سوشل میڈیا انفلوئنسرز: سوشل میڈیا ستاروں کی نئی نسل نے پانسہ کیسے پلٹا؟


انفلوئنسرز اور مائکروانفلوئنسرز کی نئی نسل یہ ثابت کر رہی ہے کہ اگر آپ کے نام کے آخر پر جینر یا کارڈیشیئن نہ لگے تو بھی آپ سوشل میڈیا پر مواد ڈال کر پیسے کما سکتے ہیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ آپ نے کبھی چارلس جیمز کا نام نہ سنا ہو کیونکہ برمنگھم کی شہری کونسل نے تو بالکل نہیں سن رکھا تھا۔

شہری کونسل کو حیرانی اُس وقت ہوئی جب جنوری میں بُل رنگ کے مقام پر چارلس جیمز اپنے مداحوں سے ملنے کے لیے آئے اور ان ہزاروں مداحوں کی وجہ سے شہر کا مرکز جام ہو گیا۔

چارلس ایسے انفلوئنسر کی صرف ایک مثال ہیں جو روایتی معیار کے مطابق صفِ اول کے سلیبریٹی تو نہیں ہوتے مگر مداحوں کے گروہوں کو متاثر کرتے ہیں جس کا استعمال کر کے وہ اکثر خوب پیسے بھی کماتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہدیٰ قطان کو لیجیے۔ انھیں اپنی ملازمت ترک کرنے اور سوشل میڈیا کی مدد سے اپنی کمپنی، جس کی مالیت اب 1 کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہے، شروع کرنے کی وجہ سے ’بیوٹی انفلوئنسرز کی بِل گیٹس‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ہدیٰ بیوٹی‘ کی مالکن ہدیٰ قطان کون ہیں؟

کارڈیشیئن خاندان نے کروڑوں ڈالر کیسے کمائے؟

ایک رات میں انسٹاگرام پر ایک لاکھ فالورز کیسے؟

’بچوں سے ان کے سوشل میڈیا استعمال کے بارے میں پوچھیں‘

انفلوئنسرز کی تعریف کیا ہے؟

ماڈلز 1 ٹیلنٹ ایجنسی اب ماڈلز کے ساتھ ساتھ انفلوئنسرز کے ساتھ بھی کام کرتی ہے۔

ایجنسی کے سینیئر مینجر ایس جے نوتھ کوپر کہتے ہیں ’انفلوئنسر وہ ہے جو اپنے اثرورسوخ سے پیسے کما سکتا ہے اور ان کی ایک یو ایس پی ہوتی ہے۔ تو چاہے بیوٹی ہو، فیشن، کھانا پکانا، اعصابی صحت، کوئی شیف ہو، وہ اس کا استعمال کر کے اسے ایک کاروبار بنا سکتے ہیں۔‘

انفلوینسر

میک اپ اور بیوٹی پوسٹس کے لیے مشہور جیمز چارلس کِم کارڈیشیئن کے ساتھ

وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ان کا مشغلہ ہی ان کا ذریعہ معاش بن جائے اور جتنے لوگوں کے ساتھ انھوں نے کام کیا ہے ان میں سے کئی لوگوں نے اپنی ملازمتیں ترک کی ہیں اور وہ لوگ حیران رہ گئے ہیں کہ ’واہ! میں اِس ایک پوسٹ سے اتنے پیسے کما رہا ہوں جتنے میں پورے مہینے میں کماتا تھا۔‘

سکولوں میں روایتی مضامین پڑھنے والی نسل کے لیے یہ نظریہ سمجھنا کافی مشکل بات ہے۔

انسٹاگرام پر فیشن اور خوبصورتی سے متعلق پوسٹس شائع کر کے 90 ہزار فالوورز رکھنے والی نتاشا ایندلاوُو کہتی ہیں کہ انفلوئنسر بہت ’گرما گرم‘ اصطلاح ہو سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ ابھی تک معاشرے میں وہ نسل، وہ گروہ (موجود) ہے جو ہمیں تھوڑا سر پِھرا تصور کرتا ہے۔‘

تاہم نتاشا تسلیم کرتی ہیں کہ بہت سے لوگوں کو یہ سمجھ میں نہ آنا کہ انفلوئنسر ہونا اپنے آپ میں پیشہ کیوں بن گیا ہے، کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

جب کئی برس پہلے انھوں نے اپنا بلاگ شروع کیا اور برانڈز نے انھیں پراڈکٹس بھیجنا شروع کیے تو انھیں بڑی تعداد میں مصنوعات پہنچانے والے ڈاکیے کے چہرے پر چھائی الجھن آج بھی یاد ہے۔

نتاشا کہتی ہیں کہ ’میں بڑی تعداد میں ڈاک موصول کرتی ہوں۔ تو بہت سارے ڈاکیے جانتے ہیں کہ میں کون ہوں، گلی میں رہنے والے باقی لوگوں کی نسبت ان کی مجھ سے ملاقات زیادہ ہوتی ہے۔‘

https://www.instagram.com/p/Bv6EwxAhrd8/?utm_source=ig_embed

ایک بار ایک ڈاکیے نے ان سے پوچھا ’آپ کو کافی زیادہ ڈاک ارسال کی جاتی ہے۔‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ ایک بلاگر ہیں۔

جواباً ڈاکیے نے ان سے پوچھا ’وہ کیا ہوتا ہے؟‘ نتاشا نے ڈاکیے کو بتایا کہ وہ آن لائن پراڈکٹس کا معائنہ کرتی ہیں۔

پھر وہ ہنس کر کہنے لگیں ’میرا خیال ہے کہ وہ پھر بھی الجھن کا شکار تھا۔‘

عام طور پر انفلوئنسر اپنے اکاؤنٹ پر مصنوعات کی تشہیر کر کے پیسے کماتے ہیں لیکن تشہیری قوانین کی وجہ سے پوسٹس پر ’سپانسرڈ‘ لکھنا لازمی ہے۔

انفلوئنسرز کے اثرورسوخ کی وجہ سے بڑی میڈیا کمپنیاں انھیں بہت سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ دا ٹائمز اور دا سن کی مالک نیوز یو کے نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ وہ آزاد انفلوئنسر ایجنسی بنا رہی ہے۔

‘جینیریشن زی’

بے شک کائلی جینر جیسے چند انفلوینسر ہی گھر گھر جانے جاتے ہیں، ہزاروں مائکروانفلوینسر ایسے بھی ہیں جو مخصوص قسم کے مصنوعات کی تشہیر کر کے پیسے اور نام کماتے ہیں۔ نوتھ کُوپر کہتے ہیں ’مائکروانفلوئنسر ایک نئی نسل ہیں جن کے تقریباً 10000 سے 25000 فالوورز ہو سکتے ہیں اور وہ انفلوئنسرز کی جینیریشن زی ہیں۔‘

سوفی گریس ہومز ایک انفلوئنسر ہیں اور ان کو سسٹِک فِبروسِس کا مرض لاحق ہے۔ وہ اپنے فالوورز کو صحت مند زندگی گزارنے کے طریقوں پر عمل پیرا ہونے اور سسٹِک فِبروسِس جیسے مرض سے نہ گھبرانے کی تلقین کرتی ہیں۔

انفلوینسر

فوربز جریدے نے کائلی جینر کو اپنے بل بوتے پر بننے والی دنیا کی سب سے کم عمر ارب پتی قرار دیا

جینر کے 13.1 کروڑ کے مقابلے میں ہومز کے 34000 فالوورز ہیں لیکن ان کے ناظرین مخصوص ہونے کے ناطے برانڈز ان کے ساتھ اشتراک کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ‘میں دوسروں کو متاثر کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بارے میں بہت پُرجوش ہوں۔ زندگی میں میرا مقصد ہے کہ اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ کو کچھ نہیں کرنا چاہیے یا آپ کچھ کر نہیں سکتے تو آپ دکھائیں کہ آپ اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔’

عام طور پر ہومز صحت اور فٹنس سے جڑے برانڈز اور پراڈکٹس کی تشہیر کرتی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُس چیز کی تشہیر کرتی ہیں جس پر وہ خود یقین رکھتی ہیں اور جو ان کے ناظرین کو کسی طرح سے فائدہ پہنچائے۔

وہ وضاحت کرتی ہیں ‘اگر میں کسی برانڈ کے ساتھ کام کر رہی ہوں تو میں یقینی بناؤں گی کہ میں جو اپنی صحت، ٹریننگ، فٹنس اور غذائیت کے لیے کر رہی ہوں، یہ اس میں مدد کرے۔ میرا اصل مقصد پیسے کمانا نہیں ہے، بلکہ لوگوں پر اثر چھوڑنا ہے اور انھیں آگے بڑھانا ہے۔ میں صرف پیسے کمانے کے لیے تشہیر نہیں کر سکتی۔’

نتاشا کو مخصوص قسم کے لوگ فالو کرتے ہیں جو فیشن اور میک اپ سے متعلق ان کی رائے پر انحصار کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’گہرے رنگ والی خاتون ہونے کی حیثیت سے جب مہنگے بیوٹی برانڈز کی بات آتی ہے تو لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا مہنگی فائونڈیشن (میک اپ) پر پیسے لگانا فائدہ مند ہو گا کیونکہ گہرے رنگ کی جلد کے لیے مہنگے برانڈ کی فائونڈیشن تلاش کرنا کافی مشکل ہے۔’

انفلوینسر

سوفی گریس ہومز (دائیں) صحت اور فٹنس سے متعلق پراڈکٹس کی تشہیر کرتی ہیں

لیکن کسی مخصوص مشغلے یا نظریے کے لیے مشہور ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات سے ہمکنار ہونا پڑتا ہے۔ کم از کم لوگ صداقت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ فالوورز کیسے کسی انفلوینسر کی پسند اور تجویز پر بھروسہ کر سکتے ہیں جب انھیں مخصوص مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں؟

دسمبر میں بی بی سی ریڈیو 4 کی تحقیق کے مطابق زیادہ تر صارفین انفلوینسرز پر اعتماد نہیں کرتے اور 82 فیصد کا کہنا ہے کہ اکثر واضع نہیں ہوتا اگر کسی کو پراڈکٹ کی تشہیر کے لیے پیسے دیے گئے ہیں۔

رول ماڈل بنیے

بہت سے انفلوینسر کہتے ہیں کہ وہ ہر ڈیل کو قبول نہیں کرتے۔

نوتھ کُوپر کا کہنا ہے ’میں اتنی چیزوں کو ہاں نہیں کرتا جتنی چیزوں کو میں ناں کرتا ہوں۔ مائکروانفلوینسرز کی اپنی سالمیت ہوتی ہے۔ انھیں اشتہارات، تحائف اور سپانسرڈ پوسٹس کے بارے میں ایماندار ہونا پڑتا ہے مگر لوگ انھیں اس لیے فالو کرتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہے کہ مائکروانفلوئنسرز ہر چیز کو ہاں نہیں بولیں گے۔‘

نوتھ کُوپر کی سروس استعمال کرنے والی خواتین بلوم ٹوّنز، سونیا اور اینا کا کہنا ہے کہ اگر انھیں کسی چیز پر یقین نہ ہو تو وہ اس کی تشہیر نہیں کریں گی۔

سونیا کہتی ہیں ’ہمارے پاس بہت سی ایسی تصاویر ہیں جو انسٹاگرام پر بہت کامیاب ہوں گی لیکن وہ ہماری نمائندگی نہیں کرتیں۔‘

’تو ہم صرف ایسی چیزیں شائع کرتے ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہو سکتا ہے اس (پوسٹ) میں ہم پاجامہ زیب تن کیے آئسکریم کھا رہے ہوں۔‘

ہومز، نتاشا اور بلوم ٹوّنز ہلکی پھلکی نوعیت کی یا کم محنت سے بننے والی پوسٹس کو انسٹاگرام سٹوری پر شائع کرتے ہیں کیونکہ اکاؤنٹ کی گرّڈ پر شائع ہونے والی پوسٹس کے برعکس ان پوسٹس کا دورانیہ 24 گھنٹے ہوتا ہے۔

https://www.instagram.com/p/BvLxQXphXx9/?utm_source=ig_embed

فیشن ڈیزائنرز نے بہت جلد اُس قدر کو سراہنا شروع کر دیا ہے جو ایک انفلوئنسر برانڈ کو لا کر دے سکتا ہے۔

گزشتہ سال فلِپ پلین نے بی بی سی نیوز کو بتایا ‘آج آپ کو خود سے سوال کرنا ہو گا کہ صفِ اول میں کِم کارڈیشیئن کا ہونا زیادہ ضروری ہے یا اینا وِنٹور (وُوگ ایڈیٹر، امریکہ) کا؟ یہ بہت مشکل فیصلہ ہے۔’

لیکن بلوم ٹوِّنز نامی پاپ موسیقی گروپ کی اینا تنبیہ کرتی ہیں کہ صرف پیسا کمانے یا مشہور ہونے کے لیے انفلوینسر نہ بنیں۔

وہ کہتی ہیں ‘لوگوں کی دیکھا دیکھی انفلوینسر نہ بنیں بلکہ ایک رول ماڈل بنیں۔ اگر آپ کسی موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں تو کریں تاکہ لوگ اس بات سے تعلق قائم کر سکیں۔’

وہ مزید کہتی ہیں ‘اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے 20 فالوورز ہیں یا 20000، اگر آپ (کسی موضوع کے بارے میں) بات کرتے ہیں تو شاید اس سے کسی کی زندگی پر اثر مرتب ہو۔ اگر آپ کسی کی مدد کرتے ہیں، اگر آپ کسی پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں تو آپ انفلوینسر ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp