انڈیا کی حکومت: ‘خواتین میدان جنگ میں (مردوں جیسا) کردار ادا کرنے جیسی صلاحیت نہیں رکھتیں‘


ہندوستانی فوج

گذشتہ ماہ انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے حکومت کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ وہ خواتین پر جنگی کردار ادا کرنے سے متعلق عائد سرکاری پابندی پر از سر نو غور کرے اور مردوں کے شانہ بشانہ انھیں بھی اس قسم کا رول دے۔

عدالت نے کہا تھا کہ ‘ان کو مردوں کے معیار پر ہی پرکھا جائے۔ اور خواتین افسران کو علیحدہ درجہ نہ دیا جائے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایسا کرنے کے لیے (دقیانوسی) ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

انڈین حکومت: ’خواتین میدان جنگ کے لیے موزوں نہیں‘

رواں ہفتے کے ابتدا میں حکومت نے اس پر اپنا رد عمل دیا ہے۔ حکومتی وکلا نے موقف اختیار کیا کہ ‘خواتین میدان جنگ میں (مردوں جیسا) کردار ادا کرنے جیسی صلاحیت نہیں رکھتیں۔‘

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد فوجیوں کی ابھی تک خواتین کو کمانڈر کے روپ میں تسلیم کرنے کی تربیت ہی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو ‘زچگی، ماں بننے اور بچوں کی نگہداشت جیسی ذمہ داریاں درپیش رہتی ہیں۔’

فوجی تاریخ داں سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے کہ یہ دعوے ‘بے مثال اور رجعت پسندانہ ہیں’ اور یہ اس نوآبادیاتی دور کے حکمرانوں کے دعووں کی یاد دلاتے ہیں جو کہتے تھے کہ انڈین فوجی کبھی انڈین کمانڈروں کی بات نہیں مانیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘فوجی تربیت بنیادی طور پر ان طور طریقوں کو بدلنے کے لیے ہوتی ہیں جو فوجی اپنے سماجی پس منظر کے ساتھ لے کر آتے ہیں۔’

یہ بھی پڑھیے

امریکی فوج: خواتین اہلکاروں پر جنسی حملوں میں اضافہ

انڈین فوج میں افسران کی کمی کتنا بڑا چیلنج ہے؟

انڈیا کی مسلح افواج میں خواتین افسروں کی شمولیت سنہ 1992 سے شروع ہوئی۔ گذشتہ دہائیوں میں انھیں فضائیہ میں جنگی کردار ادا کرنے کے مواقع دیے گئے۔ انھیں فائٹر پائلٹ کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور انھوں نے جنگی محاذ پر حملے بھی کیے ہیں۔ جوں ہی ان کے لائق کشتیاں اور جہاز تیار ہوتے ہیں انھیں جہاز راں کے طور پر بھی شامل کیا جائے گا۔ گذشتہ سال ایک 24 سالہ خاتون بحریہ میں پہلی جاسوس پائلٹ بنیں۔

بحریہ

دہلی میں منعقدہ پریڈ میں بحریہ میں شامل خواتین کی ٹیم

لیکن اس سلسلے میں انڈیا کی بری فوج واضح استثنیٰ ہے۔ خواتین نے یہاں ڈاکٹر، نرس، انجینیئر، سگنل دینے والی، منتظمہ، اور وکیل کے طور پر کام کیا ہے۔ انھوں نے جنگی محاذ پر فوجیوں کا علاج کیا ہے۔ دھماکہ خیز مواد کو ہینڈل کیا ہے، بارودی سرنگوں کا پتہ چلایا ہے اور اسے ہٹایا ہے اور رابطے کے لیے تاریں بچھائی ہیں۔ خاتون افسروں کو ان کی لیاقت اور عہدے کے حساب سے 20 سال کی ملازمت کا مستقل کمیشن بھی دیا گیا ہے اور گذشتہ سال خواتین کے لیے فوجی پولیس میں شامل ہونے کا دروازہ کھلا ہے۔

اس طرح وہ بری فوج میں جنگ کرنے کے علاوہ ہر قسم کے کردار ادا کر چکی ہیں۔ خواتین کو اب تک پیدل فوجی کے طور پر یا بکتر بند گاڑیوں میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ سنہ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج میں خواتین فوجی کا فیصد صرف تین اعشاریہ آٹھ ہے۔ جبکہ فضائیہ میں ان کی موجودگی 13 فیصد ہے اور بحریہ میں چھ فیصد۔ 40 ہزار مرد افسروں کے مقابلے میں 1500 خواتین افسران ہیں۔

نمرتا

نمرتا چاندی نائیڈو انڈین فضائیہ میں سینیئر افسر ہیں

دہلی انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز میں تحقیق کرنے والی آکانشا کھلّڑ کا کہنا ہے کہ یہ ‘کسی طرح خاتون کو بااختیار بنانے کے سلسلے میں سنگِ میل نہیں کہا جا سکتا حالانکہ انتہائی محدود طور پر دروازے کھل رہے ہیں۔’ انھوں نے مجھے بتایا کہ ‘انڈیا کی صنف کی بنیاد پر قومی سلامتی کا بیانیہ بہت محدود ہے اور اس میں مردوں کی بہت زیادہ اجارہ داری ہے اور ساخت کی سطح پر ہی خواتین اس سے باہر ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ صنف کی بنیاد پر تفریق ‘اعلی سطح پر ادارہ جاتی رویے میں نظر آتا ہے اور دوسری فورسز کے مقابلے میں ‘شاید پدرشاہی خیالات بری فوج میں زیادہ ہیں۔’

وہ درست ہیں۔ سنہ 2018 میں سابق فوجی سربراہ اور نئے چیف آف ڈیفینس سٹاف جنرل بپن راوت نے ایک نیوز نیٹورک کو بتایا کہ کوئی خاتون جنگی محاذ پر لڑنے والوں میں شامل نہیں ہے کیونکہ ‘ایک خاتون محاذ پر بے چينی محسوس کرے گی۔’

انھوں نے کہا کہ زچگی کی چھٹیاں مسئلہ ہیں۔ ان کو زیادہ پرائیویسی اور تحفظ کی ضرورت ہے اور انڈیا ابھی محاذ پر مرنے والی خواتین کی لاش اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماتحت فوجیوں کی نظروں سے خواتین افسروں کو چھپانے کی ضرورت ہے۔ مسٹر راوت کے بیان پر خاطرخواہ غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں خواتین کو جنگی رول میں لایا جا رہا ہے۔ ایک درجن سے زیادہ ممالک خواتین کو جنگ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

سرحدی فوج

جب سنہ 2013 میں امریکی فوج میں خواتین کو جنگ کرنے کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا اس وقت اسے صنفی مساوات کی جانب مزید ایک قدم کے طور پر کافی سراہا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 2018 میں برطانیہ نے خاتون پر سے زمین پر سامنے سے جنگ کرنے پر لگی پابندی کو ہٹایا تھا جس سے ان کے بہترین مخصوص فورس میں خدمات انجام دینے کا راستہ کھلا تھا۔

اس وقت ناقدین نے اشارہ کیا تھا کہ دونوں اصناف پر مبنی ٹیم کے درمیان پاس سے کی جانے والی جنگ کے معاملے میں تال میل کی کمی کا خدشہ ہے اور یہ کہ خواتین کے ایروبک فٹنس اور دوسرے ٹیسٹ پاس کرنے کے امکان کم ہیں۔

ایک ریٹائرڈ انڈین جنرل ایچ ایس پنانگ نے کہا: ‘بعض یہ کہیں گے کہ عام طور پر خواتین جنگ میں درکار جسمانی قوت کی وجہ سے اتنی محنت نہیں کر پائيں گی لیکن ان سے یہ حق کیوں چھینا جائے جو ایسا کر سکتی ہیں؟ میرے خیال سے کسی بھی کردار میں خواتین کو شامل ہونے کا حق مردوں کے برابر ہونا چاہیے تاوقتیکہ جسمانی اور اہلیت کے معیار پر فرق نہ پڑے۔’

دوسرے الفاظ میں پدرشاہی ذہنیت کو مساوات اور عام فہم کے درمیان میں نہیں آنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp