#coronavirus: چین سے پھیلنے والا کورونا وائرس جنگلی حیات کے لیے کیسے فائدہ مند ہے؟


تصویر

LIU JIN

سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ چین کے صوبہ ووہان کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ یعنی سمندری غذاؤں کی مارکیٹ سے کورونا وائرس کی ابتدا ہوئی تھی، جس سے اب تک 213 جانیں جا چکی ہیں۔

یہ مارکیٹ جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کے لیے مشہور تھی جن میں سانپ، ریکون اور خارپشت شامل ہیں۔

ان جانوروں کو پنجروں میں رکھا جاتا تھا اور خوراک یا دواؤں کے لیے فروخت کیا جاتا تھا۔ اس وقت پورا صوبہ ایک طبی قید میں ہے۔

خیال رہے کہ چین دنیا میں جنگلی جانوروں کا قانونی اور غیر قانونی طور پر سب سے بڑا خریدار ہے۔

مزید پڑھیے

کورونا وائرس اور آن لائن پھیلنے والی غلط معلومات

کورونا وائرس: پاکستانیوں کو احتیاط کی ہدایت

کورونا وائرس: ووہان میں لاک ڈاؤن، شہری پریشان

عارضی پابندی

عالمی ادارہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی بڑی وجہ بظاہر چمگادڑیں ہیں لیکن یہ وائرس دیگر جانوروں میں بھی منتقل ہوا جہاں سے یہ انسانوں کو متاثر کرنے لگا۔

چین میں روایتی طور پر بہت زیادہ جنگلی جانور کھائے جاتے ہیں۔ کچھ جانور اپنے ذائقے اور نزاکت کی وجہ سے خوراک بنتے ہیں اور کچھ کو دواؤں کے لیے استمعال کیا جاتا ہے۔

تصویر

South China Morning Post
عالمی ادارہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی بڑی وجہ بظاہر چمگادڑیں ہیں لیکن یہ وائرس دیگر جانوروں میں بھی منتقل ہوا جہاں سے یہ انسانوں کو متاثر کرنے لگا

چین کے بعض علاقوں میں چمگادڑوں کا سوپ پیا جاتا ہے جس میں پوری سالم چمگادڑ موجود ہوتی ہے تو کہیں شیر کے خصوں کا سوپ یا مشک بلاؤ کے جسم کے اعضا کھائے جاتے ہیں۔

تلا ہوا کوبرا (سانپ)، ریچھ کے پنجوں کا دم پخت، شیر کی ہڈیوں سے بنی وائن ریستورانوں کے مینیو کا حصہ ہوتی ہے۔

جھونپڑپٹی والے علاقوں کے بازاروں میں تو چوہے، بلیاں، سانپ اور پرندوں کی کئی اقسام موجود ہوتی ہیں وہ بھی جنھیں معدوم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔

چین میں جنگلی جانوروں کی تجارت کے خلاف متعدد مرتبہ تحقیق کرنے والی ایک بین الاقوامی ایجنسی کا حصہ رہنے والے ایک محقق کا کہنا تھا کہ ’چین کے ہر گھر میں ’یوائی‘ کا تصور (جس کے لفظی معنی جنگلی ذائقے کے ہیں) ہی ثقافتی طور پر ایڈوینچر، جرات، تجسس اور استحقاق کا احساس دلاتا ہے۔‘

جنگلی حیات کا استعمال کئی روایتی چینی ادوایات میں بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ان میں کئی بیماریوں کے لیے شفا کی طاقت ہوتی ہے جن میں نامردی اور گھٹیا کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔

معدومیت کا خطرہ

چین میں دواؤں کے لیے پینگولین کی حد درجہ طلب کی وجہ سے یہ جانور چین میں لگ بھگ ختم ہو چکا ہے اور اب دنیا کے دیگر حصوں سے بھی اسے منگوایا جاتا ہے۔

ناقابلِ برداشت حد تک گینڈے کے سینگوں کا چینی دواؤں میں استمعال اس کی ایک اور مثال ہے کہ کیسے اس جانور کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔

یہ سب ایسے دور میں ہورہا ہے جب ایک اندازے کے مطابق انسانوں میں پیدا ہونے والے 70 فیصد انفیکشنز جانوروں خصوصاً جنگلی جانوروں سے آ رہے ہیں۔

کورونا کی وبا نے ایک بار بھی چین میں جنگلی جانوروں کی تجارت کو مرکز نگاہ بنا دیا ہے جس پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کی گروپ پہلے ہی تنقید کر ہے ہیں ان کے بوقل چین کئی جانوروں کو معدومیت کے دہانے پر لے آیا ہے۔

تازہ صورتحال کے پیش نظر چین نے عارضی طور پر جنگلی حیات کی تجارت پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

تاہم ماحولیاتی تحفظ کے کارکن اس پابندی کو مستقل کروانا چاہتے ہیں۔

خشک سانپ

چین میں خشک سانپوں کو ہڈیوں کی درد کے لیے دیسی ادویات میں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے

کیا چین سنے گا؟

کیا اس وائرس کا پھیلاؤ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت اور انسانی صحت کے تحفظ کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے تاہم شاید یہ ناممکن ہرگز نہ ہو۔

عالمی اداہِ صحت کے حکام کے مطابق اس سے پہلے سامنے آنے والے وائرسز سارس سویئر ایکویٹ ریسپائٹریٹری سینڈروم اور میرس مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم دونوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ وھی چمگادڑوں سے ہی پیدا ہوئے اور مشک بلاؤ اور پھ اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔

عالمی ادارہ صحت کے غذائیت اور خوراک کے تحفظ سے متعلق محکمے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بین ایمبارک نے بی بی سی کو بتایا ’ہم جنگلی جانوروں کی ان اقسام کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں جن کے ساتھ پہلے نہیں تھے۔‘

’تاہم کچھ نئی بیماریاں بھی سامنے آئی ہیں جو انسانوں اور ایسے وائرسز، بیکٹیریا اور طفیلی جانداروں کے رابطے سے پیدا ہوئیں جن کے بارے میں پہلے کبھی کوئی معلومات نہیں تھیں۔‘

زمین پر رہنے والے ریڑھ کی ہڈی والے 32000 جانداروں کے حالیہ جائزے سے پتا چلا کہ 20 فیصد کے قریب جانوروں کو دنیا بھر کے بازاروں میں قانونی اور غیر قانونی طور پر خریدا اور پیچا جاتا ہے۔

ان میں ممالیہ جانوروں، پرندوں، رینگنے والے جانوروں اور پانی اور خشکی کے جانوروں کی ساڑھے پانچ ہزار اقسام شامل ہیں۔

جنگلی حیات کی غیرقانوی تجات کا تخمینہ لگ بھگ 20 ارب ڈالر ہے اور یہ منشیات، لوگ کی سمگلنگ اور جعل سازی کے بعد چوتھی بڑی غیر قانونی تجارت ہے۔

تصویر

‘اب ضرورت ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں اور ان کے اعضا کا بطور خوراک، پالتو جانور اور دواؤں کے مقصد سے بے تحاشا استعمال بند کرنا ہو گا‘

تنبیہی لمحہ

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر یعنی ڈبلیو ڈبلیو ایف کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’حالیہ طبی بحران کو ایک تنبیہ سمجھنا چاہیے۔‘

’اب ضرورت ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں اور ان کے اعضا کا بطور خوراک، پالتو جانور اور دواؤں کے مقصد سے بے تحاشا استعمال بند کرنا ہوگا۔‘

تاہم چینی حکومت نے واضح کہا ہے کہ یہ پابندی عارضی ہے۔

حکومت کی جانب سے جاری ہدایت کے مطابق ’جنگلی جانوروں کو پالنا، ان کی نقل حمل اور ان کی فروخت ملک میں جاری وبا کے خاتمے تک ممنوع ہے۔‘

بیجنگ میں سنہ 2002 میں سارس کا وائرس پھوٹنے کے بعد بھی ایسا ہی اعلان کیا گیا تھا۔

تاہم ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان اعلانات کے بعد حکام کا رویہ نرم ہو گیا جس کی وجہ سے جنگلی حیات ک یہ مارکیٹس چین میں پھر سے چلنے لگیں۔

پہلے سے زیادہ جانچ پڑتال

رواں برس ستمبر میں بیجنگ میں ایک بین الاقوامی کنونشن منعقد ہو رہی ہے جس میں قدرت اور حیایتاتی وسائل کے حوالے سے بات ہو گی۔

گدشتہ برس شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق جانوروں کی تقریباً 10 لاکھ اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ تعداد انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

اس وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چین میں سرکاری میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والے اداریوں نے ملک میں جنگلی حیات کی بے ضبط مارکیٹ پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

تصویر

Ben Davies
وہ چین پر ہاتھی کے دانتوں کی برآمد سے متعلق لگائے جانے والی پابندی کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ یہ پابندی ہاتھیوں کو معدومیت سے بچاؤ کے لیے عائد کیے جانے والے عالمی دباؤ کے بعد سامنے آئی تھی اور اس کی کامیابی ایاں ہے

چین میں جنگلی حیات پر تحقیق کرنے والی ایجنسی برائے ماحولیاتی تحقیق سے تعلق رکھنے والی ڈیبی بینکس کا کہنا ہے کہ ’ہم اس موقعے کو جانوروں کی افزائش، قید، فروخت اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال پر مستقل پابندی عائد کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ناصرف ان کا گوشت بلکہ ان کا روایتی دواؤں میں استعمال پر بھی۔‘

ماہرین کے مطابق ایویان انفلوئینزا اور برڈ فلو نے جنگلوں میں پرندوں کی متعدد اقسام کو معدومیت سے بچانے میں مدد دی ہے۔

وہ چین پر ہاتھی کے دانتوں کی برآمد سے متعلق لگائے جانے والی پابندی کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ یہ پابندی ہاتھیوں کو معدومیت سے بچاؤ کے لیے عائد کیے جانے والے عالمی دباؤ کے بعد سامنے آئی تھی اور اس کی کامیابی ایاں ہے۔

تاہم ان کا مـزید کہنا ہے کہ یہ پابندیاں صرف چین ہی نہیں دیگر ممالک پر بھی عائد کرنی چاہیئیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’دنیا کی سب سے بڑی جنگلی حیات کی مارکیٹ ہونے کے ناطے چین کو پہل ضرور کرنی چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp