دو غیر سائنسدان اور نظریہ ارتقا


\"safeer-ullah-khan\"گزشتہ دنوں ایک غیر سائنسدان (عدنان کاکڑ) نے سائنس کے اہم اور متنازع موضوع نظریہ ارتقاء پر ایک مضمون لکھ ڈالا۔ اگرچہ اس کے جواب میں ایک سائنسدان (ڈاکٹر محمد عمر) نے عدنان کاکڑ کو ارتقا کی سائنس سمجھانے کا فرض اپنے ذمے لے لیا ہے مگر پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ ایک غیر سائنسدان کو دوسرا غیر سائنسدان جواب دے تو شاید پہلے غیر سائنسدان کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ڈاکٹر عمر نے تو سائنسی اصطلاحات کی بھر مار کر دی ہے جو میرے سر کے اوپر سے گزر گئی ہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ عدنان کاکڑ کے سر کے بھی اوپر ہی سے گزر گئی ہوں گی۔

میں چونکہ سائنسدان نہیں ہوں اور سائنس کی کتابوں سے دور کی صاحب سلامت بھی نہیں رکھتا تو نظریہ ارتقاء کے درست یا غلط ہونے پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتا۔ ارتقاء کی گتھیاں سلجھانے کا کام سائنسدانوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ میں تو عدنان کاکڑ سے صرف اتنی سی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اختلافی یا متنازع موضوعات پر بات بند کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے (جیسا کہ کاکڑ صاحب نے اپنے مضمون کے آخری پیرگراف میں لکھا ہے)۔ ہم غیر سائنسدان لوگ اس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ یہ نظریہ نہ تو حتمی طور پر رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ابھی تک حتمی طور پر درست ثابت ہو سکا ہے۔

یہ بات بھی ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر ارتقاء کا نظریہ حتمی طور پر ثابت نہیں ہوا تو اس کا متبادل نظریہ بھی نظریہ ہی ہے۔

مزید یہ کہ جن باتوں پر اختلاف ہو انہیں نصاب سے نکالا نہیں جاتا، بلکہ انہی کو تو پڑھایا جاتا ہے تاکہ نئی نسل اس پر مزید تحقیق کرے اور اس کی کوئی حتمی تشریح کر سکے یا حتمی تشریح کی طرف لے جا سکے۔ ارسطو کے بعض نظریات غلط ضرور ثابت ہوئے ہیں مگران کے غلط ثابت ہونے سے ارسطو کا قد چھوٹا نہیں ہو گیا۔ وہ اپنے وقت کے حساب سے درست تھا۔ اگر سائنس نے ترقی نہ کی ہوتی تو آج بھی سب لوگ (بشمول آپ کے) ارسطو کی بات کو درست تسلیم کر رہے ہوتے۔

میری تجویز یہ ہو گی کہ نظریات کو پڑھایا جائے اور نئی نسل کو یہی سمجھا کر اور بتا کر پڑھایا جائے کہ یہ نظریہ ہے اور اس پر بہت سے لوگوں کا اختلاف ہے۔ اس پرتحقیقی کام جاری ہے۔ کبھی نہ کبھی اس حوالے سے کوئی حتمی جواب مل جائے گا۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آپ ایک نظریے کی بنیاد پر دوسرے نظریے کو غلط قرار دے کر رد کر دیں اور نصاب ہی سے نکال باہر کریں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سائنس بذاتِ خود ارتقاء میں ہے۔ آج سے سو سال پہلے ہوا میں اڑنے کی بات کی جاتی تو لوگ کہتے کہ آپ پاگل ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے کوئی موبائل فون کی بات کرتا تو لوگ اسے بھی پاگل قرار دیتے۔ مگر آج یہ چیزیں دنیا کی حقیقت ہیں۔ جس پلیٹ فارم پر ہم اور آپ یہ مضامین لکھ اور پڑھ رہے ہیں یہ بھی تیس سال پہلے تک دیوانے کا خواب تھا۔

سائنس کی ایک بات مجھےبہت اچھی لگتی ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ اسے غلط ثابت کر دیں تو یہ اپنی غلطی تسلیم کر لیتی ہے۔ اس ضد پر نہیں اڑ جاتی کہ نہیں سورج ہی زمین کے گرد چکر لگاتا ہے۔ سائنس یہ بھی نہیں کرتی کہ جو کوئی اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے اسے مار مار کر یا ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ارسطو کے فرمائے کو غلط قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی ارسطو کی بات غلط ثابت ہونے پر اس کی عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

عقیدے کی سب سے بری بات ہی یہی ہے کہ وہ اپنے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتا۔ کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کوئی شخص عقیدے کے خلاف کچھ ثابت بھی کر دے تو اس کی گردن اڑا دی جاتی ہے، مقدمے چلائے جاتے ہیں ’سر تن سے جدا‘ قسم کے نعرے سنائی دینے لگتے ہیں۔

عدنان کاکڑ کے مضمون کا بنیادی مسئلہ شاید یہ ہے کہ وہ دو سائنسی نظریات کا موازنہ نہیں کر رہے بلکہ ایک سائنسی نظریے اور ایک عقیدے کا موازنہ کر رہے ہیں۔اب سیدھی سی بات یہ ہے کہ موازنہ ایک جیسی چیزوں کا کیا جاتا ہے دو مختلف چیزوں کا نہیں۔ سائنسی نظریے کا موازنہ عقیدے سے کریں گے تو ایسا ہی نتیجہ نکلے گا۔

ویسے عدنان صاحب نے آخری پیراگراف میں ایک دلچسپ بات کر دی اور وہ یہ کہ ان کا مخاطب صاحبانِ دل ہیں ۔ یعنی پورا مضمون پڑھنے کے بعد آخر پہ پتہ چلا کہ یہ صاحبانِ عقل کے لئے تو تھا ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments