کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو


سٹالن زدہ (سٹالنسٹ کا لغوی معنی) روس کا ایک واقعہ ہے۔ ضلع کے سیاسی کارکنان کی ایک کانفرنس جاری تھی۔ روایت کے مطابق اختتام پہ کامریڈ سٹالن کی بے کراں شان میں تالیوں اور نعروں کا طوفانِ بدتمیزی گرم کیا جانا تھا۔ بندہ پرور تمام شرکاء نے تالیوں کے لیے ہاتھ اُٹھا تو لیے اب ہاتھ گرانے کی بیوقوفی یا گستاخی کس نے کرنی تھی؟ اسی کانفرنس میں پارٹی کے ضلعی سیکرٹری اور ایک مقامی کاغذ بنانے والی فیکٹری کے مالک بھی موجود تھے۔

دونوں حضرات لاچارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تالیاں بجائی جا رہے تھے۔ ہال میں NKVD (اسے روس کی وزارتِ داخلہ سمجھ لے ) کے غنڈے بھی موجود تھے اسی لیے پاگل کتے کے کاٹے ہوئے نے بھی تالیاں بجانے سے ہاتھ نہیں روکنے تھے۔ پانچ منٹ گزر گئے۔ قیامت کے آٹھ نو منٹ بھی گزر گئے مگر گیارہویں منٹ کے اختتام پر فیکٹری مالک کی ہمت جواب دے گئی اور انتہائی جسارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اپنی نشست پر یک دم بیٹھ گئے۔ اس غنیمت پر باقی حضرات بھی اناًفاناً بیٹھ گئے۔

سٹالنسٹ روس میں کسی بھی اقدام کو قابل گرفت بنایا جاسکتا تھا۔ کسی جگہ صفائی کے دوران کسی بھی کپڑے وغیرہ کو اٹھا کر سٹالن کے مجسمے پہ رکھنے یا سٹالن کے مجسمے کو صحیح طریقے سے نہ اُٹھانے کے لیے بھی قیدِ با مشقت مقرر تھی۔ زیادہ تر یہ سزائیں پینل کوڈ کے آرٹیکل 58 کے تحت دی جاتی جن کا عموما دورانیہ دس سال ہوتا۔ اسی نسبت سب سے پہلے تالیوں سے ہاتھ کھینچنے والے صاحب کو دس سال قید کی سزا دی گئی اور تفشیشی افسر نے سزا پہ دستخط لیتے ہوئے کہا، ’کبھی بھی تالیاں بجانے کے دوران ہاتھ سب سے پہلے ہاتھ مت روکنا۔

’ تالیوں سے روسیوں کی fetish اس دور کے اخبارات سے بھی لگائی جا سکتی ہے۔ جن میں تالیوں کی تفریق بھی کی گئی تھی۔ جوشیلی تالیاں گونجدار تالیوں سے مختلف تھی۔ سوویت یونین اور اس کی سیٹالائیٹس میں جو اشتراکیت اپنائی گئی وہ اتنی ہی اشتراکیت ہے جتنی پاکستانی جمہوریت، جمہوریت ہے۔ ہمارے ہاں ایک سوچ ہے جس کی رو سے اگر وہ ساری حرکتیں کی جائے جو کمیونسٹ چین یا السعود کے سعودیہ میں ہو رہی ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی اسی سال جاپان، ہانگ کانگ اور کوریا کو پیچھے چھوڑ دے گی اور قانون کا بول بالا ہوجائے گا۔

ہمارے وزیراعظم (اور وزیراعظم اس بات سے بے حد متاثر ہے کہ MBS کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا) کے نورِ نظر سعودی عرب کے شہزادے کے خلاف کوئی بات اس لیے نہیں کرسکتا کیونکہ وہ ایک تاناشاہ ہے۔ السعود خاندان کے بانکے جو چاہے کرے مگر پاکستان کا فی الحال الحمد اللہ کوئی مائی باپ نہیں۔ جالب کے بقول ’چین اپنا یار‘ ضرور ہے مگر جب وہاں Cultural Revolution اور Great Leap Forward جیسی مہلک بیماریاں پھیلی ہوئی تھی تقریباً اسی زمانے میں یہاں جالب ڈنکے کی چوٹ پہ آمر کو للکار کر ’دستور‘ گایا کرتے تھے اور فیض تب ’بازار سے پابجولاں گزرا کرتے تھے۔

’ ہمارے شاعر ادیب اور چینی ادیب Liu Xiaobo میں یہی فرق ہے کہ Liu جیل میں مرے مگر ہم نے کسی طاقت کے بھوکے کو ایسی کھلی چھوٹ کبھی نہیں دی کہ وہ ہمارے ادباء کو جیلوں میں مرواتا پھرتا بلکہ ہمارے ہاں یہ حرکت جبری گمشدہ کر کے کی گئی۔ (ببانگ دہل قتل کرنے اور جبری گمشدگی میں ابھی بہت فرق ہے۔ Liu Xiaobo کی عظمت سے انکار نہیں اور حقیقتاً یہ اسپتال میں پیرول پہ زیرِعلاج تھے جب ان کا انتقال ہوا) کالم کے شروع میں روس کا حوالہ اس لیے دیا تاکہ یہ بات شد و مد کے ساتھ کہی جاسکے کہ یہ ملک اتنا بے زباں نہ کبھی تھا اور نہ ہوگا کہ آپ کو ایسے تجربے کرنے دیے جائے۔

کچھ لوگ اس بحث کو اس طریقے سے لیتے ہیں کہ جن ممالک کو ہم نے اپنے ہومیوپیتھک علاج کے لیے منتخب کر رکھا ہے وہ کام فلاں فلاں ’تکنیکی‘ خرابیوں کی وجہ سے یہاں نہیں ہوسکتے تو عرض یہ ہے کہ میں اُس بحث میں نہیں پڑ رہا میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں ہمارا ابھی اتنا خدا حافظ نہیں ہوا کہ ملک کو آپ کی باندی بنا دیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماہرِ معاشیات 80 ء کی دہائی تک یہ کہہ رہے تھے کہ جلد روس امریکہ پہ سبقت لے جائے گا تو ہوسکتا ہے کہ جسے ہم اپنے لیے تریاق سمجھ رہے ہو وہ دراصل ’کورونا وائرس‘ ہو۔

تنقید، بحث اور احتجاج ظلم و زیادتی پر بین کرنے کے طریقے ہیں اور ظلم جیسی برائی کے علاج کا نام ہے۔ ان ضروری چیزوں کی راہ تنگ کر کے آپ اس ملک کو ضعیف اور کمزور کریں گے۔ اسی طرح ملک میں جتھے بندی ہوگی اور کچھ جتھوں کے پاس آپ کی ’غداری‘ سے کہیں گنا کاری اور ضرر رساں ہتھیار ہے۔ آپ کا antagonist پی ٹی ایم ہے اور ان کا ’زندگی تماشا‘ مگر وائے تقدیر کہ یہ دونوں پاپولزم یا لکی ایرانی سرکس کے کرتب کا نام نہیں۔

یہ دونوں شخصی آزادی کا نام ہے۔ آزادیِ اظہار، قانون، عدل اور احتجاج پہ لکھی کسی چوکھمبی کا نام ہے۔ Pericles نے ڈیموکریسی کو ایتھنز کے لیے باعث فخر کہا تھا کہنے کو دل تو نہیں مگر ہماری ڈیموکریسی تو شاید باعثِ پھٹکار ہے۔ اروندتھی رائے نے لکھا ہے کہ کشمیر میں ایک دفعہ احتجاج کے دوران انہوں نے ایک پوسٹر پر democracy کو Demon-Crazy لکھا ہوا دیکھا تھا شاید ہمارے پاس بھی یہی چیز ہے۔ کالم لکھنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ جہاں ہماری حالت سوویت یونین، یا کھمِر روج (Khmer Rogue) کے کیمبوڈیا والی نہیں ہے وہی ہماری حالت کوئی کم مخدوش بھی نہیں۔

جہاں کچھ انھی حالات میں انقلاب کا نقارہ بلند ہوتا ہے وہاں ہمارے مسائل ایسے گنجلک ہیں کہ بس۔ انقلاب تو انقلاب ہوتا ہے چاہے امریکی انقلاب ہو یا انقلابِ اکتوبر یا بسمل عظیم آبادی کے اشعار بول کر لا یا جانے والا چھوٹا سا انقلاب ہو مگر ہم تو کسی ایک کے لیے بھی راضی نہیں۔ آخر میں جالب صاحب کا ایک شعر ہی سنتے جائیے۔

کوئی تو پرچم لے کے نکلے اپنے گریباں کا جالب

چاروں جانب سناٹا ہے ویرانے یاد آتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments