سائل کو خالی نہ لوٹاؤ! (سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ)


تحریر: انیلا ”نیل“ میرانی ۔۔۔ ترجمہ: یاسر قاضی

* * * * *

اُس دن گرمی کی شدّت اپنے عروج پر تھی اور شام ڈھلنے کے باوجود تپش ابھی تک برقرار تھی۔ لیکن موسموں کی سختی ہمیشہ غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہی ہوا کرتی ہے اور ان ہی کو جھیلنی پڑتی ہے۔ امراء کی لُغت میں تو شاید اس چیز کا نام و نشان ہی نہیں ہوتا کہ ان کی دولت موسمِ گرما کو سرما اور جاڑے کو گرمیوں میں بدلنے کی قُوّت رکھتی ہے۔

ثناء اپنی سہیلی زینت کے ساتھ سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ مال میں داخل ہوئی۔ گاڑی سے اتر کر مال میں داخل ہونے کے تھوڑے سے فاصلے نے بھی دونوں کے پسینے نکال دیے۔ شاپنگ مال میں داخل ہوتے ہی ثناء نے ایک گہرا سانس لیا اور زینت سے کہنے لگی: ”یار زینی! یہ غریب لوگ، اے سی کے بغیر آخر جی کیسے لیتے ہیں؟ اُف۔ الا۔ توبہ! “

ثناء! ایسے نہ کہو! آخر تو وہ بھی انسان ہیں۔ ”زینت نے ناصحانہ لہجے میں ثناء کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔

”یار! اب لیکچر دینے مت بیٹھ جانا، چلو چل کر وہ نیک کام کریں، جس کے لیے ہم آئے ہیں۔ “

ثناء کو ایسی نصحتیں سُنی اَن سُنی کر دینے کی عادت تھی، اسی لیے زینت حسبِ معمُول افسوس میں صرف اپنا سَر جھٹکتی رہی۔

چمکتا سورج اپنی آب و تاب کھو رہا تھا۔ مغرب کی جانب آسمان پر شفق کی لالی نظر آنے لگی تھی۔ دوسری جانب شاپنگ مال کی روشنیاں ماحول کو جگمگانے کی تیاریوں میں تھیں۔

”سائل کو خالی نہ لوٹاؤ بیٹی! اللہ کے نام پر دیتی جاؤ! “

ثناء، جو زینت کے ساتھ کسی بات پر قہقہے لگاتی ہوئی شاپنگ مال سے باہر نکل رہی تھی، اچانک سامنے آتے ہوئے فقیر کی صدا سن کر چونک گئی، نت نئی برانڈز کے کپڑے اور دوسرے سامان کے تھیلے اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئے، سامان بکھر گیا۔ وہ جلدی جلدی بکھرا ہوا سامان سمیٹنے لگی۔

”یہ کیا طریقہ ہے! خیرات ایسے مانگی جاتی ہے؟ نہ تمیز نہ تہذیب۔ “

اور بھی بہت کچھ جو اس کے منہ میں آیا، وہ کہتی ہوئی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرا غصّے میں لال ہو چکا تھا۔

گاڑی سے باہر جو اس نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ اس کا ڈرائیور فقیر کو خاموشی سے پانچ روپے کا سکّہ تھما رہا تھا، فقیر خیرات پا کر صدا لگاتا ہوا چلا گیا۔ ثناء کو تو جیسے آگ لگ گئی۔ کھڑکی کا شیشہ نیچے اتار کر ڈرائیور کو اپنے پاس بُلایا۔ ڈرائیور رشید مالکن کی آواز پر ”جی بی بی جی۔ آیا۔ “ کہہ کر بھاگ کر گاڑی میں جا بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔

”رشید تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ناں؟ ان فقیروں کو تم جیسے لوگوں نے ہی خراب کیا ہے۔ نہ تم ان کو پیسے دو، نہ ہی یہ بھیک مانگیں گے۔ “ ثناء مسلسل غصّے میں بولے جا رہی تھی۔ ڈرائیور ”جی بی بی جی۔ “ بول کر چُپ چاپ گاڑی چلانے لگا۔ ثناء سے بحث کا مطلب، اس کا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا تھا۔ کچھ ہی دیر میں جب دونوں سہیلیاں گپ شپ میں مصروف ہو گئیں، تو رشید نے سکھ کا سانس لیا اور خاموشی سے گاڑی چلانے لگا۔

ثناء، شہر کے مشہور بزنس مین، سیٹھ کامران کی اکلوتی بیٹی تھی۔ سیٹھ کامران کی دولت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ والد کے انتقال کے بعد جائیداد کی تقسیم میں سیٹھ کے حصّے میں دو کارخانے آئے تھے، جو تب تک بڑھ کر دس ہو گئے تھے۔ وہ ایسا تاجر تھا، جس کے لیے شہر میں مشہور تھا کہ ’سیٹھ کامران کے پاس اتنی دولت ہے، کہ خود اُسے بھی معلُوم نہیں۔ ‘ سیٹھ کامران کی واحد اولاد ثناء ہی تھی، جس کی تربیت اُس نے بڑے لاڈ پیار سے کی تھی۔

اپنی اس لاڈلی بیٹی کی تربیت کے دوران اس نے اس بات کا خیال ہی نہیں رکھا تھا، کہ ثناء کی تربیت میں کتنی کوتاہی ہو رہی ہے۔ بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے ثناء کی شخصیت میں خُود سری، خُود پسندی اور نرگسیت سرایَت کر چکی تھی، مگر یہ احساس سیٹھ کامران یا اس کی بیوی کو کیسے رہتا، جو دن رات بس اپنی دولت کو بڑھانے کے چکر میں ہی مگن رہتے تھے۔

یہ مُصمّم حقیقت ہے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ گھڑی کے کانٹے عُمدہ گھوڑوں کے پیروں کی طرح مُسلسل ’ٹِک۔ ٹِک۔ ‘ کر کے چلتے رہے۔ موسم بھی تیزی سے بدلتے رہے۔ سب کچھ بدلا۔ اگر کچھ نہ بدلا، تو وہ تھیں ثناء کی عادات۔

ایک دن اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، جب اُسے اطلاع ملی کہ اس کے والدین ایک ساتھ ایک حادثے میں لقمہء اَجل بن گئے ہیں۔ والدین کا مرنا کیا تھا، ثناء کی دنیا ہی بدل گئی۔ ایک بہت بڑی ملکیت، جس کی اس کے والدین کو بھی ٹھیک سے خبر نہیں تھی، وہ ثناء سے بھی اوجھل ہو گئی۔ والدین کے اس طرح اچانک انتقال کے ایک سال بعد اس نے شادی کی، مگر شادی کے دو برس بعد اسے طلاق ہو گئی۔ آہستہ آہستہ اس کے عزیز و اقارب، دوست اور سہیلیاں بھی اسے ایک ایک کر کے اُسے چھوڑتے چلے گئے۔ بجاء طور پر کہا جاتا ہے کہ ”سب پھل دار درخت کے نیچے آتے ہیں۔ سُوکھے شجر کے پاس سے گزرنے والا تک کوئی نہیں ہوتا۔ “ اور ”خوشحال کے سالے بھی کئی بننے کو تیار ہوتے ہیں، جبکہ مُفلس کا کوئی بہنوئی بھی بننا پسند نہیں کرتا۔ “

ثناء کی زندگی کا اب واحد سہارا اُس کی دادی ہی تھی، جو دن کا زیادہ تر وقت عبادت میں مصروف رہتی تھی۔ ڈرائیور رشید نے بھی ایک طویل عرصہ ثناء کا اس کے دُکھ سُکھ میں ساتھ نبھایا، جو اکثر ثناء کو اداس دیکھ کر اُسے تسّلی دیتے ہوئے کہتا تھا: ”بی بی جی، آپ میری بیٹی کی طرح ہیں۔ “

مگر کب تک! ؟ ایک دن رشید نے بھی یہ کہہ کر ثناء سے رُخصت لی کہ: ”بی بی، میرے بڑے بیٹے کی پوسٹنگ لاہور ہوگئی ہے، اور وہ ضد کر رہا ہے کہ میں بھی اُس کے ساتھ لاہور چلوں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب مجھ میں بھی پہلے جتنی ہمّت نہیں رہی کہ میں مزید کام کر سکوں۔ لہٰذا مجھے بخوشی اجازت دے دیں۔ “

اپنے دیرینہ اور وفادار ڈرائیور کی جانب سے اس طرح اجازت لینے کی بات سُن کر ثناء جیسے اندر سے جیسے ٹُوٹ سی گئی۔ رشید کی بات سُن کر، اُسے بس اتنا کہہ پائی:

”چاچا، آپ کے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے پر آپ کی بہو کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا؟ “

”ناں ناں۔ بی بی جی، اللہ معاف کرے۔ ہمیشہ چاہے رُوکھا سُوکھا ہی سہی لیکن حق حلال کا نوالہ اپنی اولاد کو کِھلایا ہے۔ اولاد نے بھی ہمیشہ عزت دی ہے۔ بچّے ایسی منزل پر پہنچے ہیں کہ میں فخر سے اپنا سر بلند کر کے کہہ سکتا ہوں کہ میری تربیت میں کوئی غلطی یا کمی نہیں رہی۔ اولاد کی تربیت ہی والدین کی اصل فصل ہوتی ہے، جس کی کٹائی والدین بُڑھاپے میں کرتے ہیں اور اسی کا پَھل کھاتے ہیں۔ میرے مالک کا مُجھ پر لاکھ لاکھ کرم ہے جس نے کبھی مُجھے خالی نہیں لوٹایا۔ “ رشید فرطِ جذبات میں نہ جانے کیا کیا بولتا رہا اور ثناء اُسے تکتی ہی رہ گئی۔ وہ کب گاڑی کی چابی ٹیبل پر رکھ کے چلا گیا، ثناء کو پتہ ہی نہیں چلا۔

اُس رات، کسی پہر اُس کی آنکھ کُھل گئی۔ وہ پسینے میں شَرابور تھی۔ تنہائی کا احساس اُسے کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔ وہ اپنے کمرے سے باہر آئی۔ سامنے لاؤنج میں اُس کی دادی تہجّد کی نماز پڑھ کر سلام پھیر رہی تھی۔ ثناء دوڑ کر اس کی آغوش میں جا گِری۔

”اماں، سب ایک ایک کر کے مُجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ آپ تو مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گی ناں؟ “

دادی نے ثناء کا ماتھا چُوما اور بولی:

”بیٹی! ہر کسی کا اپنا اپنا وقت مقرّر ہے۔ “

”نہیں امّاں، آپ مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ آخر میں نے کیا قصور کیا ہے؟ کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ آخر کیوں؟ کس لیے؟ “

”میری جان۔ میری بچّی! سُورہ العصر کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک زمانے کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ انسان خسارے میں ہے۔ یعنی انسان اپنی عمر ضایع کرتا ہے، ماسوائے اُن لوگوں کے، جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے۔ “

ثناء خاموشی سے اپنی دادی کی باتوں کو سُنتی رہی۔

”بیٹی! ایمان خدا کی ایسی نعمت ہے، جو ہمارے دلوں کو نرم رکھتی ہے اور نرم دل انسان کسی کو دُکھ دینا تو درکنار، کسی کے دُکھ کو برداشت بھی نہیں کر سکتا۔ انسان کا اخلاق یہ ہے کہ اس کے ہاتھ، پاؤں اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔ عفو و درگزر، دنیا کے معاملات میں مصلحت اور مفاہمت سے کام لینا، کسی کو معمولی نہ سمجھنا، بڑوں کا ادب و لحاظ اور چھوٹوں کے ساتھ پیار سے پیش آنا ہی انسانیت کے اعلیٰ اوصاف ہیں۔ “

”آہ افسوس! “ دادی نے ٹھنڈی سانس بھری۔

”انسان سمجھتا ہے کہ اُسے طاقت، ہمّت اور حیثیت مستقل طور پر حاصل ہے، مگر نادان انسان اس بات سے واقف نہیں، کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی ہی عطا کردہ نعمتیں ہیں، جس نے اگر یہ سب کچھ نوازا ہے، تو واپس بھی لے سکتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں بیٹا! اپنے رب سے استغفار کرو۔ بیشک سوہنا رب توبہ قبول کرنے والا ہے۔ “

دادی کی مُشفق اُنگلیاں ثناء کے اُلجھے بالوں کو سُلجھاتی رہیں۔

”اماں، میرا دل بھر آیا ہے۔ میں رونا چاہتی ہُوں، مگر میرے آنسؤں کو راستہ نہیں مل رہا۔ “ یہ کہتے ہی ثناء، دادی سے لپٹ گئی۔

صدیوں سے تشنہ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہتے چلے گئے۔

کافی دیر تک اس کیفیت میں رہنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں واپس آئی۔ دادی کے الفاظ اس کے دل و دماغ پر اثر کرنے لگے :

”اپنے رب سے استغفار کرو۔ بیشک سوہنا رب توبہ قبول کرنے والا ہے۔ “

غیر ارادی طور پر وضو کر کے اس نے جائے نماز بچھایا۔ اس کی آنکھیں نم ہوئیں اور دل سے بے ساختہ آواز آنے لگی:

”اے میرے پروردگار! میری خطاؤں کو معاف فرما۔ جانتی ہوں کہ میں تکبّر اور زمانے کی چاہت میں اس قدر مصرُوف رہی کہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب تم مُجھ سے رُوٹھ گئے۔ دنیا کی طلب کا پردہ میری آنکھوں پر ایسا پڑا کہ اپنی شہ رگ۔ ’حبل الورید‘ سے بھی قریب اپنے ربِّ کریم کو محسُوس نہ کر سکی۔ ہاں، میں خطاکار ہوں۔ میرے ربّ! میری آزمائش کو ختم کر۔ مُجھے اپنی چاہت میں بے خود کر دے، تاکہ مجھے کسی بھی اور چیز کی خواہش نہ رہے۔ میرے رب، مجھے یقین ہے کہ تُم اس سائل کو واپس نہیں لوٹاؤ گے۔ “

فجر کی اذان کی صدا اُس کی سماعت سے ٹکرائی۔ آنکھوں سے ایک بار پھر سے آنسو قطار در قطار موتیوں کی لڑی کی صورت میں بہہ کر گرتے رہے۔

ثناء، اللہ کی ثناء میں سجدہ ریز ہو گئی۔

سحر پُھوٹنے کو تھی۔ یہ اس کی زندگی کی ایک نئی سحر تھی۔ اُس نے اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کیا۔

کچھ دیر کے لیے اُس کی آنکھ لگ گئی، کہ اسے اچانک گھر کے دروازے پر دستک محسوس ہوئی۔ کوئی فقیر صدا لگا رہا تھا:

”اللھ کے نام پر دیتے جاؤ! جیجل سائل کو خالی نہ لوٹاؤ! “

ثناء نے اپنی آنکھوں کی نمی کو پونچھا، جو ابھی تازہ تھی۔

اس ننے دروازے پہ جا کر فقیر کو خیرات دی۔ فقیر دعائیں دیتا ہوا اپنی راہ چل دیا۔

ثناء اپنے دروازے پر ساکت کھڑی رہی، لیکن آج وہ اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کر رہی تھی۔

”دینے والے“ نے سائل کی صدا سُن لی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments