فرسودہ سوچ کا جوس


اتوار کا دن تھا، فروری کی ایک خوش گوار اور روشن صبح تھی۔ میں نے سوچا کیوں نہ آج کینو پارٹی کی جائے۔ خون کی کمی تو پہلے سے ہے تو سوچا ساتھ میں کوئی سات ایک کلو گاجریں بھی لائی جائیں اور دھوپ میں بیٹھ کر کینو گاجر کے جوس سے اتوار کو امر کیا جائے۔ تھیلا اٹھایا اور منڈی کا رخ لیا۔ باہر نکلا تو ایک دوست مل گیا۔ پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ میں بولا منڈی کی طرف تو کہنے لگا منڈی موڑ پر ایک نئی جوس شاپ کھلی ہے ادھر بیٹھتے ہیں۔

میں نے بھی جھٹ سے حامی بھر لی کہ کون اتنی محنت کرے چل کر ریڈی میڈ جوس ہی پیتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر آرڈر دیا اور بیٹھ کر گپوں میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران میرے سامنے ایک رکشہ آ کر رکا۔ رکشہ ڈرائیور نے اپنے دو بچے (ایک بیٹا ایک بیٹی) ساتھ بٹھا رکھے تھے۔ اس آدمی نے دو گلاس آرڈر کیے۔ میرے لیے یہ باعث تجسّس تھا کہ یہ تو تین لوگ ہیں اس نے دو گلاس کیوں آرڈر کیے۔ میں نے سوچا شاید خود نہ پینا ہو اور بچوں کو ہی پلانا ہو۔

اتنی دیر میں ہمارا آرڈر ہمارے سامنے تھا۔ میں نے اپنا گلاس اٹھایا اور اور اپنی نظریں پھر ادھر ان کی طرف ہی جما لیں۔ دکان دار کی آواز آئی چھوٹے یہ دو گلاس پکڑو اور سامنے رکشے پر بیٹھے بھائی کو دو۔ اس کے بعد جو میں نے منظر دیکھا وہ ہمارے معاشرے کی ایک بہت گندی اور تلخ حقیقت ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ میرے سامنے ہو رہا تھا۔ آدمی نے ایک گلاس پکڑا اور بیٹے کو دے دیا اور دوسرے گلاس سے خود پینا شروع کر دیا۔

آدھے سے زیادہ گلاس پی کر اس نے پھر اپنی بیٹی کو بچا کھچا دیا۔ وہ معصوم چھوٹی سی تھی ضد کرنے لگی، کہنے لگی بھائی کو پورا گلاس اور مجھے آدھا۔ اس پر کہنے لگا بیٹا وہ تمہارا بھائی ہے۔ یہ سن کر وہ چپ ہو گئی لیکن اس معصوم کی آنکھوں میں کئی سوالات تھے نہ جانے کتنے۔ میرا دل کر رہا تھا کہ اس آدمی کی سوچ کو جوسر میں ڈال کر رگڑ دوں۔ مطلب کب تک ہم اپنی ہی اولاد میں فرق کرتے رہیں گے۔ آج بھی کئی لوگ اسی فرسودہ سوچ کے حامل ہیں افسوس صد افسوس۔ چار دن ہو گئے اس واقعے کو لیکن ابھی تک اس واقعے نے ڈسٹرب کر رکھا ہے۔

سید عزیر احمد
Latest posts by سید عزیر احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments