#PSL5: پی ایس ایل فائیو کے اشتہارات پر تنازع، غفلت یا کچھ اور؟


پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے آغاز سے قبل ہی ایک تنازعے نے اس وقت جنم لیا جب حال ہی میں نشر ہونے والے پی ایس ایل کے اشتہارات پر سوشل میڈیا صارفین نے اس کو انڈین پریمیئر لیگ کے پہلے سیزن میں نشر ہونے والے اشتہارات کی نقل قرار دیا۔

یہ اشتہارات پی ایس ایل کے مرکزی سپانسر حبیب بینک لمیٹڈ نے تیار کیے تھے جو کہ ان کی جانب سے پی ایس ایل فائیو کی اشتہاری مہم کا حصہ تھے۔

یو ٹیوب پر شائع ہونے والے ان متعدد اشتہارات میں پی ایس ایل میں حصہ لینے والی ٹیموں کے چند مداحوں کی آپس میں مزاحیہ نوک جھوک کو دکھایا گیا ہے۔

ان اشتہارات کے نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید تنقید نظر آئی کہ مبینہ طور پر ان اشتہارات کی تخلیق کرنے والوں نے ’نہ صرف ان اشتہارات میں انڈیا کی ایک نجی ٹیلی کام کمپنی کا میوزک چوری کیا بلکہ اشتہارات میں استعمال ہونے والے سکرپٹ کی بھی نقل کی گئی‘۔

یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پاکستان سپر لیگ کے مرکزی سپانسر حبیب بینک لمیٹڈ نے ان ویڈیوز کو یوٹیوب سے ہٹا دیا ہے۔

پاکستان سپر لیگ کا پانچواں ایڈیشن اس لحاظ سے گذشتہ چار ٹورنامنٹس سے مختلف ہے کہ اس بار ٹورنامنٹ کے تمام میچز پاکستان میں کھیلے جائیں گے۔

البتہ یہ ایڈیشن اس حوالے سے بالکل مختلف نہیں کہ ہر سیزن کی طرح اس سے قبل بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ، دیگر عہدیدار اور سابق کھلاڑی عوام کو یہ تلقین کرتے دکھائی دیے کہ عوام کو پی ایس ایل کے برینڈ پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا سمجھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

’پڑھاکو بچہ‘ پی ایس ایل کا پراجیکٹ ایگزیکٹو کیسے بنا؟

پاکستان میں پی ایس ایل کے شیڈول سے کون ناراض؟

’ڈانس پر زیادہ توجہ ہے اور شاعری پر کم‘

ٹوئٹر پر ایک صارف نے پوسٹ کیا کہ انھیں پی ایس ایل کے اشتہارات بے حد پسند آئے مگر یہ انکشاف ہونے کے بعد کے وہ مبینہ طور پر انڈین اشتہارات کی نقل ہیں، انھوں نے اس پر اپنی شدید مایوسی کا اظہار کیا۔

اس غفلت کا آخر ذمہ دار کون؟

اشتہارات میں مبینہ نقل کی نشاندہی ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں اس تجسس نے جنم لیا کہ آخر اس ’غفلت‘ کا ذمہ دار کون ہے؟

ایک صارف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں تو سکرپٹ کی بھی نقل کی گئی ہے اور یہ سوال کیا کہ یہ فیصلے آخر لے کون رہا ہے؟‘

بی بی سی نے اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک سینئر عہدیدار سے رابطہ کیا۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پی سی بی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی کو یہ وضاحت دی کہ یہ پاکستان سپر لیگ کی اشتہاری مہم نہیں بلکہ یہ ان کے پارٹنر کی ایک مہم ہے اور اس مہم کی ذمہ داری ایچ بی ایل نے کسی نجی ایجنسی کو سونپی تھی۔

پی سی بی کے عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ نشاندہی کے بعد ہی ان اشتہارات کو آف ائیر کیا گیا ہے اور ہم اس معاملے کو اندرونی طور پر دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اب تک اس حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا مگر پی سی بی کے عہدیدار نے بتایا کہ پی سی بی میں اندرونی طور پر اس بارے میں بات چیت چل رہی ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کے نجی بینک حبیب بینک لمیٹڈ کے چیف کارپوریٹ کمیونیکیشن آفیسر علی حبیب نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مرتبہ اشتہاری مہم کی ذمہ داری ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ایڈ ایجنسی کو دی گئی تھی۔

علی حبیب کا کہنا تھا کہ ہم نے اس معاملے کو ایجنسی کے سامنے اٹھایا ہے تاکہ ہم اس کے پس منظر کو بہتر انداز میں سمجھ سکیں اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرسکیں۔

کیا ایچ بی ایل اس کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں علی حبیب کا کہنا تھا کہ ‘نجی ایجنسی اس سوال کا جواب دینے کے لیے سب سے موزوں ہے، ہم اس حوالے سے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی اس پر تبصرہ کر پائیں گے۔’

پاکستان سپر لیگ

مواد کی نگرانی کا آخر عمل ہے کیا؟

اشتہاری مہم میں پائے جانے والے مواد کی نگرانی کیسے کی جاتی ہے اور اس کا کیا عمل ہے اس پر پی سی بی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر یہ روایت رہی ہے کہ اشتہاری مہم چاہے پارٹنر کی بھی ہو مگر نشر ہونے سے قبل اس مواد کو پی سی بی منظوری کے لیے بھجوایا جاتا ہے مگر ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔

تاہم پی سی بی کے عہدیدار کے مطابق اس مرتبہ ایچ بی ایل نے یہ مواد بورڈ کو نہیں بھجوایا۔

پی سی بی کے اس دعوے کے جواب میں علی حبیب کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا پاکستان کرکٹ بورڈ سے ایچ بی ایل کے اشتہارات کے حوالے سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں جس کی پاسداری کرنا ہم پر لازم ہو۔’

ان کا کہنا تھا کہ حبیب بینک تخلیقی ساکھ کا بے حد خیال رکھتا ہے اور اس حوالے سے بین الا قوامی سطح پر تسلیم شدہ بہترین روایات اور قوائد پر عمل کرتا ہے۔

ایچ بی ایل اور پی سی بی کا اشتراک

پاکستان کے نجی بینک ایچ بی ایل کے ساتھ اشتراک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمارا تعلق ایچ بی ایل کے ساتھ ایک طویل عرصے پر محیط ہے اور پاکستان کرکٹ کے لیے ان کی خدمات بھی بہت رہی ہیں۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ اندرونی تحقیقات مکمل نہیں ہوتی ان اشتہارات کو آف ائیر کر دیا گیا ہے۔

علی حبیب نے کہا کہ ایچ بی ایل بطور ایک ادارہ اپنے طور طریقوں میں مسلسل بہتری لانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس تنازعے سے متعلق کیا پی سی بی اور ایچ بی ایل کے بیچ کوئی بات چیت جاری ہے؟ اس پر وضاحت دیتے ہوئے علی حبیب کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ایسا کوئی معاہدہ نہیں جو ہمیں ان سے اس پر بات کرنے پر پابند کرے مگر اس پر اگر کوئی تبادلہ خیال جاری بھی ہے تو میں اس سے آگاہ نہیں‘۔

‘ان اشتہارات سے انڈین عوام کو موقع ملتا ہے’

پاکستان کے معروف سپورٹس جرنلسٹ فیضان لاکھانی نے اس حوالے سے کہا کہ اشتہارات کی کمپنی میں تخلیقی عمل سے منسلک لوگوں کو اس متعلق دھیان کرنا چاہیے تھا اور اب تو ان اشتہارات کے نشر ہونے پر بےشک پابندی عائد ہوگئی ہے مگر آئندہ کے لیے مواد کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے تاکہ ایسی بدنامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

صحافی فیضان لاکھانی کا کہنا تھا کہ ‘ان اشتہارات سے انڈین عوام کو موقع ملتا ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ آپ ہماری نقل کر رہے ہیں اور یہ غفلت نہیں برتنی چاہیے تھی۔ اگر عہدیدار اس نگرانی کے ضروری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے تو بدنامی سے بچا جاسکتا ہے‘۔

سوشل میڈیا پر اس بات کی بازگشت ہے کہ مہم کی ذمہ دار کمپنی کو ایچ بی ایل کی جانب سے برطرف کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے علی حبیب نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیں گے اور یہ دہرایا کہ تحقیقات جاری ہیں اور مکمل ہونے کے بعد ہی اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔

علی حبیب سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان اشتہارات کو نشر کرنے پر پابندی کس بنیاد پر لگائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات پر مطمئن ہونا چاہتے ہیں کہ تمام ضروری تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے اور اس وقت تک ان پر پابندی عائد ہے جب تک ہماری تسلی نہیں ہو جاتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp