ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب: انسانی شعور کا ارتقا


کتابوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہماری سوچ کو شعوری خوراک دے کر ہماری عقل اور فہم میں بالیدگی کا عنصر پروان چڑھاتی ہیں۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایسی کتابوں میں زندگی کی ایسی بصیرتیں چھپی ہوتی ہیں جنہیں صا حب فکر و نظر ہر دور میں نئے زاویے سے جانچنے، پرکھنے اور کریدنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔ میری نظر سے بھی ایک ایسی ہی کتاب گزری جس نے مجھ پر بصیرتوں کا ایک جہان کھول دیا۔

اس نادر اور شاہکار کتاب کو تخلیق کرنے والے کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے اور ان کی اس تخلیق کا نام ”انسانی شعور کا ارتقاء“ ہے۔ یہ کتاب انسانوں کی ابتدائی بصیرتوں سے آگہی دیتے ہوئے موجودہ بالغ صدی کے ساتھ جوڑتی ہے۔ یہ بصیرتوں کا ایسا ادبی دستر خوان ہے جس پر ابواب کی صورت میں اٹھارہ ادبی ذائقے چن دیے گیے ہیں۔ یہ آگہی اور دانائی کا ایسا جہان دانش ہے کہ جس سے علمی مسافر سیراب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ جہان دانش نفسیاتی اور فلسفیانہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں البرٹ آئن سٹائن، سگمنڈ فرائیڈ، کارل ینگ، اور ایرک فرام کے مضامین شامل ہیں اور ان کے مضامین کے تراجم ڈاکٹر سہیل نے کیے ہیں۔ یہ ہمیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ

1۔ انسانوں کے ابتدائی قوانین کیسے تشکیل پائے

2۔ کیا سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد ہے یا یہ سچ تک پہنچنے کے دو راستے ہیں

3۔ آئن سٹائن یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ مادیت کے اس دور میں سائنس کا سنجیدہ کام صرف صحیح معنوں میں روحانی لوگ ہی کر سکتے ہیں

4۔ سگمنڈ فرائیڈ کی نظر میں مذہبی خیالات و حقائق وہ ہیں جن تک انسان منطق کے ذریعے نہیں بلکہ ایمان کے راستے پہنچتا ہے۔ اس لیے انہیں بہت عزیز رکھتا ہے۔

5۔ کارل ینگ کا خیال ہے کہ انیسویں صدی کے مقابلے میں بیسویں صدی کا انسان مذہب کی بجائے سائنس اور ایمان کی بجائے علم کی طرف زیادہ مائل نظر آتا ہے۔ جدید انسان ان نظریات اور اعتقادات کو ماننے کے لیے تیار نہیں جن کی بنیاد انسانی علم اور تجربے پر نہ ہو۔

6۔ ایرک فرام کہتا ہے کہ ایمان کے بارے میں ہمارے سوچنے کے انداز میں دھیرے دھیرے بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہم نے گرجے کی بہت سی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ عقل کی ترقی کے ساتھ ساتھ آزادانہ سوچ نے بہت سی منزلیں طے کی ہیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر خالد سہیل اپنے تخلیقی مضامین بعنوان ”چارلز ڈارون اور انسانی ذہن کا ارتقاء، مذہب اور سائنس، مذہب اور روحانیات، انسانی نفس (سائیکی) ۔ روح یا ذہن، روحانی تجربات، سیکولر ہیومن ازم، نوع انسانی کے مصائب کے سات اسباب، سیکولر اخلاقیات اور سات انسان دوست مفکرین، امن کے معمار، انسانی ارتقاء میں صوفیوں، فنکاروں اور سائنسدانوں کا کردار، انسانی ارتقاء کا اگلا قدم، روایتی اکثریت اور تخلیقی اقلیت اور تاریخی ملاقات“۔

ان تخلیقات میں ڈاکٹر سہیل یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ روایتی لوگ گھسے پٹے راستوں پر چلتے رہتے ہیں اور بدلتی ہوئی سائنٹیفک روایات سے خوش دلی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاتے اور لا حاصل سی زندگی گزار کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ غیر روایتی لوگ ان میں صوفی، سنت، سادھو اور سائنسدان شامل ہیں یہ لوگ اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے نئی بدلتی ہوئی روایات اور تبدیلیوں کا کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل کی نظر میں روحانی تجربات کا تعلق مذہب سے بالکل بھی نہیں ہے بلکہ یہ انسانی اثاثہ ہے یہ تجربات غیر روایتی لوگوں کو بھی ہوتے ہیں۔ اپنے مضامین میں وہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں انسانی جسم کے حوالہ سے ایک روح کا تصور موجود تھا مگر اب جدید دور میں ہم اسے مائنڈ کہتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اسے سٹی بک پوائنٹ کراچی والوں نے شائع کیا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments