انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’نئی سیاست‘ کا انڈین منصوبہ کامیاب ہوگا؟


محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ، انڈیا، کشمیر

ایسے وقت میں جب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بہار کی آمد کے ساتھ ہی نئی دلی کی طرف سے بڑی سیاسی پہل کی توقعات عام تھیں، حکومت نے محبوس سیاسی رہنماؤں اور سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر سخت ترین قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کا اطلاق کرکے انھیں بغیر عدالتی سماعت کے چھ ماہ کے لیے مزید قید میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔

عمر کے والد، سابق وزیرِ اعلیٰ اور موجودہ رکن پارلیمان فاروق عبداللہ پہلے ہی پی ایس اے کے تحت قید میں ہیں۔

واضح رہے گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے انڈین مرکز کے زیرِ انتظام دو خطوں میں تقسیم کیا تھا، جس کے بعد قدغنوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

حکومتِ ہند نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں سمیت تقریباً 400 کشمیریوں کو پی ایس اے کے تحت قید کیا گیا ہے۔ گزشتہ اگست میں مظاہروں اور سنگین ردعمل کے خدشے سے 40 سے زیادہ سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ان میں سے بیشتر کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، علی محمد ساگر، سرتاج مدنی اور نعیم اختر سمیت قریب دو درجن رہنما اب بھی قید میں ہیں۔

تازہ حکمنامے سے سیاسی گلیاروں میں سناٹا چھا گیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ ہماری پارٹی کے صدر، نائب صدر اور جنرل سیکریٹری پر پی ایس اے کا اطلاق ہوا ہے، اور بھی رہنما قید میں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کا اثر کتنا ہوگا، لیکن اب کشمیر میں حالات ٹھیک نہیں رہیں گے۔‘

اپنے تازہ ردعمل میں کانگریس کے رہنما اور کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے انڈیا کی سالمیت کے لیے جانوں کی بازی لگا دی تھی، انھیں اب ریاست کا دشمن قرار دیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔‘

حکومت کے سابقہ اقدامات اور تازہ اعلان کے بعد کشمیر کے اکثر سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ سوال شدت کے ساتھ پوچھا جارہا ہے کہ آخر انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کشمیر کی علاقائی سیاست کو، جو ہند نواز بھی تھی، اس قدر ناپسند کیوں کرتے ہیں۔

تجزیہ نگار اعجاز ایوب کے مطابق فرق کانگریس اور بی جے پی کا کشمیر کی علاقائی قوم پرستی کی جانب رویہ ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’کانگریس نے دہائیوں تک کشمیر کی علاقائی سیاست اور اس کی علاقائی خواہشات کو برداشت کیا۔ لیکن مودی حکومت کشمیر میں ہندنوازی کے نام پر علاقائی قوم پرستی کو برداشت نہیں کرسکتی۔‘

ان کے مطابق مودی اور اُن کے مشیروں کو یقین ہے کہ علاقائی سیاست سے ہی علیحدگی پسند جذبات پھوٹتے ہیں، لہٰذا وہ ایک نئی اور صد فی صد ہندنواز سیاست کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ ’یہ تجربہ کس قدر کامیاب ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔‘

عمرعبداللہ اور محبوبہ کی پارٹیوں کے کارکن تذبذب اور خوف میں مبتلا ہیں۔ دونوں جماعتوں کے دفاتر میں ڈراؤنی خاموشی ہے۔

انڈیا، کشمیر،

نیشنل کانگریس کے ایک سینئر کارکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں کس چیز کی سزا دی جارہی ہے۔ مودی جی دلی میں پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں، لیکن اصل میں جنگ کشمیر میں اُن سیاسی جماعتوں کے خلاف چھیڑی جارہی ہے جو انڈیا کی اتحادی رہی ہیں۔‘

’شاید ملک کی سیاست کو ہماری تکلیفوں کی غذا کھلائی جارہی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر (عام آدمی پارٹی کے) کیجریوال جیت گئے تو (اس کا) نزلہ ہم پر ہی گرے گا۔‘

اعجاز ایوب کہتے ہیں: ’شیخ محمد عبداللہ کو 22 سال تک قید کیا گیا اور نئی سیاست کو فروغ دیا گیا، لیکن شیخ کی موت کے سات سال بعد ہی کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوگئی۔ سیاسی میدان سے روایتی کھلاڑیوں کو کنارے کرنے کی پالیسی کے پیچھے جو بھی مقاصد ہوں، لیکن کشمیر میں غیریقینی صورتحال باقی رہے گی۔‘

دریں اثنا اکثر حلقوں نے انڈین وزیرِ اعظم کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ انھوں نے طنز و مزاح کی ایک ویب سائٹ سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف الزامات کی بارش کردی۔

اس بارے میں بی جے پی کے ایک مقامی کارکن نے کہا کہ ’بیان کو کہاں سے نقل کیا گیا، وہ الگ بات ہے۔ لیکن جو باتیں نقل کی گئی ہیں وہ تو سچ ہیں نا۔ وزیراعظم نے کوئی بہتان تو نہیں باندھا۔ کیا عمرعبداللہ نے یہ نہیں کہا کہ اگر دفعہ آرٹیکل 370 ہٹایا گیا تو دلی اور کشمیر کے درمیان پُل ڈھے جائے گا؟ کیا محبوبہ نے یہ نہیں کہا کہ اگر ایسا ہوا تو کشمیر میں انڈیا کا پرچم اُٹھانے والا ایک بھی کندھا نہیں بچے گا؟ کیا یہ سچ نہیں ہے؟

حکومتِ ہند کے لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں روایتی ہند نواز سیاست کو خیرباد کہنا اب سرکاری پالیسی کا حصہ ہے لیکن کشمیر میں ایک نئی سیاست کو اُبھارنے میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔

اس حوالے سے محبوبہ مفتی کے سابقہ ساتھی اور اُن کی حکومت میں وزیر رہ چکے الطاف بخاری اور مظفرحسین بیگ کافی سرگرم ہیں۔

الطاف بخاری نے 20 سے زیادہ سیاسی ورکروں کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے اور دلی جا کر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی کوششیں کررہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق نئی مجوزہ سیاست کے نئے کرداروں کو اپنا لہجہ بجلی، پانی اور سڑک تک محدود کرنا پڑے گا، کیونکہ نئی دہلی میں اب علاقائی مفادات کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے سیاسی حلقوں میں تذبذب بھی ہے اور خوف بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp