ڈاک بنگلے میں گزری ایک شام


فروری کی دھوپ ہو، نیلا آسمان ہو، پنجاب کے کھلیان ہوں، بیچوں بیچ پگڈنڈی ہو، پراٹھوں سے اٹھتا دھواں ہو، کوئی مدھر سا گیت ہواورساتھ میں یار بیلی ہوں تو ایسے میں لگتا ہے جیسے پوری کائنات گنگنا رہی ہو۔ سردیوں میں کم از کم ایک مرتبہ دوستوں کے ساتھ ایسا پروگرام ضرور بنتا ہے، ہم پنجاب کے کسی ایسے قصبے کا انتخاب کرتے ہیں جس کا چھوٹا سا ریلوے سٹیشن ہو، جہاں انگریز دور کا ڈاک بنگلہ ہو اورساتھ کہیں سے نہر گزرتی ہو، ایسے سحر انگیز ماحول میں ایک شب گزاری جاتی ہے، دوستوں کی محفل میں محبتیں بانٹی جاتی ہیں، بیتے ہوئے دنوں کو یاد کیا جاتا ہے، لمحہ موجود سے عشق کیا جاتا ہے، آنے والے وقت کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور پھر وہیں ان خوابوں کو سگریٹوں کے دھوئیں میں اڑا دیا جاتا ہے۔

چائی کی پیالی پر فلسفہ بگھارا جاتا ہے اورکھانے کی میز پر تصوف پر گفتگو ہوتی ہے۔ رات گئے دالان میں کرسیاں لگائی جاتی ہیں، انگیٹھی دہکائی جاتی ہے، آگ سینکی جاتی ہے، پھر کوئی اپنی شاعری سناتا ہے، دوسرادوست گیت گنگناتاہے، ایک دوسرے پر جملے اچھالے جاتے ہیں، چاقو سے گدگدی کی جاتی ہے اور یوں قہقہے لگاتے ہوئے رات گزاری جاتی ہے۔ وقت کا اِس سے بہترین ضیاع ممکن نہیں۔

میاں چنوں میں ایک شادی تھی، سوچا شادی سے فارغ ہو کر قریب کسی قصبے میں پڑاؤ ڈا ل لیں گے، سو ہم نے گاڑی لاہور ملتان موٹر وے سیکشن پر ڈا ل دی جس کی تعمیر تو دو سال پہلے ہی مکمل ہو گئی تھی مگر افتتاح ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ہوا ہے۔ میں نے یورپ کی کنٹری سائیڈ بھی دیکھی ہے اور انگلستان کے میدانی علاقے بھی، اللہ کو جان دینی ہے جو خوبصورت نظارہ میں نے اِس موٹر وے کے دونوں اطراف دیکھا وہ ان دونوں علاقوں سے کسی طور کم نہیں تھا۔

پنجاب کے کھیت چاروں طرف لہلہا رہے تھے، تا حد نگاہ سبزے کی چادر تنی ہوئی تھی، درمیان میں کچے پکے مکانات پر مشتمل گاؤں تھے، پاس ہی ٹیوب ویل سے پانی ذخیرہ کیا جا رہا تھا، کھیتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے راستے بنے ہوئے تھے جن میں کہیں کوئی سائیکل سوار گزرتا ہوا دکھائی دے جاتا تھا، پھر بل کھاتی نہر دکھائی تھی جس نے فصلوں کو سیراب کر رکھا تھا، رہی سہی کسر سردیوں کی دھوپ نے پوری کر دی جس نے فضا میں رومان بھر دیا۔

ہم نے گاڑی ایک طرف روکی اور اِس منظر کو اپنی آنکھوں میں سمونے کی کوشش کی، ناکام رہے، لا متناہی حسن کو بھلا کیسے کوئی چند لمحوں میں سمیٹ سکتا ہے، پنجاب اپنے جوبن پر تھا، اُس مٹیار کی طرح جس کے انگ انگ سے حسن چھلکتا ہو مگر وہ اپنے عاشقوں سے بے نیاز ہو۔ اِس موٹر وے پر ابھی گاڑیوں کی آمدو رفت کم ہے، راستے میں قیام و طعام کے مقامات بھی پوری طرح نہیں کھلے، یہی موٹر وے آگے غالباً کراچی تک جاتی ہے، اس پر کراچی تک کا سفر یقینا ایک شاندار تجربہ ہوگا، وہیں کھڑے کھڑے دوستوں نے قرارداد پیش کی کہ اگلاسفر کراچی کا کیا جائے گا، عبدالحکیم انٹر چینج تک پہنچتے پہنچتے کافی بحث کے بعد یہ قرارداداتفاق رائے سے منظور کر لی گئی۔

میاں چنوں کے ساتھ ہی ایک قصبہ ہے جس کا نام کسو وال ہے، شادی کی تقریب وہاں تھی، ارادہ تھا کہ روایت کے مطابق رات قصبے میں ہی بسر کی جائے مگر بد قسمتی سے کسو وال میں رہائش کے لیے کوئی ڈاک بنگلہ نما جگہ نہیں تھی، چنانچہ وہیں سے ہم نے گاڑی ساہیوال کی جانب موڑی کہ وہاں ایک ریسٹ ہاؤس کا انتظام تھا۔

اب ہم جی ٹی روڈ پر تھے، شام ہونے کو تھی، سورج کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں، سردی انگڑائی لے کرپھر سے اٹھ رہی تھی، پنجاب دھند کی چادر اوڑھ رہا تھا۔ سڑک کے ساتھ ہی چائے کا کھوکھا تھا، ہم نے تھوڑی دیر کے لیے وہاں گاڑی روکی، سگریٹ سلگایا اور چائے منگوائی، دور سے ایک ٹرین چنگھاڑتی ہوئی آرہی تھی، ہم نے چائے کے گھونٹ بھر ے اور بچوں کی طرح ٹرین کے ڈبوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلائے۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جب کبھی کسی فیملی یا دوستوں میں کہیں سیر وتفریح کا پروگرام بنتا ہے تو پہلی ترجیح شمالی علاقہ جات ہی قرار پاتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دماغ کا رادار سیاحت کے لیے میدانی علاقوں کے سگنل ہی نہیں پکڑپاتا، یہ بالکل ایسے ہے جیسے ہم گھر پر کسی کی دعوت رکھیں تو پہلی ڈش مٹن یا چکن ذہن میں آتی ہے، پہاڑی علاقے بھی ہمارے لیے طے شدہ سیاحتی مقامات کی حیثیت رکھتے ہیں، نئے نویلے شادی شدہ جوڑوں کے لیے تو مری جانا اتنا لازمی قرار دیا جاچکا ہے گویا یہ بھی کوئی نکاح کا حصہ ہے، شاید ہی کوئی ایسا جوڑا ہو جس نے اپنا ہنی مون منانے کے لیے کسو وال کا انتخاب کیا ہو (ہونا بھی نہیں چاہیے ) ۔

ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہنی مون ”موثر“ ہی تب ہوتا ہے جب وہ مری یا کسی شمالی علاقہ جات میں منایا جائے حالانکہ جگہ اِس میں کلیدی کردار ادا نہیں کرتی، جذبات کرتے ہیں۔ وہ شادی شدہ جوڑے جو کسی وجہ سے ہِل سٹیشن پر ہنی مون نہیں مناپاتے وہ ساری زندگی اسی احساس ندامت میں گرفتار رہتے ہیں کہ آخر ان سے اتنی بڑی کوتاہی کیسے سرزد ہوگئی ْلیکن حقیقت ہے کہ سرما میں میدانی علاقوں کا حسن بھی کچھ کم نہیں۔ پہاڑی علاقوں پر چونکہ عوام کی زیادہ تعداد جاتی ہے لہذا وہاں بہرحال کچھ نہ کچھ سہولیات بھی پہنچ چکی ہیں، ہوٹل ہیں، ریستوران ہیں لیکن میدانی علاقوں کی دل موہ لینے والی خوبصورتی دیکھنے کے شوقین یہاں پہنچ بھی جائیں تو اکثر انہیں رہائش کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

سرکاری ریسٹ ہاؤسز تک ہر ایک کی رسائی نہیں، ہوبھی جائے تو کئی لوگوں اس مخمصے کا شکار رہتے ہیں کہ پتا نہیں یہاں انہیں رہنے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں، سرکاری ریسٹ ہاؤسز کے ساتھ لگا لفظ سرکاری انہیں عام عوام کی نظر میں خاص بنائے رکھتا ہے لیکن اب عوام کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ محکمہ ڈاک نے ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے ڈاک بنگلے عوام کے لیے کھول دیے ہیں جنہیں آپ نہایت آسانی کے ساتھ ایک وٹس ایپ میسج کے ذریعے بُک کروا سکتے ہیں، پیشگی ادائیگی قریبی ڈاک خانے میں کی جاتی ہے اور اس کی رسید آپ کی بکنگ سلپ بن جاتی ہے، اِس جنوری میں مری کا ڈاک بنگلہ میں نے ایسے ہی بک کروایا مگر شدید برف باری کی وجہ سے مری سے صرف دو کلومیٹر پہلے سے واپس آگیا، یہ ایک علیحدہ ایڈونچر تھا جس کی روداد پھر کبھی۔

ہمارے میدانی علاقے اپنے اندر جادوئی حسن رکھتے ہیں لیکن پہاڑوں کی ہیبت سے رائی بنے رہتے ہیں، ہم دوستوں نے کھلی آنکھوں سے یہ میدانی جادو خود پر طاری ہوتے ہوئے محسوس کیا، شام کے ملگجے اندھیرے میں جب ہم ریسٹ ہاؤس کی عمارت میں داخل ہورہے تھے تو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہم ہزاروں سال پہلے کے کسی دور میں ہوں اورویرانے میں ایک شخص الاؤ روشن کیے ہمارا انتظار کر رہا ہو، ہم ڈرتے ڈرتے اُس الاؤ کے قریب گئے، دیکھا تو واقعی وہاں ایک شخص ہمارا انتظار کر رہا تھا، وہ ریسٹ ہاؤس کا کئیر ٹیکر تھا۔ کھلے آسمان پر تاروں کی ایک بارات تھی جسے دیکھنا لازم قرار پایا اور اسی کیفیت میں ذہن میں بے اختیار کسی کے دومصرعے آگئے :میں نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جاسکتا تھا۔ لیکن پھر بھی دوآنکھوں سے کتنا دیکھا جاسکتا تھا!

کالم کی دُم: فلموں میں ڈاک بنگلوں کے چوکیدار کی ایک نوجوان بٹیا ہوتی ہے جو جنوری کی ٹھٹھرتی ہوئی رات میں بھی جون کے موسم کا لباس پہن کر کمرے میں آ کر ہیرو سے پوچھتی ہے ”بابو جی! بابا تو سو گئے، اگر آپ کوکسی چیز کی ضرورت تو بتا دیجئے گا“۔ نہ جانے ایسا صرف فلموں میں ہی کیوں ہوتا ہے!
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments