ریپ کی ویڈیو پورن ہب سے ہٹوانے کے لیے روز کلیمبا کی جدوجہد کی کہانی


Rose Kalemba

Rose Kalemba

انتباہ: یہ کہانی ایک پرتشدد جنسی حملے کے بارے میں ہے۔

روز کلیمبا جب 14 برس کی تھیں تو انھیں ریپ کیا گیا تھا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بلاگ میں بتایا کہ ان پر ہونے والے جنسی حملے کی ویڈیو ایک فحش مواد دکھانے والی ویب سائٹ سے ہٹوانا کتنا مشکل کام تھا۔ اس پوسٹ کے بعد درجنوں افراد ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انھیں بھی اسی طرح کا مسئلہ درپیش ہے۔

نرس ہسپتال میں روز کے کمرے کے دروازے پر رکیں اور اسے دیکھ کر لرزتی ہوئی آواز میں بولیں ’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے ساتھ ایسا ہوا۔ میری بیٹی کا بھی ریپ ہوا تھا۔‘

روز نے نرس کی طرف دیکھا۔ انھیں خیال آیا کہ اس نرس کی عمر 40 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔

وہ خود پر ہوئے جنسی حملے کی اگلی صبح پیش آنے والے واقعات کے بارے میں سوچنے لگیں، جذبات سے عاری پولیس افسران کی باتوں سے لے کر ڈاکٹروں کی بات چیت تک۔ جب روز نے انھیں گذشتہ رات پیش آنے والے پرتشدد اور گھنٹوں پر محیط حملے کی تفصیلات بتائیں تو ہر کوئی اس حملے کے لیے ’مبینہ‘ کا لفظ استعمال کر رہا تھا۔ ان کی والد اور دادی کے سوا ان کے بہت سے رشتہ دار بھی ان کی بات پر یقین نہیں کر رہے تھے۔

مگر نرس کے حوالے سے یہ مختلف تھا۔ روز کہتی ہیں کہ ’انھیں (نرس) میری بات کا یقین تھا۔‘

یہ مبہم سی امید تھی، امید اس طرح کہ کوئی ان کے ساتھ پیش آئے واقعے کو درست تسلیم کر رہا تھا۔ اطمینان کی لہر ان کے جسم میں دوڑ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ یہ ان کے صحت یاب ہونے کے عمل کا آغاز تھا۔

مگر جلد ہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے انھیں ریپ ہوتا دیکھنے والے تھے اور ان میں سے کوئی بھی ان سے ہمدردی کا اظہار نہیں کرنے والا تھا۔

ایک دہائی بعد، روز کلیمبا غسل خانے میں آئینے کے سامنے کھڑی اپنے لمبے سیاہ بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں۔ بالوں کے سِروں کو اپنی پر انگلیوں گھما کر وہ انھیں گنگھریالا بنا رہی ہیں۔ ان پر ہونے والے جنسی حملے کے مہینوں بعد تک ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان کے گھر کے تمام آئینے چادروں سے ڈھک دیے گئے تھے کیونکہ وہ ان میں اپنا عکس دیکھنا برداشت نہیں کر پاتی تھیں۔

اب وہ 25 برس کی ہیں اور انھوں نے روزمرہ زندگی میں اپنی دیکھ بھال کے معمولات بنا لیے ہیں۔

بالوں کی دیکھ بھال ان میں ایک ہے۔ بالوں میں کنگھی کرنے میں کوشش اور وقت لگتا ہے، یہ مراقبے کے عمل جیسا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے بال خوبصورت ہیں کیونکہ لوگ ہمیشہ ان کے بالوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

ہر صبح وہ اپنے لیے کیکاؤ کا کپ تیار کرتی ہیں۔ کیکاؤ خالص چاکلیٹ کافی ہے اور روز کو یقین ہے کہ اس میں شفا بخش خصوصیات ہیں۔ اس کے بعد وہ ڈائری میں اپنے مقاصد و عزائم تحریر کرتی ہیں۔

وہ جانتے بوجھتے انھیں زمانۂ حال میں تحریر کرتی ہیں۔

ان کے چند مقاصد یہ ہیں: ’میں بہت اچھی ڈرائیور ہوں۔` ’رابرٹ کے ساتھ میری ازدواجی زندگی خوش باش گزر رہی ہے۔‘ یا پھر ’میں ایک اچھی ماں ہوں۔‘

بات چیت کے دوران روز اپنے بال اپنے کندھوں پر پھیلا لیتی ہیں جس سے ان کے جسم کا بیشتر حصہ چھپ جاتا ہے۔ یہ ان کے لیے زرہ بکتر جیسا ہے۔

اوہایو کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پلی بڑھی روز کے لیے سونے سے قبل اکیلے چہل قدمی کے لیے گھر سے نکل جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ شام کی سیر سے انھیں ذہنی سکون ملتا اور وہ تازہ ہوا اور سکوت کا مزہ لیتیں۔

اس لیے سنہ 2009 کے موسم گرما کی وہ شام 14 سالہ روز کے لیے عام دنوں کی طرح تھی۔

روس

Rose Kalemba
روز کی نوعمری میں لی گئی ایک تصویر

مگر پھر اچانک ایک آدمی ان کے سامنے آیا۔ اس نے روز کو چاقو کی نوک پر گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی انھوں نے ایک دوسرے شخص کو دیکھا جس کی عمر 19 برس ہو گی۔ وہ اس سے قبل بھی اس شخص کو قصبے میں دیکھ چکی تھیں۔

وہ روز کو قصبے کے دوسرے کونے پر موجود ایک گھر میں لے گئے اور اگلے 12 گھنٹوں تک انھیں ریپ کرتے رہے جبکہ ایک تیسرا شخص اس عمل کی ویڈیو بناتا رہا۔

روز صدمے میں تھیں، انھیں سانس لینے میں انتہائی مشکل پیش آ رہی تھی۔ انھیں بری طرح مارا پیٹا گیا تھا، ان کے کپڑے خون آلود تھے جبکہ ان کی بائیں ٹانگ پر چاقو مارا گیا تھا۔ ان پر غشی کا عالم طاری تھا۔

اس واردات کے دوران ان میں سے ایک شخص نے لیپ ٹاپ نکالا اور روز کو دوسری خواتین پر اسی طرح کیے گئے جنسی حملوں کی ویڈیوز دکھائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں قدیم قبائل کی نسل سے ہوں۔ حملہ آور سفید فام تھے۔ حملہ آوروں کی چند متاثرین سفید فام لڑکیاں تھیں مگر زیادہ تر سفید فام نہیں تھیں۔‘

بعد ازاں ان لوگوں نے روز کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ اپنے حواس یکجا کرتے ہوئے روز نے ان سے بات چیت کی ابتدا کی۔ روز نے کہا کہ اگر وہ انھیں جانے دیں گے تو وہ ان کی شناخت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کریں گی۔ انھیں (حملہ آوروں) کبھی کچھ نہیں ہو گا، کسی کو اس بارے میں کبھی معلوم نہیں ہو گا۔

اس واقعے کے بعد حملہ آوروں نے انھیں واپس گاڑی میں بیٹھایا اور ان کے گھر سے ڈیڑھ گھنٹہ پیدل کی مسافت پر گاڑی سے اتار دیا۔

دروازے سے اندر داخل ہوتے وقت انھیں ہال میں لگے ایک آئینے میں اپنا عکس نظر آیا۔ ان کے سر پر لگی چوٹ سے خون بہہ رہا تھا۔

ان کے والد رون اور گھر کے دیگر افراد کھانے کے کمرے میں ظہرانے کے لیے بیٹھے تھے۔ چاقو سے لگے گھاؤ سے خون بہہ رہا تھا اور اسی حالت میں انھوں نے گھر والوں کو اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کے متعلق بتایا۔

روز کہتی ہیں کہ ’میرے والد نے پولیس کو فون کیا۔ انھوں (والد) نے مجھے تسلی دی، مگر گھر کے دیگر افراد نے کہا کہ میرے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ میں رات گئے باہر واک پر جاتی تھی۔‘

ہسپتال کے ایمرجنسی روم پر روز سے ملاقات کے لیے ایک پولیس افسر اور مرد ڈاکٹر موجود تھے۔

’وہ مجھ سے ایسے برتاؤ کر رہے تھے جیسے وہ جذبات سے عاری ہوں۔ (ان کے رویے میں) نہ تو ہمدردی تھی نہ تپاک۔‘

مرد پولیس افسر نے روز سے پوچھا کہ آیا اس سارے واقعے کی شروعات باہمی رضامندی سے ہوئی تھی۔ اس نے پوچھا کہ کیا یہ ایک ایسی رات تھی جس کا اختتام غلط انداز میں ہوا۔

روز ہکا بکا رہ گئیں۔ ’مجھے مار مار کر ناقابل شناخت بنا دیا گیا تھا۔ چاقو مارا گیا اور خون بہہ رہا تھا۔‘

روز نے انھیں بتایا کہ ایسا نہیں ہے اور یہ سب باہمی رضامندی سے نہیں ہوا۔ اپنے اوپر بیتے واقعے کو سوچتے ہوئے روز نے کہا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتیں جنھوں نے ان پر حملہ کیا۔ اس صورتحال میں پولیس کے پاس تفتیش میں آگے بڑھنے کے شواہد نہیں تھے۔

جب اگلے دن روز کو ہسپتال سے فارغ کیا گیا تو انھوں نے خودکشی کی کوشش کی، انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس واقعے کے بعد وہ عام طور طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل کیسے ہو پائیں گی۔ خوش قسمتی سے ان کے بھائی کو خودکشی کی کوشش کا بروقت علم ہو گیا۔

لائن

چند ماہ بعد انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران روز کو معلوم ہوا کہ ان کے سکول کے بہت سے بچے ایک لنک شیئر کر رہے ہیں۔ اس لنک میں انھیں بھی ٹیگ کیا جا رہا تھا، اس لنک پر کلک کر کے روز فحش مواد کی مشہور ویب سائٹ ’پورن ہب‘ پر پہنچ گئیں۔ روس کو متلی محسوس ہوئی کیونکہ وہاں ان پر ہونے والے جنسی حملے کی بہت سی ویڈیوز موجود تھیں۔

ان ویڈیوز کے عنوانات فحش اور پرتشدد انداز میں کیے گیے جنسی عمل کی تشہیر کر رہے تھے۔ روس کہتی ہیں کہ ’ان میں سے ایک ویڈیو کو چار لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا تھا۔‘

’بدترین ویڈیوز وہ تھیں جن میں میں ہوش کھو بیٹھتی ہوں۔ اپنے آپ پر اس وقت حملہ ہوتے دیکھنا جبکہ میں ہوش میں بھی نہیں ہوں سب سے بدتر تھا۔‘

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp