مذہب قاتل ہے یا مقتول؟


برادر خورد جمشید اقبال صاحب فرماتے ہیں ”حراری کہتا ہے لبرل ہیومن ازم اور سوشلسٹ ہیومن ازم دونوں کی بنیادیں مسیحی اصولوں پر قائم ہیں جبکہ نازی ازم کی نہیں جبکہ رسل فرماتے تھے نازی ازم کی بنیاد بھی ابراہیمی مذاہب کے بنیادی رویے پر ہے۔ کیونکہ یہ مذاہب جب خود کو درست کہتے ہیں تو انہیں دوسروں کو گمراہ کہنا پڑتا ہے۔ خود کو ارفع اور اعلی سمجھتے ہیں تو دوسروں کو گھٹیا سمجھنا پڑتا ہے۔ اسی طرح نازیوں نے خود کو منتخب نسل قرار دیا اور دوسروں کو مٹا دینے کو بالکل جائز۔ رسل کہتے ہیں کہ نازی یہودیوں کے دشمن بنے لیکن یہ اصول انہوں نے یہودیوں سے ہی لیا اوریہی اصول بعد ازاں مذہبی بنیادوں پر افتخار کا روپ دھار کر دیگر ابراہیمی مذاہب کا حصہ بنا“۔

محترم جمشید اقبال نے حراری کے مقابلے میں رسل کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ کسی بھی صاحب علم کواس کاپورا حق حاصل ہے۔ خاکسار کی حیثیت ان کے مقابلے میں ایک طالب علم کی سی ہے لیکن بصداحترام میں ان سے اختلاف کی جسارت کرتا ہوں۔ امیدہے وہ درگزر فرمائیں گے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ لمحہ موجود میں جو طبقہ عوام کے سامنے مذہب کا چہرہ بن چکا ہے یا جس کے ہاتھ میں مذہبی رہنمائی کا عَلم ہے اس کا مذہب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اجتہاد جس کاتعلق عقل و دانش اور فہم سے ہے تاریخ کے قبرستان میں اس کی قبر خستہ حال ہے۔ معاف کیجئے گا لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنے اپنے نظریات کے بارے میں تعصب کا شکار ہیں۔ ہم دو انتہاؤں پر بسنے والی قوم ہیں اور کسی بھی معاملے کو صرف سیاہ اور سفید کے پیمانے پر پرکھنے تک محدود۔ سماج لیکن ان دورنگوں تک محدود نہیں بلکہ ان دو رنگوں کے درمیان بہت سے سیاہی مائل ہلکے اور گہرے دائرے بھی موجود ہیں۔

ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ دوسرے کو گھٹیا اور کمتر جانے بغیر بھی خود کو اعلیٰ و ارفع ثابت کیا جاسکتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ خود کی عظمت کے قصے بیان کرتے ہوئے دوسروں کو ذلیل کیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ ایک دوسرے کو گھٹیا اور کم تر بتا کر خود کی عظمت کے گن گانا خبط عظمت کے سوا کچھ نہیں۔ دوسروں کو خود سے چھوٹا دکھانے کا شائستہ مگر مستند راستہ یہ ہے کہ اپنے قد میں اضافے کی کوشش کی جائے نہ کہ اپنی پوری توانائی مد مقابل کو نیچا دکھانے پر ضائع کی جائے۔ لیکن آج کا نام نہاد مذہبی رہنما اور ملا یہی غلطی بار بار دہرائے جا رہا ہے اور اس بات پر مصر بھی ہے کہ وہ حق بجانب ہے۔

اگر ہم دین اسلام ہی کی بات کریں تو ملّا اس بات پر مصر ہے کہ صرف اس کے ہم خیال ہی خدا کے سچے پیروکار اور جنتی ہیں جبکہ باقی تمام انسان کفر میں مبتلا ہیں جن کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں۔ خاکسار کے محدود علم کے مطابق دقت یہ ہے کہ ملّاکو سننے والوں میں سے ایک فیصد افراد بھی ملّاکی اس بات کی تحقیق گوارا نہیں کرتے۔ دوسری طرف اسلام اس مقلد رویے کا ناقد اور تحقیق کاعلم بردار ہے۔ وضاحت کے ساتھ یہ عرض کردیا گیا ہے کہ ”مومن محقق ہوتا ہے نہ کہ مقلد“۔

قرآن جو کہ اسلام کا واحد غیر متازع اور مستند مآخذ ہے اس میں جابجا انسانوں کو (صرف مسلمانوں کو نہیں) مخاطب کر کے تفکر و تدبر کی طرف مائل کیا گیا ہے۔ ملّا چونکہ ایک مخصوص زاویے یا سوچ کے تحت ذہن سازی کے ذریعے وجود میں آیا ہے تو اس کے لئے اس دائرے سے نکل کر سوچنا ناممکن ہے۔ اکا دکا مثالیں لیکن بہرحال موجود ہیں۔

آٹھ بازاروں کے شہر لائلپور میں ایک عالم دین مولانا اسحق مدنی گزرے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا چھ برس سے کچھ قبل تک وہ حیات تھے۔ اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اس عالم دین کو خود اہل حدیث علما نے اپنانے سے گریز کیا۔ سبب صرف یہ تھا کہ کسی بھی معاملے کو قرآن و سنت کی روشنی میں تعصب کے بغیر سمجھنے کی کوشش کرتے اور وہی بیان کرتے جو حق سمجھتے۔ خاکسار کو ان کی بعض آرا سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ بحر علم کے بڑے بڑے غواص یہ گستاخی کرتے رہے ہیں۔ عظیم فلسفی افلاطون اور ان کے شاگرد ارسطو کی مثال روشن ہے۔ شاگرد نے استاد کے نظریات سے اختلاف کیا لیکن آج بھی دنیا بھرکی جامعات میں دونوں کا نام تکریم سے لیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں سماج کا علم ان دونوں کو پڑھے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس لئے کہ سوال علم کی بنیاد ہے اور سوال ”اختلاف“ سے جنم لیتا ہے۔ ہم نے مگر اصول یہ اپنا رکھا ہے کہ مخالف گردن زدنی ہے۔ حالانکہ وہی مخالف آپ کے نظریات کی بقا کا ضامن ہے۔ شرط مگر یہ ہے کہ آپ دلیل کے ہتھیار سے اسے ڈھیر کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔

قرآن پاک کی سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 62 میں نصاریٰ اور صائبین کے لئے اجر کی بشارت اور خوف سے آزاد ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ نصاریٰ اور صائبین کی جو بھی تعریف یا تشریح کی جائے وہ مسلمان تو ہر گز نہیں کہلاتے۔ سوچنے کی بات اب یہ ہے کہ ان غیر مسلموں کے لئے اگر قرآن اجر کا اعلان فرما رہا ہے تو کسی بھی ملّا کے پاس ایساکون سا اختیار ہے جو ان کو جہنمی قراردے۔

حضرت محمدﷺ نے بارہا یہ فرمایا کہ وہ کوئی نئی بات نہیں بتا رہے بلکہ وہی بول رہے ہیں جو ان سے پہلے آنے والے ان کے بھائی پیغمبرانِ کرام فرماتے رہے۔ اس چیز کو ذہن میں رکھا جائے تو خود آنحضرت کی زندگی میں مسجد نبوی کے اندر عیسائی وفد کا عبادت کرنارواداری، تعاون اور عزت و احترام کی ایک روشن مثال ہے۔ اس ایک واقعے کو بھی اگر ذہن میں رکھا جائے تو خود کو ارفع اور دوسروں کو کم تر سمجھنے کا مذہبی نظریہ باطل قرارپاتاہے۔ آج کا ملّا یا منبر پر بیٹھا کوئی مفتی ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بتاتا کیونکہ اس سے پیٹ پر زد پڑتی ہے۔

دراصل دنیا کے کسی بھی مذہب کی حقیقی تعلیمات ایک دوسرے سے نہایت متشابہ ہیں۔ چوری، ڈاکہ، قتل، کسی کا حق چھیننا، کسی کو ایذا دینا کسی بھی مذہب میں روا نہیں ہے۔ ہم مسلمان اگر حضرت محمد ﷺ کے پیروکار ہیں تو مسیحی بھائی حضرت عیسیٰ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ حضرت عیسیٰ کو نبی تسلیم کیے بغیر تو اسلام پر ایمان ہی مشکوک ہوجاتا ہے تو پھر ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والے گردن زدنی کیسے ہوسکتے ہیں؟ جو مذہب ایک تھپڑ مارنے والے کو ایذا دینے کے بجائے اسے شرمندگی سے دوچار کرنے کے لئے دوسرا تھپڑ مارنے کی اجازت دیتا ہے اس کے بارے میں دوسروں کو گھٹیا سمجھنے کا الزام تہمت کے سوا کچھ نہیں۔ مذہب دوسروں کو صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کرنے کا حکم کیا دے گاوہ تو خود نیم خواندہ ملّا کے ہاتھوں مصلوب ہو چکا۔ ہاں مگر مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی ضمانت کسی کے پاس نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments