کوریا: فلم پیراسائٹ کی طرح سیول کے نیم تہہ خانوں میں رہنے والے افراد


بینجیہا

حیرت انگیز طور پر باکس آفس پر ہٹ ہونے والی ایک فلم جنوبی کوریا کے دو خاندانوں کی کہانی بیان کرتی ہے جس میں سے ایک خاندان ایک چھوٹے سے، تاریک نیم تہہ خانے میں رہتا ہے جبکہ دوسرا امیر خاندان سیول کے پرتعیش گھر میں رہتا ہے۔

اگرچہ آسکر کے لیے نامزد ہونے والی فلم پیراسائٹ ایک فسانہ ہے لیکن اس میں پیش کیے جانے والے گھر حقیقت ہیں۔ انھیں ‘بینجیہا’ کہا جاتا ہے اور دارالحکومت سیول میں ہزاروں افراد ان میں رہتے ہیں۔

بی بی سی کوریئن کی جولی یون نے یہاں مقیم چند افراد سے ملاقات کی اور یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ وہاں زندگی کیسی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہم جنس پرستی کو تسلیم کروانے کی جنگ

’اوور ٹائم کام کرنے کی روایت‘ کو ختم کرنے کی کوشش

اوہ کے-چیلو کے بینجیہا میں بنیادی طور پر سورج کی کوئی روشنی نہیں پہنچتی۔ وہاں اتنی کم روشنی پہنچتی ہے کہ ان کا چھوٹا سا رسدار پودا بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔

نیم تہ خانہ

گلی سے سیدھے اوہ کے گھر میں کھڑکی سے جھانکا جا سکتا ہے

لوگ ان گھروں میں کھڑکیوں سے جھانک سکتے ہیں۔ نوجوان کبھی کبھی اپنے فلیٹ کے باہر سگریٹ پیتے ہیں یا پھر فرش پر تھوکتے ہیں۔

گرمیوں میں انھیں ناقابل برداشت حبس کا سامنا ہوتا ہے اور تیزی سے بڑھنے والی پھپھوند سے ان کی لڑائی چلتی رہتی ہے۔

چھوٹے سے باتھ روم میں کوئی سِنک نہیں ہے اور وہ فرش سے نصف میٹر اونچا ہے۔ باتھ روم کی چھت اتنی نیچی ہے کہ انھیں سر بچانے کے لیے پاؤں کو پھیلا کر کھڑا ہونا ہوتا ہے۔

لاجسٹک شعبے میں کام کرنے والے 31 سالہ اوہ بتاتے ہیں کہ: ’جب میں پہلی مرتبہ وہاں منتقل ہوا تو سیڑھیوں سے ٹکرانے کے سبب میری پنڈلیوں کا اگلا حصہ زخمی ہو گیا اور بازو پھیلانے کے نتیجے میں دیوار سے ہاتھ ٹکرانے کے سبب زخم آ گئے۔‘

اوہ کا گھر

اوہ اپنے بینجیہا کے باتھ روم میں سیدھے طورپر کھڑا نہیں ہو سکتا

لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کے عادی ہو گئے ہیں۔ ’مجھے پتا ہے کہ کہاں روشنی ہے اور کہاں اونچا نیچا ہے۔‘

لیجنڈری ہدایت کار بونگ جون-ہو کی فلم پیراسائٹ امرا اور غربا پر مبنی ایک پیچیدہ کہانی ہے۔

اس فلم میں دو انتہاؤں میں رہنے والے دو خاندان یعنی انتہائی امیر و خوشحال پارکس اور غریب کِمز کو ان کے اپنے اپنے گھروں میں دکھایا گیا ہے۔ ایک کا پرشکوہ محل ہے جو کہ سیول میں پہاڑیوں پر ہے جبکہ دوسرا ایک گندے نیم تہہ خانے میں رہائش پزیر ہے۔

لیکن حقیقی زندگی میں سیول میں بینجیہا ایسی رہائشیں ہیں جہاں ہزاروں نوجوان بہتر مستقبل کی امید میں جان توڑ کوشش کرنے کے دوران قیام کرتے ہیں۔

بینجیہا سیول کے فن تعمیر کا کوئی جگاڑ نہیں ہے بلکہ تاریخی حقیقت کا نتیجہ ہے۔ ان چھوٹی رہائش گاہوں کی جڑیں ماضی کی دہائیوں میں پوشیدہ ہیں جب شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جنگ کی صورت حال تھی۔

سنہ 1968 میں شمالی کوریا کے کمانڈوز جنوبی کوریا کے صدر پارک جنگ ہی کو قتل کرنے کے لیے چپکے سے سیول میں داخل ہو گئے۔

ان کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا لیکن دونوں کوریائی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گيا۔ اسی سال شمالی کوریا نے حملہ کر کے امریکی بحریہ کے ایک جہاز ’یو ایس ایس پیبلو‘ پر قبضہ کر لیا۔

سیول

شمالی کوریا کے مسلح ایجنٹس جنوبی کوریا میں داخل ہو گئے اور وہاں کئی دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے

شمالی کوریا کے مسلح ایجنٹس جنوبی کوریا میں داخل ہو گئے اور وہاں کئی دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے۔

کشیدگی میں اضافے کے خدشے کے تحت سنہ 1970 میں جنوبی کوریا کی حکومت نے مکان کی تعمیر کے نئے ضوابط بنائے جس کے تحت کم بلندی کے تمام نئے اپارٹمنٹ میں تہہ خانہ بنایا جانا لازمی قرار دیا تاکہ قومی ناگہانی صورت حال میں اسے بنکر کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

ابتدا میں اس قسم کے بینجیہا کو کرائے پر دینا غیر قانونی تھا لیکن سنہ 1980 کی دہائی میں بطور خاص دارالحکومت میں پیدا ہونے والے رہائش کے بحران نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ان تہہ خانوں کو رہائش کے لیے دیے جانے کی اجازت دے۔

سیول

35 سال سے کم عمر والوں میں کرائے اور آمدن کا تناسب گذشتہ دہائی میں 50 فیصد تھا

سنہ 2018 میں اقوام متحدہ نے کہا کہ دنیا کی 11ویں سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود جنوبی کوریا میں بطور خاص نوجوان اور غریب لوگوں کے لیے رہائش کی گنجائش کم ہے۔

35 سال سے کم عمر والوں میں کرائے اور آمدن کا تناسب گذشتہ دہائی میں 50 فیصد تھا۔

اس لیے نیم تہ خانے والے اپارٹمنٹ تیزی سے گھروں کے بڑھتے ہوئے کرائے کے پیش نظر قابل عمل متبادل ٹھہرے۔ 20 لاکھ کورین یوان یعنی تقریبا 1700 ڈالر آمدن والے 20 کے پیٹے میں موجود نوجوانوں کے لیے ماہانہ کرایہ تقریباً پانچ لاکھ 40 ہزار کورین یوان ہے جو کہ تقریباً ساڑھے چار سو امریکی ڈالر کے قریب آتا ہے۔

اس کے باوجود بینجیہا میں رہنے والے بہت سے لوگوں کو سماجی بدنامی سے نمٹنے میں دشواری آتی ہے لیکن سب کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

بینجیہا

‘میں نے پیسہ بچانے کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا اور میں بہت پیسے بچا رہا ہوں لیکن میں نے غور کیا ہے کہ لوگ مجھ پر ترس کھاتے ہیں اور میں انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا‘

اوہ نے کہا: ’آپ کو پتا ہے میں اپنے اپارٹمنٹ سے واقعتاً مطمئن ہوں۔

‘میں نے پیسہ بچانے کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا اور میں بہت پیسے بچا رہا ہوں لیکن میں نے غور کیا ہے کہ لوگ مجھ پر ترس کھاتے ہیں اور میں انھیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا۔

’شاید جہاں میں رہتا ہوں وہ یہ طے کرتا ہے کہ میں کون ہوں۔‘

پیراسائٹ فلم میں بیچ میں جب غریب کم کی فیملی پارک کی فیملی کی زندگی میں درانداز ہوتی ہے اور ان سے پیسہ بنانے کی کوشش کرتی ہے تو سب سے چھوٹی پارک دا-سونگ کو کم کی فیملی میں سے عجیب سے بو آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

جب باپ کم کی-ٹائک اس بو سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی بیٹی سردمہری سے کہتی ہے کہ ’یہ تہہ خانے کی مہک ہے۔ یہ مہک اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک کہ ہم یہ جگہ نہیں چھوڑ دیتے۔‘

پارک جون

پارک ینگ جون (دائیں) کو بینجہا نے کم کرایے کے لیے اپنی جانب متوجہ کیا

26 سالہ فوٹوگرافر پارک ینگ-جون نے اپنے بینجیہا اپارٹمنٹ میں منتقل ہونے کے فورا بعد فلم پیراسائٹ دیکھی۔ ابتدا میں پارک کا بینجیہا میں رہنے کا فیصلہ سیدھا سادہ تھا کہ وہ اس کی گنجائش میں تھا اور وہاں جگہ تھی۔

لیکن فلم دیکھنے کے بعد وہ وہاں کی بو کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے کہا: ’میں کم کی فیملی کی طرح نہیں مہکنا چاہتا۔‘

اس گرمیوں میں اس نے بے شمار اگربتیاں جلائیں اور زیادہ تر اوقات حبس کو دور کرنے والی مشین کو آن رکھا۔ انھوں نے کہا کہ کسی نہ کسی حد تک اس فلم نے انھیں ترغیب دی کہ وہ اپنے فلیٹ کو سجائیں اور اسے ٹھیک رکھیں۔

انھوں نے وضاحت کی: ’میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے حال پر صرف اس لیے ترس کھائیں کہ میں کہیں تہہ خانے میں رہتا ہوں۔‘

پارک اور ان کی گرل فرینڈ شم من اپنے بینجیہا اپارٹمنٹ کی تزئین کا ویڈیو بلاگ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ سے خوش ہیں لیکن اب وہ جہاں ہیں وہاں تک آنے میں انھیں مہینوں لگے ہیں۔

بینجیہا

پارک ینگ اور شم من نے ملک کر اپنے گھر کو سجایا

پارک نے کہا: ’جب میرے والدین نے پہلی بار میرا اپارٹمنٹ دیکھا تو وہ مایوس ہو گئے۔ وہاں پہلے رہنے والا کرایہ دار بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرتا تھا۔ میری ماں وہ بو برداشت نہیں کر سکیں۔‘

شم جو کہ 24 سالہ یو ٹیوبر ہیں پہلے پہل پارک کے بینجیہا میں رہنے کے فیصلہ سے متفق نہیں تھیں۔

انھوں نے کہا: ’بینجیہا کے بارے میں میرا بہت منفی خیال تھا۔ وہ محفوظ نہیں لگتا تھا۔ مجھے وہ شہر کے تاریک پہلو کی یاد دلاتا تھا۔ میں ساری زندگی اونچی اور بلند و بالا عمارت میں رہی اس لیے میں اپنے بوائے فرینڈ کے لیے فکرمند تھی۔‘

بینجیہا

اوہ بھی پیسے بچا رہے ہیں تاکہ وہ اپنا گھر خرید سکیں۔ نیم تہہ خانے میں رہنے سے انھیں امید ہے کہ ان کے خواب جلد پورے ہو جائیں گے

تاہم ان کے گھر کی تزئين کی ویڈیو کو ان کے سبسکرائبر کی جانب سے مثبت ردعمل ملا۔ متعدد افراد ان کے سٹائلش فلیٹ پر رشک کرتے بھی نظر آئے۔

شم من نے کہا: ’ہم اپنے گھر کو پسند کرتے ہیں اور جو کام ہم نے یہاں کیا ہے۔‘تاہم اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ساری زندگی بینجیہا میں رہیں گی۔ ’ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘

اوہ بھی پیسے بچا رہے ہیں تاکہ وہ اپنا گھر خرید سکیں۔ نیم تہہ خانے میں رہنے سے انھیں امید ہے کہ ان کے خواب جلد پورے ہو جائیں گے۔

انھوں نے کہا: ’مجھے بس اس بات کا افسوس ہے کہ میری بلی اپریل کھڑکی سے سورج کی روشنی کا لطف نہیں لے سکتی ہے۔‘

بلی

’مجھے بس اس بات کا افسوس ہے کہ میری بلی اپریل کھڑکی سے سورج کی روشنی کا لطف نہیں لے سکتی ہے‘

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp