‘اس زندگی کا کیا فائدہ جب میں اپنے بچوں کا پیٹ ہی نہیں بھر سکتی؟ ‘


Prema with her son

مایوسی، بیتابی اور بھوک کا سامنہ کرنے والی پریما آخرکار ایک دن ایک مشکل نتیجے پر پہنچیں، انھوں نے اپنے بال بیچ دیے۔

‘میرا سات برس کا بچہ کلیاپن ایک دن سکول سے آیا اور مجھ سے کھانے کا پوچھا۔ پھر وہ بھوک کے مارے رونا شروع ہوگیا۔’

یہ الفاظ ہیں بھارتی ریاست تمل ناڈو میں رہنے والی 31 برس کی پریما سیلوم کے۔ ان کے پاس اپنے سات برس کے بچھ کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا اور وہ بہت مایوس تھیں۔

پریما نے کچھ پکایا نہیں تھا کیونکہ ان کے پاس کچھ پکانے کے لیے تھا ہی نہیں۔ مایوسی، بیتابی اور بھوک کا سامنا کرنے والی پریما آخرکار ایک دن ایک مشکل نتیجے پر پہنچیں۔ ان کے اس فیصلے سے وہاں رہنے والی مقامی آبادی بھی حیران ہوئی۔

انڈیا کے امیر لوگ خیرات کم کیوں دیتے ہیں؟

غربت قیدیوں کی قانونی جنگ کی راہ میں بھی رکاوٹ

Prema standing in front of a brick kiln with her three sons

اپنے بچوں کی بوکھ دیکھ کر پریما سے رہا نہیں گیا

‘دل ٹوٹ گیا’

‘میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں تھا، مجھے اندر سے بہت تکلیف ہورہی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا تھا، میں نے سوچا کہ اس زندگی کا کیا فائدہ جب میں اپنے بچوں کا پیٹ ہی نہیں بھر سکتی؟’

پریما کے پاس بیچنے کے لیے زیور تھا اور نہ قیمتی اشیا۔ حالات اتنے برے تھے کہ ان کے پاس باورچی خانے میں برتن بھی نہیں تھے جنھیں وہ بیچ کر کھانے پینے کا سامان خرید لیتیں۔

‘میرے پاس دس روپے کا نوٹ بھی نہیں تھا۔ میرے پاس صرف پلاسٹک کی کچھ بالٹیاں تھیں’۔

لیکن پھر پریما کو یہ احساس ہوا کہ ان کے پاس ایسا کچھ ہے جسے وہ فروخت کرسکتی ہیں۔

‘150 روپے میں اپنے بال فروخت کردیے’

A Hindu devotee donating her hair at a temple in South India

بہت سے ہندو عقیدت مند مندروں میں اپنے بالوں کو نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہیں

‘مجھے یاد آیا کہ ایک دکان ہے جو بال خریدتی ہے۔ میں وہاں گئی اور 150 روپے میں اپنے سر کے پورے بال فروخت کردیے‘۔

انسانی بالوں کا کاروبار دنیا بھر میں ہوتا ہے اور انڈیا اس شعبے میں ایک بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ جب بال بک جاتے ہیں تو انھیں آپس میں جوڑ کر نقلی بال یا وِگ اور ‘ہیر ایکسٹینشن’ یعنی کہ بالوں کو مصنوعی طریقے سے لمبہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بہت سے ہندو عقیدت مند مندروں میں اپنے بالوں کو نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اس سے ان کی دعائیں قبول ہوں گی۔ ان بالوں کو مندروں سے خرید کر ڈیلر باہر ملکوں میں بیچتے ہیں۔

خاوند کی خودکشی

Prema standing in the front of here home

پریما بہت عرصے تک اپنے شوہر کے ساتھ اینٹوں کے بھٹے میں کام کرتی رہیں، اس سے دونوں میاں بیوی اتنا کم لیتے کہ ان کا بمشکل گزارا ہوجاتا

پریما کو جو پیسے ملے اس سے ایک متوسط طبقے کے لیے بنائے گئے ہوٹل میں، ایک وقت کا کھانا ہی کھایا جا سکتا ہے۔

لیکن اپنے گاؤں میں وہ اس سے بہت کچھ خرید سکتی ہیں۔ ‘میں نے پکے ہوئے چاولوں کے تین پیکٹ خریدے۔ ایک پیکٹ 20 روپے کا تھا۔’

انھوں نے اپنے بچوں کو کھانا کھلایا لیکن یہ صرف وقتی آرام تھا۔ انھیں پتہ تھا کہ وہ اپنا آخری طریقہ استعمال کرچکی ہیں اور اب ایک بار پھر بچوں کا پیٹ بھرنے کی پریشانی شروع ہوگئی۔

اس وقاعے سے قبل پریما بہت عرصے تک اپنے شوہر کے ساتھ اینٹوں کی بھٹی میں کام کرتی رہیں، اس سے دونوں میاں بیوی اتنا کما لیتے تھے کہ ان کا بمشکل گزارا ہو جاتا۔

ان کے شوہر نے اپنی بھٹی لگانے کے لیے قرضہ لیا لیکن وہ ایسا کر نہیں پائے اور مایوس رہنے لگے۔ ان کے پاس کبھی پیسے نہیں ہوتے تھے اور وہ ہر وقت پریشان رہتے۔ کچھ عرصہ بعد ان سے رہا نہیں گیا اور انھوں نے خود کو آگ لگا کر مار ڈالا۔

اپنے بالوں کو بیچنے کے بعد پریما کے پاس نہ تو کوئی اور راستہ تھا اور نہ ہی سہارا، انھوں نے بھی خاوند کے نقشِ قدم پر چلنے کا سوچا۔

خودکشی کی کوشش

‘میں دکان پر گئی اور میں نے ان سے کیڑے مارنے والی دوائی مانگی۔’

لیکن انھیں پریشانی کی اس حالت میں دیکھ کر دکاندار نے وہاں سے جانے کو کہا۔

وہ گھر آئیں اور انھیں کچھ اور سوجھا۔ انھوں نے کنیر کے پودے کو اکھاڑا اور اس کے بیج جمع کر کے اسے پیسنا شروع کردیا تاکہ وہ پیسٹ بنا سکیں۔

خوش قسمتی سے ان کی بہن جو ان کی پڑوسن بھی ہیں آگئیں اور انھیں یہ زہریلا پیسٹ کھانے سے روک لیا۔

پریما کہتی ہیں ان کے خاوند نے جو قرضہ لیا تھا اسے واپس کرنے کے لیے ان پر بہت دباؤ تھا۔

مزدوری

پریما اپنے بچوں کے ساتھ

بال فروخت کرنے کے بعد پریما کو فوراً رقم ملی جس سے انھوں نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرا

پریما اپنے شوہر کی موت کے بعد گھر کی واحد کفیل تھیں۔ وہ اپنے شوہر کی طرح اینٹوں کے بھٹے میں کام کرتی ہیں، ایک بہت سخت مزدوری کا کام ہے لیکن اس میں کمائی کھیتوں میں کام کرنے سے ملنے والے پیسوں سے زیادہ ہے۔

‘مجھے اینٹوں کے کام سے دن کے 200 روپے مل جاتے۔ یہ میرا گھر چلانے کے لیے کافی ہیں’۔

وہ عمومًا اپنے بیٹوں کو کام پر اپنے ساتھ لے جاتی ہیں کیونکہ دونوں بچوں کی ابھی سکول جانے کی عمر نہیں۔ لیکن اپنے بال فروخت کرنے سے پہلے، تین ماہ تک وہ بہت بیمار تھیں اور زیادہ کام کرنے کے قابل نہیں تھیں۔

‘میں وزنی اینٹیں نہیں اٹھا پاتی، مجھے بہت بخار ہوتا اور میں گھر میں ہی رہتی’۔

پریما قرضوں کی ادائیگی وقت پر نہیں کر پارہی تھیں۔ قرض دار ان پر دباؤ ڈالنے لگے اور ان کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا۔

وہ بلکل پڑھی لکھی نہیں تھیں تو انھیں پتہ نہیں تھا کہ حکومت نے ان جیسے لوگوں کے لیے مختلف سکیمیں متعارف کروائی ہوئی ہیں۔

انڈیا کا بینکنگ سسٹم بہت پیچیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ غریب طبقے کے لوگوں کے لیے مناسب ریٹ پر قرضہ لینا اتنا آسان نہیں۔

پریما اور ان کے خاوند نے مقامی قرض داروں اور ہمسائیوں سے پیسے لیے تھے۔ لیکن اس طرح کے قرضوں میں سود زیادہ ہوتا ہے۔

غیب سے مدد

Bala Murugan with Prema

بالا مروگن نے پریما کے لیے ایک دن میں فیسبک پر عطیات کے ذریعے ایک لاکھ 20 ہزار کی رقم اکھٹا کرلی

کچھ ہی دن بعد جب پریما کے پاس کچھ نہیں بچا تھا ایک اجنبی نے ان کی مدد کی۔

بالا مروگن نامی یہ شخص کہتے ہیں ‘میں نے پریما کے بارے میں اپنے دوست پربھو سے سنا۔ جو کہ اس علاقے میں اینٹوں کے بھٹے کے مالک تھے۔’

پریما کی تکلیفوں نے بالا کو اپنے خاندان کے مشکل ترین وقت کی یاد دلا دی۔ بالا کو پتہ تھا کہ کیسے غربت انسان کے اوسان خطا کردیتی ہے۔

‘جب میں دس برس کا تھا تو ہمارے خاندان کے پاس کھانا ختم ہوگیا۔ میری ماں نے ہماری پرانی کتابیں اور اخبار بیچ کر کچھ چاول خریدے۔’

بالا کی ماں بھی مایوسی کی وجہ سے خود کو اور اپنے بچوں کو مارنے کا سوچ رہی تھیں۔ ‘مجھے یاد ہے کہ میری ماں نے سب کو ایک قطار میں کھڑا کیا اور زہر کی گولیاں کھائیں، اس کے بعد میری بہن کی باری آئی، جب میری بہن گولیاں نگلنے والی تھی تو میری ماں نے اسے روک لیا۔’

بالا کی ماں نے آخری لمحے میں اپنا ارادہ تبدیل کردیا۔ ان کا خاندان بالا کی ماں کو ہسپتال لے گیا جہاں ڈّاکٹروں نے ان کی جان بچائی۔

اس واقعے کے بعد بالا نے سالوں محنت کی اور غربت کے چنگل سے نکل کر اپنا ایک کمپیوٹر گرافکس سینٹر بنایا۔

ایک دوست کی نصیحت

بالا نے پریما کو اپنی کہانی بتائی، اور یہ بھی بتایا کہ امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

اپنے دوست پربھو کے ساتھ مل کر انھوں نے پریما کے لیے کچھ کھانا خریدا۔ پھر بالا نے ساری کہانی فیس بک پر لکھ کر لگا دی۔

‘ایک دن کے اندر میرے پاس ایک لاکھ بیس ہزار عطیات کی شکل میں آئے۔ جب میں نے پریما کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور مجھ سے کہا کہ یہ قرضے کا بڑا حصہ اتارنے کے لیے کافی ہے۔’

لیکن عطیات کا یہ سلسلہ پریما کے کہنے پر روک دیا گیا۔

بالا کہتے ہیں کہ پریما نے کہا کہ وہ کام پر واپس جائیں گی اور باقی قرضہ خود واپس کریں گی۔ انھیں اب مختلف قرض داروں کو صرف سات سو روپے ماہانہ واپس کرنے ہیں۔

پریما کے حالات دیکھ کر ضلعی حکام نے بھی مدد کی پیشکش کی ہے اور انھیں ایک دودھ کی دکان کھول کر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے پریما کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ انڈیا کی معاشی ترقی کے باوجود لاکھوں لوگ کو ایک وقت کا کھانا تک نصیب نہیں ہوتا۔

عالمی بینک کے مطابق انڈیا شدید غربت میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ نائیجیریا اس میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس زمرے میں وہ ملک آتے ہیں جہاں لوگ دن میں دو ڈالر سے کم کماتے ہیں۔

پریما کا شمار غریب طبقے میں بھی سب سے نچلے حصے میں ہوتا ہے۔

ایک نئی زندگی

Prema sitting infront of her home

پریما کہتی ہیں کہ انھیں اپنا سر منڈوا کر کوئی افسوس نہیں

بالا مروگن نے پریما کو اپنے تعاون اور مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

‘مجھے اب پتہ چلا کہ خود کو مارنے کا فیصلہ کتنا غلط تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میں باقی قرضہ خود اتار دوں گی۔’

وہ کہتی ہیں کہ اجنبی لوگوں کی مدد کے بعد وہ بہت جذباتی ہوگئی تھیں، لیکن انھوں نے اس مدد کو قبول کیا اور اس سے انھیں نئی زندگی ملی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp