بلوچستان: سیندک اور دودھڑ منصوبوں سے منسلک کارکنوں میں کورونا وائرس نہیں پایا گیا، حکام کا دعویٰ


پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں معدنیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اور پاکستانی کارکنوں کی کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے سکریننگ مکمل کر لی گئی ہے۔ حکام کے مطابق کسی بھی کارکن میں یہ مہلک وائرس نہیں پایا گیا ہے۔

بی بی سی کے نمائندے محمد کاظم کے مطابق چین کی سرکاری کمپنی میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا ریسورس ڈیویلپمنٹ لمیٹڈ (ایم سی سی ایم آر ڈی ایل) کے ایک سینیئر عہدیدار نے انھیں بتایا کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سیندک پراجیکٹ اور ضلع لسبیلہ میں دودھڑ پراجیکٹ پر کام کرنے والے تمام پاکستانی اور چینی کارکنوں کو سکریننگ کے مرحلے سے گزارا گیا۔

ان میں 480 چینی اور 2600 پاکستانی کارکنان شامل تھے۔

یاد رہے کہ چین میں اب تک اس وائرس کے 34 ہزار 546 کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ 722 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہانگ کانگ میں 26 لوگوں میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ ایک شخص کی ہلاکت ہوئی ہے۔ چین کے علاوہ 25 دیگر ممالک میں 270 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ فلپائن میں ایک شخص کی اس وائرس سے موت ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس کے علاج میں ابتدائی کامیابی

کورونا وائرس اور آن لائن پھیلنے والی غلط معلومات

کورونا وائرس سے امریکہ کو معیشت میں ’بہتری کی امید‘

اہلکار نے مزید بتایا کہ کورونا وائرس کی تصدیق نہ ہونے کے باوجود چینی کارکنوں کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے جبکہ جو لوگ ابھی چین میں ہیں، ان کی چھٹیوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

ووہان میں پہلی امریکی ہلاکت

دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوز کی صحافی مولی ہنٹر نے ٹوئٹر پر بیجنگ میں امریکی سفارت خانے کے حوالے سے بتایا کہ چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس سے پہلی امریکی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

انھوں نے امریکی سفارتخانے کے ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ووہان میں چھ فروری کو 60 سالہ امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی ہے۔

https://twitter.com/mollymhunter/status/1226014479739043841

کورونا وائرس ’امریکی سازش‘: روسی میڈیا

ویسے تو کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد سے انٹرنیٹ پر ہر جگہ سازشی مفروضوں کو دور دورہ ہے لیکن روس میں انھیں پرائم ٹائم خبرناموں میں جگہ دی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ روسی ٹی وی چینلز پر مستقلاً یہی نظریہ پیش کیا جا رہا ہے کہ پراسرار مغربی بااثر طبقات، خاص طور پر امریکہ اس کے ذمہ دار ہیں۔

ایک نمایاں قومی ٹی وی چینل، چینل ون نے تو اپنے شام کے نیوز پروگرام میں کورونا وائرس سے متعلق سازشی مفروضوں کو جگہ دینے کے لیے ایک باقاعدہ وقت مختص کر دیا ہے۔

ان کی رپورٹنگ کا طریقہ کار مبہم ہے اور بظاہر تو یہ ان سازشی مفروضوں کو غلط ثابت کر رہا ہوتا ہے، لیکن دیکھنے والوں پر یہ تاثر چھوڑ دیتا ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے۔

وریمیا (ٹائم) نامی اس پروگرام میں حال ہی میں ایک عجیب و غریب خیال یہ پیش کیا گیا کہ کورونا وائرس میں لفظ کورونا (جس کے روسی اور لاطینی زبان میں معنی تاج کے ہیں) اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں اس معاملے میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملوث ہیں۔

بظاہر یہ اس لیے ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ حسن کے مقابلوں کی صدارت کرتے تھے اور جیتنے والوں کو تاج پہناتے تھے۔

درحقیقت سائنسدانوں نے اس وائرس کو کورونا وائرس کا نام اس کی تاج جیسی شکل کی وجہ سے دیا تھا مگر وریمیا کے میزبان نے خبردار کیا ہے کہ اس تصور کو اتنی جلدی مسترد نہیں کرنا چاہیے۔

‘آپ کہیں گے کہ یہ نری بکواس ہے۔ اگر ہمارے نمائندے کی رپورٹ نہ ہوتی تو شاید میں آپ سے متفق ہوتا۔’

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے رد میں واضح ثبوت موجود ہیں مگر پھر کہتے ہیں ‘اپنے تجزیوں میں محتاط رہنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔’

یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ کئی مغربی حلقے بشمول دواساز کمپنیاں، امریکہ یا اس کے ادارے کسی نے کسی صورت میں وائرس پھیلانے یا اس کے بارے میں بے چینی پھیلانے میں ملوث ہیں۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ دواساز کمپنیوں کا مقصد کورونا وائرس کے خلاف ویکسین سے منافع کمانا ہے، یا امریکہ کے معاملے میں مقصد چینی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ اپنے حریف کو کمزور کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp