کشمیریوں کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی باتیں اور دعائیں!


وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر آزاد کشمیر اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی۔ ان کی تقریر کی خاص بات یہ رہی کہ کشمیر کے حوالے سے سیاسی، سفارتی اور میڈیا ”جنگ“ لڑی جائے گی، دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم سے مسلسل آگا ہ کیا جائے گا، آزاد کشمیر حکومت اور حریت نمائندگان کے ساتھ مشاورت سے حکمت عملی تیار کی جائے گی کیونکہ کشمیر اشو کو اگلے مرحلے میں لے کر جانا ہے۔

عمران خان نے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی اپیل کے جواب میں کہا کہ ملک کا پیسہ لوٹنے اور باہر لیجانے والوں سے دوستی نہیں ہو سکتی۔ عمران خان نے اس حوالے سے شعر سنایا کہ ”مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے، میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے“۔ یقینا اس شعر میں وزیر اعظم عمران خان کی مراد انڈیا سے لڑنے کی نہیں بلکہ ملک کے اندر کرپشن کرنے والوں کے خلاف اپنے لڑائے جانے سے ہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو آزاد کشمیر اسمبلی کے سپیکر شاہ غلام قادر کی طرف سے نیک تمناؤں کے بہترین اظہار میں کشمیری لباس فیرن کا تحفہ دیا گیا جسے انہوں نے پہن کر تصاویر بنوائیں۔ معلوم نہیں کہ یہ فیرن سیاسی تھا یا سرکاری۔

عالمی فورمز، ملکوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارتی اور سیاسی کوششیں اپنی جگہ اہم لیکن بنیادی ضرورت دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے خلاف انڈیا کی فوج کشی کی صورتحال میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا۔ یہی وہ بنیادی اہمیت کا حامل موقف ہے جس کے اظہار سے ہی عالمی برادری، عالمی ادارے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل سے متعلق متحرک ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے محض مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے مظالم، تشدد اور کشمیریوں کے خلاف انڈیا کی کارروائیوں کو آر ایس ایس اور نازی ازم سے تعبیر کیے جانے سے عالمی برادری اس طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کر سکتی جس کی توقع وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان انتظامیہ کی طرف سے کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے مطالبے پر آزاد کشمیر حکومت اور حریت نمائندگان کے ساتھ حکمت عملی کے حوالے سے مشاورتی اجلاس منعقد کیے جانے کی بات بھی کی ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اس سے پہلے آزاد کشمیر حکومت اور حریت نمائندگان آپس میں اجلاس کر لیں۔ ابھی تک آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے اس حوالے سے جامع تجاویز تیار نہیں ہیں۔ اس میں سیاسی اورسفارتی امور کے علاوہ کئی اہم اور حساس موضوعات بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان سیاسی، سرکاری اور کشمیر کاز کے ”راز آشناؤں“ کی مشاورت سے اس حوالے سے اچھی تجاویز تیارکر سکتے ہیں جن پر حکومت پاکستان اپنے دائرہ اختیار کے مطابق آسانی سے عملدرآمد کر سکتی ہے اور جن امور سے کشمیر کاز سے متعلق بہتر اقدامات کرتے ہوئے کشمیر کاز کو حقیقی طور پر فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کو اس حوالے سے اچھی مشاورت میسر ہے تاہم اسے بروئے کار لایا جانا اہم ہے۔

حریت نمائندگان کی ایسے اجلاسوں میں شرکت اور ان کی طرف سے تجاویز کا دیا جانا بھی ایک اہم موضوع بن جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے مظفر آباد میں ملاقات کے موقع پر حریت نمائندگان کا انتخاب محدود طور پر سلیکٹڈ نظر آیا۔ حریت کانفرنس کی ایسی صف بندی ابھی تک نظر نہیں آ سکی ہے کہ جس سے حریت کانفرنس کے کردار کو متحرک اورموثر بناتے ہوئے کشمیریوں کی نمائندگی اور ترجمانی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی طرف پیش رفت کی جاسکے۔ حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان میں کشمیریوں کی مشاورت سے اصلاحاتی اقدامات نہ کرنے سے حریت حریت کانفرنس آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب کی ذمہ داری بخوبی ادا کیے جانے کے لوازمات پورے نہیں ہو سکیں گے۔

آزاد کشمیر حکومت اور حریت نمائندگان دونوں مختلف نوعیت کی سرکاری اور سیاسی پابندیوں کے دائروں میں ہیں، اس لئے ان دونوں کی طر ف سے ایسے کشمیری حلقوں سے مشاورت حاصل کرنا بہت ضروری ہے جو اس طرح کے سرکاری اور سیاسی دائروں میں محدود نہیں ہیں اور حالات و واقعات اور کشمیریوں کی نسل در نسل جدوجہد، اس کے مقاصد اور پوشیدہ امور پر گہری نظر رکھتے ہوئے کشمیریوں کی ترجمانی میں بہتر تجاویز اور مطالبات سامنے لا نے کی بھر پور صلاحیت کے حامل ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت حکومت پاکستان کی طرف سے مہیا کردہ سہولت رائیگاں جائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے ڈیموکریسی کی افادیت بیان کی اور اس حوالے سے مختلف مثالیں بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہ ملک ترقی کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ عمران خان کو کون سے خطرات نظر آ رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی وکالت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جتنے خوشحال ملک ہیں ان کے پاس کلین (صاف) گورنمنٹ ہے، ٹرانسپیریسی ہے، کرپشن نہیں ہے، کئی غریب ملکوں کے پاس سب سے زیادہ وسائل ہیں، کانگو، نائیجیریا، تیل پہ بیٹھے ہیں لیکن کرپشن کی وجہ سے غریب ترین ملک ہیں، میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے، اگر کوئی میرے گھر چوری کرتا ہے تو کیا میں اس سے دوستی کر لوں؟ مجھے کبھی بھی کرپٹ لوگوں سے جنہوں نے اس ملک کا پیشہ لوٹا ہے، پیسہ باہر لے کر گئے ہیں، پلیز مجھے ان سے مفاہمت کا نہ کہیں۔ ملک کے ہر ادارے کو برباد کیا گیا، ان سب کے پیچھے کرپشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے کرپشن پر ساڑھے چار سو وزیروں کو جیل میں ڈالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ کو کہنا چاہتاہوں کہ کبھی اپنے اندر مایوسی نہ لے کر آئیں، مشکل وقت میں صبر کرنے والوں کو اللہ سب سے زیادہ پسند کرتا ہے۔ ہم اس مشکل وقت سے نکل کر ایک عظیم قوم بنیں گے۔ مودی نے چھ مہینے پہلے 5 اگست کو کشمیر میں جو قدم اٹھایا ہے، اس اقدام کے بعد اب کشمیر جس طرف جائے گا، اس سے کشمیر آزاد ہو گا۔ اگر وہ یہ قدم نہ اٹھاتا تو ہم دنیا کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، 5 اگست سے پہلے بھی کشمیریوں پر ظلم کر رہے تھے لیکن دنیا کو کوئی فکر ہی نہیں تھی، کوئی نہیں سن رہا تھا، ہماری کون سے گورنمنٹ نے کس فورم پہ اٹھایا تھا جب یہ ظلم ہو رہا تھا؟

مودی 5 اگست کا اقدام مہلک غلطی کر چکا ہے جس سے اب وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا، مودی کا تعلق انتہا پسند ہندو تنظیم آ ر ایس ایس سے ہے جوہٹلر نازیوں کی نسلی بالا دستی کی تھیوری کی حامی ہے، وہ کہتے تھے کہ ایک دن مسلمانوں کو بھی ہندوستان سے نکالیں گے۔ یہ سب چھپا ہوا تھا۔ 5 اگست کے بعد ہمیں موقع ملا۔ میں نے نے جو قومی اسمببلی میں تقریر کی، میں نے پہلی مرتبہ اس چیز کو لوگوں کو بتایا کیونکہ لوگوں کو بیک گراؤنڈ کا نہیں پتہ تھا۔

ہمارے اپنے لوگوں کسی کو نہیں پتہ تھا، ہم نے بتایا کہ انہوں نے جو کشمیر میں کیا وہ آر ایس ایس کے منصوبوں کا حصہ تھا، میں نے یہاں آ کر آ[پ سے وعدہ کیا کہ میں کشمیریوں کا وکیل بنوں گا، میں نے اپنی پوری کوشش کی، اس کے بعد میں جس فورم پہ بھی گیا، میں نے یہ بھی بتایا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اوردنیا کے سامنے آر ایس ایس کا فلسفہ لے کر گیا، صرف ریاستوں کے سربراہان کو ہی نہیں فون کیا بلکہ ہر فورم پہ گیا۔

میں نے تین بار ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھایا کہ کشمیر کا مسئلہ کیا ہے، یورپ میں آر ایس ایس کی فلاسفی کو نازی ازم کی فلاسفی سے جوڑ دیں تو ناممکن ہے کہ وہ اسے نظر انداز کریں، آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی سے صرف کشمیریوں کو ہی نہیں ہندوستان کو خطرہ ہے۔ سٹیزن شپ ایکٹت اور ریجسشٹریشن ایکٹ، کے ذریعے مودی حکومت نے اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ انڈیا میں بیش کروڑ مسلمان ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، مشکل وقت ہے، سب سے زیادہ تکلیف جو ہمیں ہو رہی ہے جو اسی لاکھ کشمیریوں کے ساتھ ہو رہا ہے، تکلیف، برے حالات تو پہلے بھی تھے، وہ یہ سہہ جائیں گے، یہ ہم سب کا کام ہے کہ اسے ہر انٹرنیشنل فورم پہ اٹھائیں، ہمارے وفود دنیا میں جائیں، ہر موقع پر دنیا کو آگاہ کریں، ۔ نریندر مودی ہندوستان کو جدھر لے گیا ہے اب وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، آگے جائے گا تو اس کو بہت بڑی مزاحمت اب ملنا شروع ہو جائے گی، یہ وہ وقت ہے کہ جب کشمیر آزادی کی طرف اب جائے گا، ابب ہر مہینے سین بدلے گا، ہمارا کام ہے کہ ہم دنیا کو اس سے آگاہ کریں، ہم ہر فورم پہ اس کو اور بھی تیزی سے بڑھائیں گے، ہندوستان کی صورت بگڑے گی، نرندر مودی نے کہا کہ ہم 11 دنوں میں پاکستان کو فتح کر سکتے ہیں، ایک ملک کا سربراہ اس طرح کا بیان دے جب دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں، تو وہ آدمی نارمل نہیں ہو سکتا۔

میں آزاد کشمیر کی اسمبلی اور اپنے لوگوں کو ایک چیز سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ کسی صورت ہمیں ایک ٹریپ میں نہیں پڑنا چاہیے، ان کی صرف یہی کوشش ہو گی کہ یہ پاکستان سے دہشت گردی آ رہی ہے ا، دہشت گردی کے نام پہ یہ کشمیر میں ظلم اور تشدد کریں گے، ابھی وہ اس لئے نہیں کر سکتے کہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے، اگر ہم دنیا کو آگاہ نہ کرتے تو ہو کشمیریوں پہ یہ ظلم کر چکے ہوتے، کیونکہ انہوں نے کشمیر کی ڈیموگرافی بدلنی ہے، انہوں کو کشمیر کو مسلم اکثریت کے بجائے مسلم اقلیت کا کشمیر بنانا ہے، وہ پھنس اس لئے گئے ہیں کہ دنیا اس وقت کشمیر میں دیکھ رہی ہے، اور ہمیں انہیں کسی طور بھی موقع نہیں دینا چاہیے۔

یا تو وہ جھوٹا آپریشن کریں گے جس طرح انہوں نے پلوامہ میں کیا، یا وہ کہیں گے کہ دھماکہ ہو گیا اور مزید کشمیریوں پر ظلم کریں گے، یی سیاسی، سفارتی جنگ ہے، ( تقاضے معلوم ہیں اس کے، جن پر عمل نہ ہو رہا) اور میڈیا کی جنگ ہے، یہ پہلی بار ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا کا رجحان پاکستان کے موقف کی طرف زیادہ ہے، ہم اس تحریک میں کامیاب ہو رہے ہیں، ہم نے انڈیا کے ٹریپ میں نہیں آنا،

میری آزاد کشمیر اسمبلی اور حریت کے ممبرز سے بھی بات ہوئی تھی، میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پہلے آپس میں میٹنگ کر لیں، پھر جب بھی آپ تیار ہیں، فوری طور پرہمارے ساتھ میٹنگ کریں، ایک کمیٹی بنائیں گے، جو مسلسل آپ کی مشاورت سے ایکپلان بنائیں گے کیونکہ ہم نے کشمیر اشو کواگلی سطح (next level) پہ لے کر جانا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جنرل اسمبلی کے بعد اسلام آباد میں ایک بہت بڑا دھرنا شروع ہو گیا کہ پتہ نہیں کہ کوئی طوفان آ رہا ہے اسلام آباد، وہ سارا ایک مہینہ اسی کے اندر چلا گیا، حالانکہ اس وقت کشمیر کا اشو پیک پہ تھا، لیکن کوئی فکر نہیں ہے ابھی بھی کشمیرساری دنیا میں ہے۔

یورپی یونین پارلیمنٹ کے چھ سو ممبران نے قرار داد منظور کی ہے، ڈیڑھ سو امریکن قانون سازوں اور برٹش قانون دانوں نے اسمبلیوں میں کشمیر اٹھایا ہے، اس کے لئے ہم پوری پلاننگگ کریں گے، ہم ان کو بتائیں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں کس طرح کا ظلم ہو رہا ہے، ہم ان کو باقاعدہ انفارمیشن مہیا کریں گے، اور سب سے بڑی ہماری طاقت اوور سیز کشمیریز اور پاکستانی ہیں، وہ آج بہت موبلائیزڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بہت اچھی تجاویز آئیں، آئندہ بھی ہم مل کر یہ موومنٹ چلائیں گے۔

اس سے پہلے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دوبار کشمیر تشریف لائے۔ آخر میں 1944 میں آئے تو وہ ان کا باقاعدہ سیاسی دورہ تھا، شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ عبداللہ میں نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے، کانگریس تمہیں دھوکہ دے گی، قائداعظم کے علاوہ مسلم لیگی لیڈر شپ نے کبھی کشمیر میں دلچسپی نہیں لی۔

لیاقت علی خان نے سب سے پہلے یہاں کا دورہ کیا، پھر فیروز خان نون آئے، اور لوگ بھی آئے، دیلڈ مارشل ایوب خان صاحب بھی آئے، پھر یہ سلسلہ شروع ہوا، بھٹو صاحب آئے، میاں نواز شریف صاحب چوداپندرہ مرتبہ آئے، آپ آج چوتھی مرتبہ یہاں تشریف فرما ہیں، بینظیر صاحبہ یہاں آئیں، پرویز مشرف صاحب اور باقی لوگ بھی یہاں آتے رہے کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے کے لئے۔

ہمیں شعور اور ادراک ہے کہ اس وقت پاکستان کی مشکلات کیا ہیں، اور ہم سب حکومت پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، بعض لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ پاکستان کن مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اس کے باوجود وہ کشمیریوں کی مدد کر رہا ہے۔

یہ آپ کی اور دیگر قومی زعماء کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس سے کیسے نکل سکیں گے۔ آپ کے ساتھ جو بات ہوئی کہ کشمیری لیڈر شپ پہلے آپس میں بیٹھے گی، وزیر خارجہ سے ملنے کے بعد آپ سے، پالیسی ساز بیٹھے ہوں اور ہم حکمت عملی طے کریں، کچھ چیزیں عوام میں نہیں بتائی جاتی ہیں۔ ہندوستان کے اندر جو مشکلات پیدا ہوئی ہیں کیا ہم نے اس حوالے سے کوئی تیاری کی ہے؟ ہمیں جارحانہ پالیسی کی ضرورت ہے باتیں کرنے کی ضرورت ہے، دشمن کو تھوڑا سا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کی ثالثی انتہائی خطرناک ہے، امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہو کر چین کا مقابلہ کرے، امریکہ انڈیا کا نیچرل اتحادی ہے، ہمارا نہیں ہو سکتا، امریکہ کی ثالثی کبھی ہمار ے حق میں نہیں ہو سکتی۔ وہ ثالثی ہمیشہ انڈیا کے حق میں جائے گی۔

میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ نیشنل ری کنسیلیشن کریں پاکستان میں، اوپر کریں اپنے آپ کو سب سے۔ سب کو اپنے ساتھ رکھیں، اپنا دامن کھولیں، سب کو ملائیں، پورے ملک کو اکٹھا کریں، ٹی وی ٹاک شوز میں جھگڑے اب بند کرائیں، یہ قوم بہت تقسیم ہو گئی ہے، مغرب نے ہمیں جکڑا ہوا ہے اس سے تب نکلیں گے کہ جب قومی اتفاق رائے ہو گا، ہم نے احتساب ایکٹ میں ترمیم کر دی ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم پاکستان کا جھنڈا کشمیر میں نہیں گرنے دیں گے، وہی جو آپ سے بات ہوئی ہے، اسی میں بیٹھ کر بات کریں گے۔ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے فیض احمد فیض کی نظم پڑھ کر سنائی کہ ”نثار تیری گلیوں میں اے وطن کہ جہاں“۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ایل او سی سے متعلق اور میرپور کے ہمارے مسائل ہیں ان پر آپ سے کل میر پور میں بات کریں گے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز، 6 فروری کو میر پور میں سٹیڈیم کی پارکنگ کے ایک حصے میں جلسے میں شرکت اور تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ ”کشمیریوں ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، ہم ہر روز آپ کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ کو ہمت دے، آپ کو صبر دے، ہم ہر جگہ دنیا کو بتائیں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، ہمارے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو جب بھی کسی قسم کی کوئی امداد چاہیے ہو، مدد چاہیے ہو، ہم سب آپ کے ساتھ کھڑے ہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments