#SuperBowl2020: پراعتماد عورت سے لوگوں کو مسئلہ کیوں؟


جینفر لوپز اور شکیرا

حال ہی میں سپر باؤل 2020 کے ہاف ٹائم شو میں گلوکارہ جینیفر لوپیز اور شکیرا کی پرفارمنس کو جہاں بہت سے لوگوں نے پسند کیا وہیں بہت سے لوگ ان دونوں سیلیبرٹیز پر تنقید کرتے بھی نظر آئے۔ کسی نے ان کے لباس پر سوال اٹھائے تو کوئی ان کی عمر کے بارے میں مذاق کرتا نظر آیا اور ابھی تک یہ معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔

لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ خواتین کو ان کے لباس، انداز یا طرز زندگی پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

صرف یہی نہیں اکثر خواتین کو کسی اہم مسئلے پر آواز بلند کرنے اور خود اعتمادی سے اپنی رائے کا اظہار کرنے پر بھی انتہائی ذاتی قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک خاتون جب اپنی مرضی سے یا اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟

کیا ایک بااعتماد عورت سے لوگ کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں اور ان معاشرتی رویوں کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ بی بی سی نے انھی سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے چند خواتین سے بات کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین کی عمر آخر اتنا بڑا ’مسئلہ‘ کیوں؟

پاکستان میں شادی عورت کی ’کامیابی‘ کا پیمانہ کیوں

’عورت ریپ کرنے کی برابری نہیں مانگ رہی‘

پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ثمر من اللہ خان کا کہنا ہے کہ ’ہماری سوسائٹی میں بااعتماد عورت کو، جو خوش ہو، زندگی کو انجوائے کرتی ہو، کبھی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی اس کی تعریف کی جاتی ہے۔‘

میڈیا کے کردار پر بات کرتے ہوئے ثمر من اللہ نے کہا کہ میڈیا عورت کو صرف اور صرف ظلم کا شکار ظاہر کرتا ہے، جو ظلم کو سہہ رہی ہے، جس کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔

’ہماری سوچ پر ڈراموں اور فلموں کا اثر ہوتا ہے، تعلیم یافتہ، خوش اور پراعتماد خواتین کو کبھی بھی اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔‘

عورت مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے ثمر من اللہ نے کہا کہ اس مارچ پر تنقید کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نوجوان لڑکیوں نے اپنے طریقے سے اپنے مسائل اور حق کے لیے آواز اٹھائی۔

’لوگوں کو جو بات سب سے بری لگی وہ یہ تھی کہ وہ خواتین با اعتماد تھیں، بہادر تھیں تو لوگوں کو وہ خطرہ لگتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ کام کرنے والی اور خود اعتماد خواتین کو اکثر منفی انداز میں دیکھا جاتا ہے، خواتین کو اپنی رائے دینے پر عمر کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے اور ان کو عورت ہونے کا بھی طعنہ ملتا ہے۔‘

’صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں امریکہ اور یورپ میں بھی جب عورت آواز اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے اس کے لباس کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اور اس پر ذاتی حملے کیے جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ صرف پاکستانی سوسائٹی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کسی بھی سوچنے والی عورت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

عورت

’عورت اگر سوچتی ہے، آواز اٹھاتی ہے اور اگر اپنے جائز حق کے لیے بھی آواز اٹھائے گی تو اسے پھر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کتنی ہی خواتین ہیں جو جائیداد میں اپنا حق مانگنے کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور جہاں وہ اپنا یہ حق مانگتی ہیں انھیں برا بھلا کہا جاتا ہے۔

ان رویوں میں تبدیلی لانے پر بات کرتے ہوئے ثمر نے کہا کہ ہمیں خواتین رول ماڈل کو قومی سطح پر سامنے لانے کی ضرورت ہے، ہمیں لوگوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ خواتین نے بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور پھر یہ یہاں تک پہنچی ہیں، لیکن افسوس کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بھی ان خواتین کو گالیاں دی جاتی ہیں۔‘

مدیحہ جاوید قریشی ایک نجی فرم میں شعبہ تعلقات عامہ کی سربراہ ہیں۔ مدیحہ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ شادی سے پہلے بھی وہ کام کرتی تھیں اور جب ان کے لیے رشتہ تلاش کیا جا رہا تھا تو لوگوں کی رائے یہی تھی کہ گھر میں رہنے والی خواتین ہی اچھی بیوی بن سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اب شادی اور بچے کے بعد بھی کام کر رہی ہیں اور اب بھی اکثر لوگ انھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک گھر اور بچے کی دیکھ بھال ہی میرا کام ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ایسا صرف ان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جہاں عورت کے روایتی کردار کو بدلنے کی بات یا کوشش کی جاتی ہے وہاں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’عورت اور مرد کے روایتی کردار اب آہستہ آہستہ بدلنے لگنے ہیں لیکن معاشرے کو اس کی عادت نہیں ہے، اور اس کو بدلتا دیکھ کر لوگوں کو اس میں مسئلہ نظر آتا ہے اور وہ شور مچاتے ہیں کہ ایسا ہو کیسے سکتا ہے؟

’عورت کی مرضی کیسے ہو سکتی ہے، لوگوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے، پہلے مرد کے پاس اختیار تھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ کہاں جانا ہے، کس ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، کیا کپڑے پہننے ہیں، کن چیزوں پر پیسے خرچ کرنے ہیں لیکن اب یہ بدل رہا ہے۔ عورت کے معاشی طور پر خود مختار ہونے سے اب اس کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار آ گیا ہے جو پہلے نہیں تھا۔‘

مدیحہ کہتی ہیں کہ عورت اور مرد کے روایتی کرداروں کو چیلنج کرنے والی خواتین کو مثبت انداز میں سامنے لانے کی ضرورت ہے، ان پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ان پر تنقید کرنے کی بجائے ان سے متاثر ہو سکیں۔

سپر باؤل میں جینیفر لوپیز اور شکیرا کی پرفارمنس پر بات کرتے ہوئے مدیحہ کا کہنا تھا کہ ان پر تنقید کی وجہ یہ ہے کہ اس شو میں مائیکل جیکسن بھی پرفارم کرتے رہے ہیں، ان کا بھی ڈانس کا ایک مخصوص انداز تھا لیکن جب عورت ایسا کرتی ہے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ لوگ عورت کو ایسے دیکھنے کے عادی نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp