بغداد کے پولیس اہلکار عبدالعزیز الناصر جنھیں سوشل میڈیا پر روزانہ بارہ ہزار سے زیادہ پیغامات موصول ہوتے ہیں


میجر عزیز نصر

یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ عراق بھی کبھی بچوں کی پرورش کے لیے ایک موزوں ملک بن سکے گا۔ عراق کی حالیہ جنگ کی تاریخ، بیرون قوتوں کے حملے، جبر اور فرقہ وارانہ لڑائیوں نے لوگوں کے ذہنوں پر شدید نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں۔

عدم توجہی اور غربت سے عراق کے قومی ادارے تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ملکی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے جبکہ غربت انتہا کو پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی قیادت عوام کی نظروں میں اپنا مقام کھو چکی ہے۔

عراق کی سڑکوں پر افراتفری کا راج ہے۔ ہزاروں عراقی شہری بدعنوانی اور سخت معاشی حالات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ردعمل میں سینکڑوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

اس سب کے دوران امید کی ایک کرن اب بھی باقی ہے۔

یہ حیرت انگیز امید بغداد کے ایک پولیس افسر میجر عبدالعزیز الناصر کی صورت میں ہے۔

مدد کی ہزاروں درخواستیں

میجر جو کہ خود کو محب وطن کہلاتے ہیں اور جن کا صرف کام میں دل لگتا ہے، نئی طرز کے پولیس کمانڈر ہیں جو کہ دیکھنے میں ’ماڈرن‘ لگتے ہیں، میڈیا سے بات کرنے کا گر جانتے ہیں اور ہر دم عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

پبلک افیئرز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے طور پر وہ سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں۔ کبھی کبھار انھیں ایک دن میں دس ہزار سے زیادہ پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں ان سے مدد یا مشاورت مانگی گئی ہوتی ہے۔

بغداد پولیس کے خراب تاثر کو عوام تک پہنچ کر دور کرنا ان کا مشن بن چکا ہے، وہ اس دوری کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو عوامی خدمات کے نظام کی عدم موجودگی میں پیدا ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عراق کے سُنی امریکہ کی جانب کیوں راغب ہو رہے ہیں؟

شام کا وہ گاؤں جہاں اب انسانوں سے زیادہ بلیاں آباد ہیں

انھیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔

صدام حسین کے دور میں بغداد پولیس کو اس ظالمانہ نظام کے لیے خدمات انجام دینا ہوتی تھیں۔ یوں پولیس بدعنوانی اور نااہلی کا استعارہ بن کر رہ گئی۔

عراق میں امریکہ کے خلاف ہونے والی عسکری کارروائیوں کے دوران پولیس کو بزدلی جیسے الزامات کا سامنا رہا کہ جب تک انھیں امریکی دستے میسر نہ ہوتے وہ اپنے تھانے سے باہر نکل نہیں سکتے تھے۔ اس سے پولیس کے محکمے کا تاثر مزید خراب ہوتا تھا۔

لیکن میجر عزیز پرامید ہیں اور اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

وہ پولیس کے مسائل سے متعلق حقائق کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اپنی محنت اور جانفشانی سے اس سب کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی اس لگن کو ان کے کمانڈر جنرل بھی تسلیم کرتے ہوئے انھیں ہر اس جگہ اور ہر اس مقدمے پر مامور کرتے ہیں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے۔

لاوارث بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کا مشن

اگر آپ بغداد میں ڈیوٹی پر ان کے ساتھ نکلیں تو آپ کا سامنا اس تاریکی سے ہوتا ہے جو وہاں ایک معمول ہے۔

جب ایک چار بچوں کی ماں کی طرف سے خود کشی کی کوشش کی گئی تو انھوں نے ان کو رہا کرنے سے پہلے ان کے خاندان سے بات چیت کی کہ کہیں وہ ان کو مار نہ دیں۔

خود کشی کی کوشش کو خاتون کے خاندان کی عزت پر حرف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

چند گھٹنے بعد میجر عزیز کو ایک مسجد کے قریب پانچ لاوارث بچے ملے، ان میں سے چھوٹا پانچ سال سے بھی کم عمر کا تھا۔ ان کی چچی مٹھائی لینے کے بہانے بچوں کو وہاں کھڑا کر کے گئیں اور پھر واپس نہیں آئیں۔

میجر عزیز، جن کے اپنے بچوں کو ابھی سیکھنے کی صلاحیتوں میں مشکلات کا سامنا ہے، یہ دیکھ کر رو پڑے اور کہا کہ اگر ان بچوں کے خاندان کا پتا نہ چل سکا تو پھر ایسے میں وہ ان کی پرورش خود کریں گے۔

بغداد

لاوارث اور عدم توجہی کا شکار بچے بغداد کا ابھرتا ہوا ایک مسئلہ ہے۔

بہت سے ایسے خاندان ہیں جو ان اپنے بچوں کو کھانا نہیں دے سکتے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ان خاندانوں کی کفالت کرنے والوں کی ہلاکت یا زخمی ہو جانے کی وجہ سے اس مسئلے میں شدت آئی ہے۔

میجر عزیز کا حوصلہ بلند ہے۔ ان کے کمانڈر نے انھیں عراق کی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ایک شخص کے قتل کے مقدمے کی تفتیش سونپی ہے۔

وہ شخص اپنے ایک کزن کو جرمنی میں شادی کی تقریب کے دوران قتل کر کے گھر بھاگ آیا تھا۔ اس شخص کے مطابق اس کی کزن نے شادی کی آفر قبول نہ کر کے اس کی بے عزتی کی تھی۔ اس شخص کو سزائی موت دی جانے کی صورت میں اس کا خاندان قبائلی روایات کے مطابق بدلہ لینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔

دونوں خاندانوں کے درمیان ہونے والے مذاکرت بھی تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔

تنازع کا حل

میجر عزیز کے کام کی رفتار جاری و ساری ہے۔

سٹی سینٹر میں ایک معمولی کار حادثے کی وجہ سے شدید ٹریفک جام ہوا تو کوئی بھی ڈرائیور اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔

میجر عزیز اس جگہ معاملہ فوری حل کروانے پہنچ گئے۔ انھوں نے حادثے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ اپنی جیب سے دینے کا اعلان کیا جس سے یہ معاملہ حل ہو گیا۔

ان حالات میں رقم لینا بے عزتی تصور کی جائے گی لہذا دونوں ہی ڈرائیوروں نے رقم لینے سے انکار کر دیا۔

ٹریفک جلد ہی رواں دواں ہو گئی۔

میجر عزیز نصر

ہر ہفتے میجر عزیز دو گھنٹے کی ایک کھلی کچہری کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے مدد لینے آسکیں۔ ایک بینائی سے محروم بوڑھی خاتون نے آ کر ان سے مدد مانگی۔ جب ان کے چھٹے بیٹے کی عمر پانچ سال تھی تو وہ بینائی سے محروم ہو گئیں تھیں۔ ان میں سے چار بیٹے جو پولیس افسر تھے وہ بغداد میں دو دہائیوں سے جاری پر تشدد واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان کا ایک اور بیٹا بھی پولیس کے محکمے میں ہے تاہم اس کی محدود آمدن خاندان کی 37 بیواؤں اور یتیم بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اسے تنخواہ کے ساتھ ایسی چھٹی دی جائے کہ وہ کوئی اور ملازمت کر کے اپنے بھائیوں کے بچوں کے لیے کما سکیں۔ یہ سنتے ہی میجر عزیز نے بوڑھی خاتون کو کہا کہ بس اب یہ معاملہ ان پر چھوڑ دیں۔

شہرت کی قیمت

ایک ہفتے بعد میجر عزیز اس خوشخبری کے ساتھ اس بوڑھی خاتون کے پاس گئے کہ ان کے بیٹے کی چھٹی منظور کر لی گئی ہے۔

لوگوں کی خدمت کے اس جذبے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی شہرت نے میجر عزیز کے دشمن بھی پیدا کیے ہیں۔ چند کم تر صلاحتیوں کے مالک پولیس والے ان کی شہرت سے حسد کرنے لگے ہیں۔

گذشتہ سال ستمبر میں انھیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ اس غم نے انھیں نڈھال کر دیا۔ خوش قسمتی سے دوستوں کی مداخلت پر وہ جلد بحال ہو گئے۔

عراق

بغداد کی زندگی میں جہاں زندہ رہنے کی جدوجہد روزمرہ کی حقیقت ہے وہاں ایسی محکمانہ چپقلش ایک معمولی بات ہے۔

لیکن یہ سب بڑے پرتشدد واقعات اور معاشرتی گراوٹ کا ایک پیش خمیہ تھا جو جلد ہی بغداد کو اپنی لپیٹ میں لینے والا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp