اعضا کی ٹرانسپلانٹیشن: ’میرا بچہ مر گیا لیکن اس نے ایک اور بچے کو زندگی دی‘


ویلنٹینا ڈیپرائل اپنے آٹھ دن کے بچے اینجلو رے کو کھونے کے لیے کسی بھی طرح تیار نہیں تھیں۔ لیکن ویلنٹینا اور ان شوہر پر عزم تھے کہ وہ اپنے بچے کے اعضا کسی اور بچے کی جان بچانے کے لیے عطیہ کریں گے۔ یہ کچھ ایسا تھا جس کے بارے میں ہسپتال نے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔

ویلنٹینا ڈاکٹر کی آواز میں مہربانی کو ہمیشہ یاد رکھیں گی جب انھوں نے انتہائی محتاط انداز میں کسی بھی والدین کو سنائی جانے والی انتہائی بدترین خبر سنائی۔

’میں معذرت خواہ ہوں لیکن ہم آپ کے بچے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘

کنگز کالج ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں موجود سٹاف نے ہر ممکن کوشش کی لیکن انجیلو رے لائف سپورٹ کے بغیر زندہ نہیں سکتے تھے اور ایم آر آئی سکین میں کوئی دماغی سرگرمی نہیں تھی۔

جولائی 2016 کے اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میری پوری دنیا گر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا میرے بچے مرنے کی وجہ کزن میرج تھی؟

سپین: 64 سالہ خاتون کے جڑواں بچوں کی پیدائش

بچی جو دو بار پیدا ہوئی

انجیلو رے ہسپتال کی راہداری میں انکیوبیٹر میں موجود تھے۔ ان کی والدہ ویلنٹینا یہ سوچ کر حیران تھیں وہ اپنے بچے کے بغیر کیسے رہیں گی۔ انھوں نے تو ابھی تک اسے پکڑا بھی نہیں تھا۔

وہ کہتی ہیں ’میں یہ سوچ کر بہت پریشان تھی کہ میرا بچہ سوچ رہا ہو گا کہ ہم نو ماہ ساتھ رہے ہیں، میری ماں کہاں ہیں، انھوں نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘

نومولود

اپنے بچے کو پیدائش دینے سے ایک ہفتہ قبل ویلنٹینا بے ہوش ہو گئیں اور ان کی سانس رک گئی۔ ان کے شوہر لویگی نے 999 پر کال کی اور اپنی اہلیہ کو ہوش میں لانے کے لیے دی جانے والی ہدایات کر عمل کیا۔ یہ سکول میں گرمیوں کی چھٹی کا پہلا دن تھا اور ان کے چھ برس کے بیٹے لیون نے یہ سب دیکھا۔

اس دن سے پہلے تک ویلنٹینا کے حمل میں کوئی پیچیدگی نہیں تھی اور وہ گھر میں بچہ جنم دینے کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ لیکن اینجلو رے کی پیدائش جنوبی لندن میں وولوچ کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں ایمرجنسی سی سیکشن کے بعد ہوئی اور اس کے فوراً بعد ویلنٹینا کو زندگی بچانے کے لیے خون منتقلی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔

اس کے 24 گھنٹے بعد ویلنٹینا نے اپنے بچے کو دیکھا کیونکہ ان کی حالت انتہائی خراب تھی اور انھیں خصوصی توجہ کے لیے کیمبرویل کے کنگز کالج ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ لیوگی نے اپنے دن ان دو ہسپتالوں کے درمیان گزارے جب تک ویلنٹینا صحت یاب ہو کر کنگز ہسپتال منتقل نہیں ہو گئیں۔

اس وقت تک ڈاکٹرز کو معلوم ہو چکا تھا کہ اینجلو رے کا دماغ پیدائش سے قبل آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔

ویلنٹینا کہتی ہیں ’جب ڈاکٹر نے ہمیں بتایا تو سب سے مشکل چیز یہ قبول کرنا تھا کہ میں اپنے بچے کو بچانے کے لیے بالکل کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ واقعی کچھ نہیں۔‘

ویلنٹینا ایک انتہائی مشکل جاب کرنے والی ماں تھیں، وہ ہمیشہ تمام مسائل حل کرنے کی اپنی قابلیت اور ٹوٹی چیزوں کو جوڑنے کے بارے میں پراعتماد محسوس کرتی تھیں۔ لیکن یہ نہیں۔

انھوں نے سوچا ’صرف چھ دن اور کوئی بھی اسے(میرے) بچے کو نہیں جانے گا۔‘ لیکن شدید غم کے عالم میں انھیں ایک خیال آیا جس سے انھیں تھوڑا سا سکون ملا۔

ویلنٹینا کہتی ہیں ’ہم نے سوچا کہ واحد چیز جس سے ہمارے دلوں کو تھوڑا بہتر محسوس ہو گا وہ یہ ہے کہ ہم اینجلو کے اعضا کو عطیہ کر دیں۔‘

’یہ کچھ ایسا تھا جو ہم واقعی کر سکتے تھے اور جو فضول نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ تب ہی یہ خوفناک سانحہ اسے مقصد کو پورا کر سکتا ہے۔‘

کنگز ہسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں کام کرنے والیں نرسیں ایمی اورینڈ ویلنٹینا اور لیوگی کے ساتھ تھیں جب انھوں نے اعضا عطیہ کرنے کی بات کی۔ ایمی نے ہسپتال میں اپنے پانچ سال کے دوران کبھی ایسی گفتگو نہیں سنی تھی۔

ایمی کہتی ہیں ’بالغوں کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں شاید ایسی بات ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی اردگرد بہت تشہیر ہوتی ہے لیکن ایک نومولود بچے کے والدین کے لیے اس پر بات کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔‘

لیکن یہ وہ والدین نے جنھوں نے خود اس گفتگو کا آغاز کیا۔ ان کے پاس وہ طاقت تھی جو وہ بیان نہیں کر سکتیں۔

ایمی کہتی ہیں کہ نوزائیدہ بچوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ کی ٹیم نے ہسپتال کی اعضا عطیہ کرنے والی ٹیم سے بات چیت شروع کی لیکن وہ بھی اس بارے میں پر یقین نہیں تھے کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں۔ یہ وہ کام نہیں تھا جو وہ پہلے کر چکے تھے، اور ایک اتنے چھوٹے بچے کے اعضا نکالنا اور انھیں ٹرانسپلاٹ کرنا چیلنجز سے بھرپور تھا۔

اینجلو رے کے خون کے کچھ ٹیسٹ کیے گئے تاکہ دیکھا جا سکے کہ ان کے کن اعضا کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خاندان کی خواہشات پوری کرنے کے لیے ہر چیز کو کامیابی سے سرانجام دیا گیا۔ ‘

ایمی کہتی ہیں ’آپ دیکھ سکتے تھے کہ اینجلو کے خاندان کے لیے یہ کتنا معنی رکھتا تھا، اس کا مطلب تھا کہ ان کا بیٹا کسی نہ کسی طرح زندہ رہ سکے گا۔‘

لائن

نوزائیدہ بچوں میں اعضا ٹرانسپلانٹیشن

ایک نوزائیدہ بچے سے اعضا کا عطیہ(جس کی عمر 28 دن سے کم ہو) انتہائی نایاب ہے۔ این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ کے مطابق دس برس میں اس عمر کے 40 بچے ڈونر بنے۔

26 بچوں نے ٹشوزجیسے کہ دل کے والوز اور آنکھ کے قرینے جبکہ 14 نے اعضا یا ٹشوز دونوں عطیہ کیے۔

جس سے ہر عمر کے مریضوں، بچوں سے لےکر بڑوں، تک کی زندگیاں بچانے میں مدد ملی۔ جہاں کچھ اعضا صرف چھوٹے بچوں کے لیے ہی مناسب تھے وہیں دوسرے اعضا جیسے کے گردے، بڑوں کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے تھے۔

لائن

لیکن پھر بھی ایک سوال باقی تھا کہ چھ برس کے لیون کو کیسے بتایا جائے کہ ان کا بھائی جسے دیکھنے کے لیے وہ بہت پر جوش تھے، ان کے ساتھ گھر آنے والا نہیں۔

ایمی کہتی ہیں کہ انھوں نے ویلنٹینا اور لیوگی سے ان کے بیٹے کو یہ بتانے کی اجازت مانگی۔

ایک الگ تھلگ کونے میں وہ دونوں چاکلیٹ کیک لے کر بیٹھ گئے اور انھوں نے لیون کو بتایا کہ ان کا چھوٹا بھائی کس قدر بیمار تھا۔

ویلنٹینا اور ایمی

ویلنٹینا اور ایمی

انھوں نے بتایا کہ اب وہ ان کے ساتھ گھر نہیں جائے گا اور اس کی جگہ جنت میں جائے گا۔ لیون نے انتہائی غور سے سنا۔ وہ اپنے والدین کے لیے بہت بہادر رہنے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کا صرف ایک سوال تھا ’اگر میں اداس محسوں کروں تو کیا یہ ٹھیک ہے۔‘

ویلنٹینا، لیوگی اور لیون نے اکٹھے اینجلو رے نام کا انتخاب کیا۔ فرشتے کے لیے استعمال کیا جانے واالا اطالوی لفظ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ فرشتہ صفت تھا اور رے اس لیے کیونکہ لیون اپنے بھائی کو R سے کوئی نام دینا چاہتے تھے۔

اینجلو کو لائف سپورٹ سے ہٹانے سے قبل لیون نے اپنے چھوٹے بھائی کے اردگرد موجود تمام تاروں اور ٹیوبز کو نظرانداز کرتے ہوئے، اسے ہاتھی کی ایک کہانی سنائی۔ انھوں نے کچھ تصاویر بھی بنائیں اور ان پر سٹکرز لگائے جنھیں اینجلو کے انکیوبیٹر میں چپکایا گیا۔ چھ سال کے لیون انکیوبیٹر میں موجود اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ سکتے تھے اور ان سے بات کرتے تھے۔ یہ سب ان کا الوداع کہنے کا طریقہ تھا۔

اینجلو کو لائف سپورٹ سے ہٹانے کا وقت آیا۔ ویلنٹینا اور لیوگی اپنے بیٹے کے ہمراہ آپریشن تھیٹر کے ساتھ ایک پرائیویٹ کمرے میں چلے گئے تاکہ جب ان کے بیٹے کا دل دھڑکنا بند ہو تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ہوں ۔

ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد بھی اینجلو سانس لے رہا تھا، تو ڈاکٹرز نے فیصلہ کیا کہ فیملی کو بچوں کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں ایک ساتھ وقت گزارنے دیا جائے اور قدرت کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے۔ والدین کو بتایا گیا کہ اینجلو کے مرنے کے بعد ان کے دل کے والوز کو عطیہ کیا جا سکتا ہے۔

وارڈ میں ویلنٹینا نے پہلی اور آخری بار اپنے بیٹے کو پکڑا۔ وہ کہتی ہیں ’میں کبھی اس کی خوشبو کو نہیں بھول پاؤں گی اور اس کی ملائم جلد کو۔‘

یہ وہ لمحہ تھا جب وہ میرے سینے پر موجود تھا اور میں نے محسوس کیا کہ جیسے ہمارے دل ساتھ دھڑک رہے ہوں۔ میں بیان نہیں کر سکتی۔ میں چاہتی تھی کہ اسے معلوم ہو کہ وہ اپنی ممی کے پاس واپس آ گیا ہے۔‘

اس کے کچھ ہی لمحے بعد اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

’اس نے اپنا آخری سانس میرے اوپر لیا، میری بازوؤں کے درمیان۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سی ماؤں کو یہ موقع نہیں ملتا اور یہ ایک ایسا شاندار تخفہ تھا جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔‘

اینجلو رے 30 جولائی 2016 کو وفات پا گئے، وہ صرف آٹھ دن کے تھے۔

جب وہ وفات پا گئے تو ان کے والدین نے سکون محسوس کیا۔ انھیں اینجلو کو غسل دینے اور مسیحی مذہب کے مطابق تیل لگانے کا موقع دیا گیا۔

ویلنٹینا کہتی ہیں ’میں نے اسے اچھا اور صاف بنایا، میں اسے ہسپتال میں کئی دن گزارنے کے بعد پاک کرنا چاہتی تھی۔‘

لباس

انھوں نے آہستگی سے دعا دی اور اینجلو کو نئی نیپی دی۔ انھوں نے اینجلو کو سفید رنگ کا لباس پہنایا جس پر چار دل بنے ہوئے تھے جو آپس میں ایک سنرے دھاگے سے منسلک تھے۔

دل کے والوز کو دس سال کے لیے محفوظ کیا جا سکتا ہے جن میں کئی افراد کی مدد کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ انھیں دل کی بیماری کے ساتھ پیدا ہونے بچوں اور ایسے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جن کے دل کے والوز خراب ہو گئے ہوں۔

اس خاندان کو بتایا گیا ہے کہ اینجلو کے دل کے والوز کو کامیابی سے ایک ایسے نومولود بچے میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے جو دل کی بیماری کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔

ویلنٹینا کو جب یہ علم ہوا تو وہ جذبات سے بھر گئیں: ’اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بچے کا ایک حصہ واقعی زندہ ہے اور یہ ایک عظیم مثال ہے۔‘

ایمی کہتی ہی کہ اینجلو رے اور ان کے خاندان نے ان پر گہرا اثر چھوڑا اور بحیثیت نرس انھیں تبدیل کر دیا۔

اب اگر کوئی بچہ معیار پر پورا اترتا ہو تو، کنگز کالج ہسپتال کا عملہ ہمیشہ والدین سے اعضا کے عطیہ کے بارے میں بات کرتا ہے۔

ایمی کہتی ہیں ’ اینجلو رے ہمارے سوچنے کے عمل میں تیزی سے تبدیلی لانے کا باعث بنا۔‘

ویلنٹینا کہتی ہیں کہ بیٹے کی موت کے بعد وہ خود کو دنیا سے لاتعلق محسوس کرتی تھیں۔

’دنیا اور میرے اردگرد موجود ہر شخص مختلف دکھائی دیتا تھا۔ اگر میں گلی میں لوگوں کو مسکراتے اور ہنستے دیکھتی تو میں سوچتی کہ میں نے ایک بچہ کھویا ہے، ہنسنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

’میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میں نے سوگ کے لیے وقت لیا۔ میں روئی، میں بستر میں رہتی، اور میں غصہ کرتی۔‘

لیوگی اور لیون کے ساتھ، آہستہ آہستہ ویلنٹینا نے بہتر محسوس کرنا اور دوبارہ سے دنیا کا سامنا کرنا شروع کر دیا۔ انھیں ڈاکٹر کی جانب سے صحت کی صاف چٹ مل گئی اور ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ اگر وہ چاہتی ہیں تو دوبارہ بچہ پیدا کرنا ان کے لیے محفوظ ہو گا۔

’اس وقت یہ بہت آسان تھا کہ خوف میری زندگی چلاتا اور میں سوچتی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اب اور بچے نہیں، میری زندگی ختم ہو گئی ہے۔ لیکن میری زندگی ختم نہیں ہوئی۔‘

اینجلو رے کے دو سال بعد اگست 2018 میں میٹیا پیدا ہوئیں۔ وہ مکمل طور پر صحت یاب تھیں اور اب 17 ماہ کی ہیں۔ ویلنٹینا کہتی ہیں ’میں میٹیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ کہ اس کا بھائی بہت ہی خاص بچہ تھا، جو اس دنیا کے لیے نہیں بنا تھا۔‘

’وہ آیا اور اس نے دوسرے لوگوں کو زندگی تخفہ دی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp