقدام ایرانی حکومت کے ’برے سلوک‘ کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے ہیں جبکہ وہ ایرانی عوام کی حمایت کرتی ہے۔

لیلیٰ جب دو برس کی تھیں تو انھوں نے پہلی بار ایران کا سفر کیا تھا اور اس کے بعد سے وہ 20 سے زیادہ بار وہاں کا سفر کر چکی ہیں۔

لیلیٰ جارج ٹاؤن کے وسیع کیمپس میں پبلک پالیسی میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جنگ ان لوگوں کو خطرے میں ڈال دے گی۔ وہ جنگ کا میدان بن جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایسے ملک میں رہنا جہاں میڈیا کا ایک حصہ ایران کی منفی تصویر کشی کرتا ہے بہت آسان نہیں ہے۔

انھوں نے کہا: ’مجھ میں بہت اندرونی کشمکش ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میری شناخت دو لخت ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجھے اپنے دوسرے حصے سے نفرت کرنا چاہیے۔ اسی لیے میں نے اپنی زندگی کو اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے وقف کر دیا ہے۔‘

ان کے والد رضا ان کی ذہنی کشمکش سے بے خبر نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں ایران جاتا ہوں تو وہ مجھ سے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے میں امریکی جاسوس ہوں۔ جب میں امریکہ واپس آتا ہوں تو وہ مجھے دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ میں ایران کیوں گیا تھا اور میں نے وہاں کیا کیا۔‘

امریکہ میں ٹرمپ حکومت کا تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور رضا کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں وہ دور پھر نہ واپس آ جائے جب ایرانیوں کے خلاف ملک کے مختلف گوشے میں مظاہرے ہونے لگے تھے۔

ایک زمانہ وہ تھا جب ایران کو امریکہ میں عظیم تہذیب و تمدن اور روایت کے امین کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

سنہ 1979 کے ایرانی انقلاب اور امریکی سفارت خانے پر حملے نے امریکی خیال کو بدل دیا اور وہ ‘ایرانیوں کے دہشت گرد اور متعصب’ سمجھنے لگے۔

ایرانیوں کا کہنا ہے کہ ایران کے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں اور ٹرمپ کے دور میں ایران کو سزا دینے والی پابندیوں کی وجہ سے ایک بار پھر ان میں خوف گھر کر گیا ہے۔

نسرین

کیلیفورنیا یونیورسٹی میں تقابلی ادب کی پروفیسر نسرین رحیمہ کا کہنا ہے کہ انھیں بھی امریکی امیگریشن میں عجیب و غریب سوالات کا سامنا رہا

دی گارڈین اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی حکام ایرانی طالب علموں کو بغیر مطلع کیے امریکہ آنے والی پروازوں میں سوار ہونے سے روک رہے ہیں اور ان کے ویزا کو سفر سے پہلے منسوخ کیا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایرانی طلبہ جو جائز ویزے کے ساتھ آئے انھیں امریکی ہوائی اڈوں پر روک لیا گیا اور انھیں واپس بھیج دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے بعض کو امریکہ دوبارہ آنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

بزفیڈ کی رپورٹ کے مطابق وفاقی عدالت کے حکم کے باوجود امریکی کسٹمز اور بورڈر پروٹیکشن حکام نے حال ہی میں ایک ایران طالب علم کو حراست میں لیا اور پھر اسے واپس ایران بھیج دیا۔ وہ بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے وہاں پہنچا تھا۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی میں تقابلی ادب کی پروفیسر نسرین رحیمہ کا کہنا ہے کہ انھیں بھی امریکی امیگریشن میں عجیب و غریب سوالات کا سامنا رہا۔ انھوں نے کہا: ‘کسی بھی ایرانی کے وہاں آنے پر پابندی یا پھر انھیں سخت مشکلات سے دوچار کرنے کی کوشش جاری ہے۔‘

تقریباً 60 ایرانیوں اور ایرانی نژاد امریکی شہریوں نے کہا ہے کہ حال ہی میں انھیں واشنگٹن میں بلین کے پاس پیس آرچ بورڈر کراسنگ پار کرتے وقت تقریباً ساڑھے سات گھنٹے کے لیے روک لیا گیا۔

ایرانی امریکی بار ایسوسی ایشن کے بابک یوسف زادہ نے کہا ہے کہ ’بہت سے ایرانی نژاد امریکی محصور محسوس کرتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کی شہری جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ انھیں ان کی نسل اور ان کے والدین کی قومیت کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے مقدمات آ رہے ہیں جس میں ایرانیوں کے اثاثے کو منجمد کیا جا رہا ہے، تعلیمی اداروں میں ان کے داخلے کو منسوخ کیا جا رہا ہے یا پھر انھیں اس خیال سے ملازمت نہیں دی جا رہی ہے کہ ایسا کرنا ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی تو نہیں یا پھر وہ شخص ’مشتبہ` تو نہیں۔

ایک ایرانی نژاد امریکی شہری نے کہا کہ میڈیا کے حملے اور سوشل میڈیا پر نفرت کی بھرمار کی وجہ سے نفرت پر مبنی جرائم ہو رہے ہیں۔

سنہ 2015 میں ایک 22 سالہ ایرانی نژاد امریکی شہری شایان مازورئی کی ’سفید فام کو برتر سمجھنے والے ایک شخص‘ کے ہاتھوں چاقو مارنے کے واقعے کے خلاف مقدمے کی سماعت ابھی جاری ہے۔

سنہ 2017 میں دو انڈین شہریوں پر مبینہ طور پر ایرانی ہونے کے شبے میں فائرنگ کی گئی۔ ان میں سے ایک کی موت ہو گئی۔ حملہ آور نے مبینہ طور پر فائرنگ کرنے سے قبل چیخ کر ’ہمارے ملک سے نکل جاؤ‘ اور ’دہشت گرد‘ کہا تھا۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ میں ایرانی مطالعے کی پروفیسر فاطمہ کیشورز نے کہا کہ ’لوگوں کا خیال تھا کہ جوہری معاہدے کے بعد حالات بہتر ہوں گے لیکن ایک شخص حکومت میں آیا اور اس نے ایران پر پابندیاں عائد کر دیں۔‘

یاد رہے ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہد کو ’برا‘ کہتے ہوئے اس سے خود کو علیحدہ کر لیا تھا۔

خیال رہے کہ سنہ 1950 کے بعد سے امریکہ میں ایرانيوں کی کثیر تعداد میں آمد شروع ہوئی جبکہ دوسرا دور سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد دیکھا گیا۔

لیلی کے والد 17 برس کے تھے جب وہ سنہ 1977 میں نیویارک تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ وہ کیلیفورنیا کے سیکریمنٹوں میں چار لوگوں کے ساتھ فلیٹ میں رہتے تھے۔

سنہ 1979 کے یرغمالی بحران نے امریکہ میں ایران مخالف جذبات کو ہوا دی۔ ایران کی برآمدات پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ایرانی اثاثے منجمد کیے گئے۔ بعض استثنی کو چھوڑ کر ایرانی شہریوں کے ویزے کو منسوخ کر دیا گیا۔ سفارتی تعلقات خراب ہو گئے۔

صدر جیمی کارٹر نے غیر قانونی طور پر رہنے والے ایرانی طلبہ کو واپس بھیجنے کا حکم دیا۔ رضا کے والد جو خمینی کے حامی تھے وہ ایران میں جنرل موٹرز کے ڈیلر تھے اور ان کے پاس بہت سی اعلیٰ قسم کی کاریں تھیں۔ بحران نے امریکہ میں ان کی پرسکون زندگی کو درہم برہم کر دیا۔

انھوں نے کہا: ’مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں یہ کہوں کہ میں ایران سے ہوں۔ لوگ ہمیں پیٹنے لگتے، ہم پر چیزیں پھینکتے، ہمیں طرح طرح کے نام سے پکارتے۔‘

ان کے دوست سنیچر کی شب سیکریمنٹو یونیورسٹی کے کیمپس میں یکجا ہوتے اور اپنی اپنی کہانیاں سناتے۔ ایک دن وہ سب سڑک پر سیر کو نکلے تو ان کے تمام فلیٹ میٹس کو گرفتار کر لیا گیا اور انھیں فورا ایران روانہ کر دیا گیا۔

رضا نے بتایا کہ ’میں خوفزدہ تھا۔ میں محفوظ محسوس نہیں کر رہا تھا۔‘ حالانکہ وہ اپنی تعلیم پوری کرنے کے لیے امریکہ میں رہ گئے تھے۔

ایران میں پاسداران انقلاب نے ان کے والد کی املاک کو ضبط کر لیا اور انھیں ‘مایوسی’ میں چھوڑ دیا۔

پی اے آئی آئی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں 56700 ایرانی طلبہ کی اميگریشن اور نیچرلائزیشن سروس میں رپورٹ کی گئی جن میں سے تقریباً سات ہزار کو ویزا کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گيا۔ ان میں سے بہت سے کو ان کے وطن واپس بھیج دیا گیا جبکہ بہت سے لوگوں نے اپنے وطن میں ظلم و جبر کا نشانہ بننے کے خوف سے سیاسی پناہ کے لیے عرضی داخل کر دی۔

نیویارک کی کولگیٹ یونیورسٹی میں پڑھانے والے شروین ملک زادہ کا کہنا ہے ’اس زمانے کے (ایرانی نژاد امریکی) کھل کر مباحثے میں شرکت نہیں کرتے یا جارحانہ انداز میں جواب نہیں دیتے۔ وہ سر جھکا کر رہتے اور اپنا کام کرتے۔‘

رضا

رضا جب تعلیم حاصل کرنے ایران آئے تھے تو ان کے پاسپورٹ پر ان کی یہ تصویر تھی

شروین جب سنہ 1975 میں امریکہ آئے تو ابھی انھوں نے چلنا ہی سیکھا تھا اور وہ سنہ 2000 کی دہائی تک ایران نہیں لوٹے۔ انھیں یاد ہے کہ ان کو اور ان کے والد کو ‘سینڈ نگر’ اور ‘اینیمل جاکی’ جیسے ناموں سے پکارا جاتا اور کہا جاتا کہ ‘ایران پاگلوں کا ملک ہے۔‘

انقلاب نے ایرانی برادری کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک جو حکومت کے حامی تھے اور دوسرے حکومت مخالف۔ وہ کہتے ہیں: ‘انقلاب کا ایک بڑا المیہ یہ تھا کہ اس نے سنہ 80 کی دہائی میں نہ صرف ایران میں لوگوں کو منقسم کر دیا بلکہ دوسرے ملک میں رہنے والے ایرانیوں کو بھی تقسیم کر دیا۔’

شروین کا کہنا ہے کہ چالیس برس بعد ان کے والد کی زندگی کا ایک چکر اس وقت پورا ہوا جب صدر ٹرمپ اقتدار میں آئے۔ انھوں نے کہا کہ ‘لوگ پوچھتے ہیں کہ اس ملک میں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہو رہا ہے جسے وہ اپنا وطن کہتے ہیں۔’

بچے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ایرانی نسل سے ہونا کوئي جرم ہے؟ صدر ایسا کیوں کہتے ہیں؟ ہمارے رشتہ داروں کو ہم سے ملنے کے لیے آنے کیوں نہیں دیا جاتا؟

نوجوان (ٹرمپ) کے ٹویٹ دیکھتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں جو ان کی بیانیے کے حامی ہیں۔’

ایران پر پابندی نے خاندانوں کو جدا کر دیا ہے اور وہاں غذا اور دوا کی کمی ہو گئی ہے۔

رضا ایران میں اپنی ماں اور بہن کی مالی مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ٹرمپ سے پہلے لوگ وہاں اپنے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ لیکن اب سب کچھ بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت آسمان چھو رہی ہے لیکن آمدن میں اضافہ نہیں۔’

ان کے ایک بھائی کو ذیابیطس کا مرض ہے اور حال میں ان کے ایک گردے کا ٹرانسپلانٹ ہوا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘انھیں دوا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بہت سی دوائیں ملک میں نہیں لائی جا سکتیں۔ میں جب وہاں جاتا ہوں تو ان کی مدد کرتا ہوں۔’

اب سب کی نگاہیں آنے والے انتخابات پر ٹکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp