ایودھیا میں مسجد کے لیے تجوتز کی جانے والی زمین پر مسلمانوں کو اعتراض کیوں؟


بابری مسجد

انڈیا کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا تھا

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مرکزی حکومت کے ذریعے ایودھیا میں رام مندر کے لیے ٹرسٹ بنانے کے اعلان کے ساتھ ہی اتر پردیش کی حکومت نے مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

گزشتہ برس نو نومبر کو سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے مندر مسجد تنازع کا فیصلہ سناتے ہوئے ایکوائرڈ زمین رام مندر کو دی تھی اور سنی وقف بورڈ کو مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم حکومت کو دیا تھا۔

لیکن حکومت نے جو جگہ دینے کی پیشکش کی ہے اس پر مسلم فریق اور ایودھیا کے عام مسلمانوں میں ناراضگی ہے۔

بدھ کو ریاستی کابینہ کی میٹنگ کے بعد حکومت کے ترجمان اور ریاستی وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ نے بتایا ’کابینہ کی میٹنگ میں پانچ ایکڑ زمین کے لیے قرارداد منظور ہو گئی ہے۔ ہم نے تین متبادل مرکزی حکومت کو بھیجے تھے جس میں سے ایک پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ زمین لکھنؤ ایودھیا ہائی وے پر ایودھیا سے تقریباً 20 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

رام مندر کی تعمیر کےلیے ٹرسٹ کا اعلان

بابری مسجد انہدام کی ڈرامائی تشکیل پر بحث

کیا بابری مسجد کسی مندر کی باقیات پر بنائی گئی تھی؟

بتایا جا رہا ہے کہ ریاستی حکومت نے دو دیگر زمینوں کی جو تجاویز بھیجی تھیں وہ ایودھیا – پریاگ راج روڈ پر واقع تھیں۔ ریاستی حکومت بابری مسجد کے بدلے یہ پانچ ایکڑ زمین سپریم کورٹ کے حکم پر دینے جا رہی ہے۔ لیکن ایودھیا کے مسلمان اور اس تنازعے کے کئی مسلم فریق اتنی دور زمین دیے جانے کی تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کا اعتراض کیا ہے؟

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، سید ظفریاب جیلانی نے حکومت کی اس پیشکش کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔

جیلانی کا کہنا ہے ’یہ پیشکش 1994 میں آئینی بنچ کے ذریعے اسماعیل فاروقی معاملے میں دیے گئے فیصلے کے خلاف ہے۔ اس فیصلے میں یہ طے ہوا تھا کہ مرکزی حکومت کے ذریعے ایودھیا کے متنازع مقام کے اطراف میں حاصل کی گئی 67 ایکڑ زمین صرف چار مقاصد مسجد، مندر، لائبریری اور زائرین کے ٹھہرنے کی عمارت کے لیے استعمال ہوگی۔ اگر اس سے کوئی زمین بچے گی تو وہ اس کے مالکان کو واپس کر دی جائے گی۔ ایسے میں مسجد کے لیے زمین اسی 67 ایکڑ میں سے دی جانی چاہیے تھی‘۔

بابری مسجد انہدام سے قبل

سنہ 1992 میں انہدام سے قبل بابری مسجد

سپریم کورٹ کے حکم پر یہ پانچ ایکڑ زمین سنی وقف بورڈ کو دی جانی ہے۔ لیکن سنی وقف بورڈ کی جانب سے اس بارے میں ابھی تک کوئی باضابطہ رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

حالانکہ بورڈ کے ایک رکن عبدالرزاق نے بی بی سی کو بتایا کہ ایودھیا سے اتنی دوری پر زمین دینے کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ کہ ’بورڈ کی میٹنگ میں اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کے لیے دباؤ بنایا جائے گا‘۔

جہاں تک سنی وقف بورڈ کا سوال ہے وہ حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتا ہے یا پھر قبول کرتا ہے اس کا فیصلہ بورڈ کی آئندہ میٹنگ میں کیا جائے گا۔ بورڈ کے ایک رکن نے بتایا کہ پہلے بورڈ کی میٹنگ 12 فروری کو ہونی تھی لیکن اب یہ 24 فروری کوہوگی ۔

لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے تمام ارکان حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں اور سنی وقف بورڈ پر بھی اسے قبول نہ کرنے کا دباؤ بنا رہے گا۔

پرسنل لا بورڈ کے ایک سینیئر رکن مولانا یاسین عثمانی کا کہنا تھا کہ ‘سنی وقف بورڈ مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہے۔ وہ حکومت کا ایک ادارہ ہے۔ ہم بورڈ سے زمین نہ لینے کی درخواست کر رہے ہیں۔ لیکن اگر بورڈ یہ زمین لیتا ہے تو اسے مسلمانوں کا فیصلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔’

ایودھیا میں بابری مسجد کی زمین کے مالکانہ حق کی لڑائی لڑنے والے ایک اہم فریق حاجی محبوب کو حکومت کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حابی محبوب کہتے ہیں ’اتنی دور زمین دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ ایودھیا کا مسلمان وہاں جا کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔ ہم تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں زمین نہیں چاہیے ۔ لیکن اگر دینی ہے تو اسے ایودھیا میں ہی اور شہر میں ہی دینی چاہیے۔ ایودھیا کے مسلمان تو اسے قبول نہیں کریں گے۔ باقی سنی وقف بورڈ کیا کرتا ہے یہ اس پر ہے۔‘

اس معاملے کے ایک اور فریق اقبال انصاری کہتے ہیں کہ ان لوگوں سے اس بارے میں کوئی رائے ہی نہیں لی گئی کہ زمین کہاں دی جانی ہے یا کہاں نہیں۔ اقبال انصاری کو بھی یہ پیشکش قبول نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں ’بابری مسجد ایودھیا میں تھی اور اس کے لیے زمین بھی وہیں دی جانی چاہیے۔ اگر حکومت ایودھیا میں زمین نہیں دیتی تو لوگ گھر میں بھی نماز پڑھ لیں گے۔ 25-30 کلو میٹر دور زمین دینے کا کیا مطلب ہے؟‘

مسجد کے لیے دی جانے والی زمین کہاں پر ہے؟

ریاستی حکومت نے مسجد بنانے کے لیے مسلمانوں کو دھنی پور گاؤں میں جو پانچ ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا ہے وہ منہدم کی جانے والی بابری مسجد کے مقام سے تقریباً 25 کلو میٹر دور ہے۔

یہ گاؤں ایودھیا ضلع کے سوہاول تحصیل میں آتا ہے اور روناہی تھانے سے کچھ ہی دوری پر واقع ہے۔

لیکن گاؤں کے پردھان (پنچایت کے سربراہ) راجیش یادو کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے لیے قخر کی بات ہے کہ ہمارا گاؤں دنیا کے نقشے پر نمایاں طور پر آ جائیگا۔ دنیا بھر کے لوگ اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آئیں گے۔ گاؤں کے نہ صرف مسلم بلکہ ہندو بھی حکومت کے اس فیصلے سے بہت خوش ہیں۔ گاؤں کے سبھی لوگ مسجد کی تعمیر میں ہر طرح کا تعاون دینے کے لیے تیار ہیں۔‘

بتایا جا رہا ہے کہ دھنی پور گاؤں میں جس جگہ زمین دینے کی قرارداد حکومت نے منظور کی ہے وہ مسلم آبادی کے قریب ہے اور پاس میں ہی ایک درگاہ ہے جہاں ہر برس میلہ لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp