ہائے میرا ریڈیو…. (حصہ دوم )


\"arifیہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ اس دور میں ریڈیو ہر گھر کے ایک سرگرم فرد کی مانند تھا ایسا فرد جو زندگی سے بھرپورتھا اور جس کے زندہ ہونے کا ثبوت صبح دم مل جاتا تھا، کیونکہ آغاز ہی تلاوت اور حمد و نعت سے ہوتا تھا یہ الگ بات کہ بہتیرے اس مقدس آغاز کو محض برائے برکت ہی لیتے تھے اور ریڈیو کھول کر بے نیازانہ اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے روزکسی مولانا کا خطاب بھی لازمی ہوتا تھا اور بیشتر لوگوں کو ان پہ اتنا زبردست اعتماد ہوتا تھا کہ \’حضرت مولانا جو کہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہی ہوگا \’ لہٰذا کان لگا کر سننے کی بداعتمادی کم ہی کرتے تھے۔  اکثر ایسے چنیدہ مولانا حضرات ہی مائیک پہ چھوڑے جاتے تھے کہ جو حکومت کے خاص مزاج شناس تھے لہٰذا وہ خود ہی ایسے نکات پہ چیک رکھتے تھے کہ جن سے چیک ملنے کے امکانات خطرے میں پڑتے ہوں۔۔ وہ لوگوں کو بارہا یہ بتاتے اور سجھاتے تھے کہ فرمانبردار شہری کیسے بنا جاتا ہے لیکن شہری تھے کہ ان کی تقاریر کے وقت انہیں سو کام نکل آتے تھے، انہی تقاریر نہ سننے کا نتیجہ تھا کہ عوام بار بار نافرمانی پہ اترے ہڑتالیں کیں، جلوس نکالے اور کئی حکومتیں ان غیر ذمہ دار شہریوں کی تاب نہ لاکر تاریخ کے پچھواڑے میں جا پڑیں، تاہم ان مولانائوں نے کبھی ہمت نہ ہاری اور پوری جرات اور جوش و خروش سے ہر حکمران کے منہ پہ وہی دھواں دھار تقریریں کیں کہ جو اس سے پہلے والے کی توصیف میں کرتے رہتے تھے

ان دنوں ریڈیو پہ تفریحی پروگرام بکثرت ہوا کرتے تھے کیونکہ لوگ سربراہ اور وزرا کی سرگرمیوں اور ان کے بیانات کو اسی ذیل میں شمار کرتے تھے ۔ ہر وزیر کی بھرپور کوشش یہی ہوتی تھی کہ آج سربراہ مملکت کی شان میں اور اپوزیشن کی مذمت میں اس کا کم از کم ایک بیان تو نشر ہو ہی جائے کہ اگر کسی وقت حکمران کبھی اک ذرا دیر کو ریڈیو لگا بیٹھے تو کیا عجب کہ اسکی محنت ٹھکانے لگ ہی جائے ۔حکمران بھی کم نہ تھے خود بھی آئے دن ریڈیو پہ ہی ڈیرا جماتے تھے اور ہم وطنوںکی سماعتوں کا شکار کھیلتے رہتے تھے۔ وہ ہمہ وقت بس یہی یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے تھے کہ ان کی مخالفت کرنے والا دراصل بہت شدید نابکار اور بڑا جہنمی ہے اور وہ تو کمال عظمت سے محض اس کی عاقبت بچانے کے لئے سرگرداں ہیں ۔ چونکہ پہلے فوجی انقلاب کے بعد ہی ریڈیو نے حق گوئی کے اہم رموز بخوبی سیکھ لئے تھے چنانچہ ہر سہ پہر کو \’فوجی بھائیوں کا پروگرام\’ نشر ہونا معمول بنا لیا گیا تھا، ، بینڈ بجانے اور بجوانے کے یہ شوقین اتنے نغماتی مزاج کے تھے کہ ایک گانے کے بعد دوسرا گانا بجوانے ہی میں لگے رہتے تھے، بجانے بجوانے کی عادت بڑے منصب داروں میں محض بینڈ ہی تک محدود نہ تھی۔  ایک تصویر میں مادام نورجہاں کو صدر یحییٰ کے گھٹنے پہ بیٹھے دیکھا تو بہتوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ \’شوق دا کوئی مل نئیں\” پھر شاید صدر صاحب کی عقل اور نیت کے ساتھ ساتھ نظر بھی خراب تھی ورنہ وہ یہ شعر پڑھ کرکام چلا لیتے\”یا الہٰی مجھے ہوا کیا ہے…  اس بی بی کی شکل میں اب رکھا کیا ہے\” لیکن صدر کے وضاحتی بریگیڈ کے مطابق درحقیقت یہ تصویر اس حقیقت کی غماذ تھی کہ صدر فنکاروں کی کتنی قدر کرتے تھے اور انہوں نے ایک فنکار کو اگر بوجوہ سر آنکھوں جگہ نہیں بھی دی تب بھی گھٹنے پہ تو جگہ دی

ریڈیو کے ابتدائی دور میں ہر بڑا اور نامور لکھاری اس وقت ریڈیو کے لکھنے والوں میں تھا، بعضے حاسد لوگ یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ بڑے اور نامور تو ریڈیو میں آنے سے ہوئے ہیں اور ان کا یہ کہا ہوا ان لکھاریوں نے تو دل ہی پہ لے لیا کہ جس کے صدمے سے زیادہ تر کے دل ایک ایک کرکے بند ہوتے چلے گئے اور رخصت ہوتے گئے یوں ان حاسدوں کو اندر گھس بیٹھنے کا موقع ملتا چلا گیا اور چونکہ تاریخی طور پہ جلنے والوں کا منہ کالا ہوتا ہے چنانچہ ریڈیوپاکستان کے کمروں میں اندھیرا چھاگیا اور وہاں منہ کالا ہونے یا منہ کالا کرانے ہی کو معیار بنالیا گیا ریڈیو کا یہ دوردرحقیقت ریڈیو پروڈیوسروں کی شاہانہ تمکنت کا دور تھا جن کے سامنے سول سروس والوں کی بددماغی بھی ماند تھی۔  اپنے اپنے کمروں میں مہاراج یوں اکڑ کر بیٹھتے تھے کہ لگتا تھا ابھی چٹخ ہی جائیں گے۔ ان میں شریف تر بھی لوکل مغل اعظم سے کم دکھائی نہیں دیتے تھے، ان مہا بلیوں کے ہر حکم کی تعمیل کسی ایک چپراسی کے بس کی بات نہ تھی جبکہ کئی کئی پروڈیوسروں پہ ایک ہی خدمتگار مامور ہوتا تھا اس صورتحال میں خداترس پرائیویٹ خدمتگاروں کا طبقہ ابھرا کہ جو قحبائی مزاج رکھتے تھے اور جو گویا پیدا ہی مالش پالش اور نالش کے لئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پروڈیوسر مہاراج کے سارے \’ناقابل بیان\’ مسائل کو حل کرنے کا کام اپنے سر لے کر اسے مقصد حیات بنالیا تھا ۔ انکی آمد کے بعد زیادہ تر پروڈیوسر بھڑک دار کپڑے پہن کر ٹھرک دار گفتگو کرنے کے سوا کچھ اور کرتے کم ہی دکھائی دیتے تھے، اسی زمانے میں کچھ ایسے لوگوں نے کہ جن کے کانوں میں پختہ سرکاری عزائم اور پکے راگ سننے سے مستحکم چھید ہوگئے تھے آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو سیلون (سری لنکا ) پہ التفات کیا اور مزید نجانے کون کونسے اسٹیشن ڈھونڈھ نکالے کہ جہاں ان کی روح کی غذا کا انتظام موجود تھا لیکن کمزورسگنل اور مضبوط خواہش کی وجہ سے وہ اور ان کا ریڈیو وقفے وقفے سے مرغ باد نما کی صورت ہر سمت گھومتے رہتے تھے، ملکی حالات خراب ہوجائیں تو بی بی سی لگایا جاتا تھا جو کہ عوامی توقعات کے عین مطابق کشتوں کے پشتے لگا دیتا تھا اور گھر گھر اور ہر تھڑے و چوراہے پہ اس کمال فن کی داد پاتا تھا

ریڈیو پہ ایک پروگرام بچوں کے لئے کہانی کا بھی ہوتا تھا جس میں ایک خاتون بہت دلگداز اور سرسراتی سی آواز میں روز ایک جھوٹی کہانی سناتی تھیں لیکن یہ سب کی سب غیر جمہوری ہوتی تھیں کیونکہ ان کا آغاز ہی کچھ یوں ہوا کرتا تھا…. پیارے بچو، ایک تھا بادشاہ…. اور بادشاہ کے بس دو ہی کام تھے تخت پہ بیٹھے رہنا اور تالیاں بجا بجا کرحکم جاری کرتے رہنا یہ کہانیاں بچوں سے زیادہ بڑوں کو مرغوب ہونے لگیں اور گھریلو نظام بتدریج غیر پارلیمانی ہونے لگا تو بیگمات نے سردرد کے بہانے اتنی دیر کو ریڈیو کے کان مروڑے رکھنے کی راہ اپنائی۔ حکمران البتہ اس پروگرام سے خوب مستفید ہوئے۔ عجب بات یہ ہوئی کہ وہ اپنی کہانی میں بادشاہ بھی خود بنے اور وہ دیو بھی کہ جس کے چنگل میں جمہوریت کی پری قید تھی ۔ کھیلوں کے پروگرام البتہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے پروگرام بنے رہتے تھے کیونکہ سب سے زیادہ سنے جانے والی چیز کرکٹ میچز تھے جن کی کمنٹری بڑے طمراق سے انگلش میں پیش کی جاتی تھی، آخر حکمران اشرافیہ بدتمیز عوام کو بے حساب خوش ہونے کے لئے یوں بے لگام کیوں چھوڑتی، کہیں بہت بعد میں جب عوام ووٹ لینے کے کام آنے لگے تو کرکٹ کمینٹری میں بھی اک ذرا دیر کو اردو کا \’جھونگا\’ پکڑا دیا گیا۔منیر حسین کی \’ وہ جو ہے، وہ جو کہتے ہیں نا \’ ٹائپ کے الفاظ سے لبریز .و بھرائی ہوئی کمنٹری بھی عوام کو بہت بھلی لگی

ہاکی میں ایس ایم نقی اور ذاکر سید نے مائیک ایسا پکڑا کہ جیتے جی کوئی چھڑا نہ سکا اس وقت ذاکر سے گیند لمبا ہوجاتا تھا اور جوشیلے ایس ایم نقی کھلاڑی سے پہلے گول کرنے سے بال بال ہی بچتے تھے۔ اسپورٹس سے بڑھ کر ریڈیو پہ بہت دلچسپی سے سنے جانے والے پروگراموں میں فلمی ستاروں و فنکاروں کے انٹرویوز نمایاں تر تھے ۔ اداکارائوں کے انٹرویوز مرد بڑے ذوق و شوق سے یوں سنتے تھے کہ گویا یہ اہم پروگرام نہ سنا تو زندگی میں اک بڑا خلا سا رہ جائے گا ۔ انتقاماً خواتین بھی مرد فنکاروں کے انٹرویو سننے میں بہت سرگرمی دکھاتی تھیں اور سارے کام کاج چھوڑ کے مردوں کا دل جلاتی تھیں۔ کامیاب لوگوں کے یہ احوال بعد میں گھریلو فسادات میں طعنہ زنی کیلئے خاطر خواہ کام میں بھی لائے جاتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب فلم انڈسٹری زوروں پہ تھی اور زیادہ تر فنکار اینٹھے اینٹھے پھرتے تھے اور جب کبھی کوئی بڑا فنکار ریڈیو پہ لایا جاتا تھا تو افریقا سے لائے گئے ہاتھی کی مانند دیکھنے والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جایا کرتے تھے ۔ اور چھوٹا موٹا مجمع تو ریڈیو پاکستان کراچی کے گیٹ پہ تقریباً سارا ہی دن لگا رہتا تھا کیونکہ ان دنوں ریڈیو کی عمارت میں داخلہ بڑی بات سمجھی جاتی تھی اور اندر جانے کے لئے مشتاقان کی منت سماجت دیدنی ہوتی تھی اور اکثر ہی استقبالیہ کلرک کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے دکھتے تھے۔ ریڈیو کی انتظامیہ نے ایسے بلکتے لوگوں کے لئے صرف یہ سہولت فراہم کی تھی کہ بالعموم ایسا تنومند و لحیم شحیم بندہ وہاں مامور کیا جاتا تھا کہ جسکی تھوڑی بہت بڑی بلکہ ڈبل ہو اور التجا کے لئے ایک ہی ساتھ بہت سارے لوگوں کو اسے چھونے میں آسانی ہو۔ ریڈیو پہ فنکاروں کے جو انٹرویوز نشر ہوتے تھے ان کی خاص بات جو عام ہوچکی تھی یہی ہوتی تھی کہ انہیں اس کام کا بچپن ہی سے شوق تھا اور وہ فن کی خدمت کو مقصد حیات سمجھتے ہیں گویا یہ فنکار حتیٰ الامکان جھوٹ بولنے سے پرہیز نہ کرنے کی پوری پوری کوشش کیا کرتے تھے اور وزرا کو شرماتے تھے ۔ اس زمانے میں اینکر یا میزبان ہونے کے لئے زبان درازی کی صفت مطلوب نہ تھی لیکن عزت نفس سے محرومی، اور نہایت بہتر تلفظ سے آراستہ شدید چاپلوسی ہی سب سے زیادہ درکار صلاحیتیں تھیں، مہمان سے چبھتے ہوئے سوالات کرنا تو قابل دست اندازی پولیس باور کیا جاتا تھا، ایسے میں فنکاروں و وزیروں کی فنکاریاں عروج پہ ہوتی تھیں ۔

قومی تہواروں و اہم دنوں پہ ریڈیو پہ خصوصی نشریات کا انبار سا لگا رہتا تھا۔ قومی دنوں پہ سارا دن وجذبات سے سرشار قومی و ملی نغمے بجتے و گونجتے رہتے تھے جن کے باعث گلی محلے میں چلتے پھرتے لوگ بھی پریڈ کرتے معلوم ہوتے تھے اور جذبات کی بلندی کے سبب کلینکوں پہ بلند فشار خون کے ماروں کی قطاریں لگ جاتی تھیں ۔ درحقیقت کئی اہم دن تو اہم محسوس ہی ریڈیو کے سبب کئے گئے ورنہ جس گھر میں بھی ریڈیو کبھی خراب ہوا، اہم دن بھی نارمل بن کے چپ چاپ گزر گیا، ان اہم دنوں کے حوالے سے پیش کئے جانے والے خاص پروگراموں میں معلومات عامہ کے پروگراموں کو بڑی اہمیت حاصل تھی، ان پروگراموں کی مقبولیت بڑھی تو عام دنوں میں بھی ذہنی آزمائش کے مقابلے منعقد کئے جانے لگے اور لوگ معمولی انعامات کے لئے بھی غیرمعمولی عزم سے ریڈیو پاکستان کی عمارت کے چکر لگانے لگے اور داخلہ پاسوں کے حصول کے لئے ہر حربہ آزمانے لگے یوں لالچ کے ماروں اور انعامات کے طلبگاروں کے ہاتھوں ذہن کی آزمائش بتدریج علم کی نمائش اور ذہنیت کی آزمائش میں تبدیل ہوتی چلی گئی ۔ اس زمانے میں ہمیں بھی متعدد بار ان معلوماتی مقابلوں میں شرکت کا موقع ملا اور رفتہ رفتہ بزم طلبہ اور نجانے کن کن پروگراموں میں شامل ہوتے چلے گئے اس زمانے میں بڑی بڑی نابغہ روزگار ہستیاں جیسے سلیم احمد، رضی اختر شوق، قمر جمیل، محشر بدایونی اور ضمیرعلی ان دنوں ریڈیو کے پروگراموں کے پیشکاروں میں شامل تھیں جن کے پاس ہروقت لوگوں کا یوں جھمگٹھا سا لگا رہتا تھا کہ گویا نامرادوں کو مراد پانے میں مدد دیتے ہیں اور عین وقت پہ شرمندگی سے بچاتے ہیں ۔

ایک طبقہ مگر ایسا تھا کہ جسے ہم ہروقت کسی نہ کسی اسٹوڈیو میں یہاں وہاں پڑا پاتے تھے، اور جس بندے کو جس حالت اور پہلو پہ دیکھتے گزرتے تھے گھنٹوں بعد بھی اسی پہلو پہ دھرا پاتے تھے عموماً غنودہ حالت میں رہتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ جاگتے رہے تو کسی بیگار میں کھپا دیئے جائیں گے ۔ یہ کلاسیکل فنکاروں کا طبقہ تھا جو کہ اگر بٹ اور بھٹی خاندان میں بھی جنم لیتے تھے تب بھی پہلے ہی دن سے استاد فلانے خان صاحب ہی کہلوانا پسند کرتے تھے، عام طور پہ اپنے سازوں کے ساتھ ہی ساز باز کرتے نظر آتے تھے۔ ستار والا تو باقاعدہ اپنے ستار کے کان میں پہروں سرگوشیاں کرتا دکھڑے سناتا دکھتا تھا۔ ریڈیو کے اندر کسی اسٹوڈیو میں یہ وہ بدقسمت لوگ تھے کہ جنہیں شاید ان کے لوگوں نے بھی کبھی توجہ سے نہیں سنا، ہرچند کہ روٹھی قسمت کو منانے کے لئے وہ ہر انگلی میں دو دو پتھروں والی شرطیہ قسمت بدلنے والی رنگ برنگی انگوٹھیاں پہنے رہتے تھے لیکن عوام کے ذوق کا ہاتھی ذرا ٹس سے مس نہ ہوا اور پھر ریڈیو انتظامیہ نے بھی انہیں اپنے فن کی نکاسی کے لئے وہ اونگھتا بسورتا وقت الاٹ کیا کہ جب عوام کے کان سارا دن ریڈیو کے غ ±ل اور بیوی کے غپاڑے سے تھک کر رخساروں پہ لٹک چکے ہوتے تھے اور ہوتا یہ تھا کہ جہاں ان فنکاروں کے راگ راگنیاں شروع ہوئے عوام نے اسے گرم ہوتے ریڈیو کو ٹھنڈا کرنے کا غنیمت موقع سمجھا، چند سیانے ریڈیو کے موجودہ زوال کو انہی خان صاحبوں کے کوسنوں اور بددعاو ¿ں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ورنہ ذرا بتائیے کہ آخر یہ کیا بات ہوئی کہ دیکھتے دیکھتے ادھر ٹی وی کی آمد کا کوندا لپکا، ادھر آناً فاناً برسوں سے دھوم مچاتے ریڈیو کی دنیا اندھیر ہو گئی….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments