احسان اللہ احسان کے فرار کا  ذمہ دار کون ہے؟


تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک مبینہ ویڈیو پیغام سامنے آنے کے 48 گھنٹے بعد بھی سیکورٹی ایجنسیوں یا پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ کیا دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث یہ شخص واقعی فوج کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے؟

میڈیا کے متعدد اداروں اور صحافیوں نے اس بارے میں سیکورٹی ایجنسیوں کے نمائیندوں سے رابطہ کیاہے لیکن اس خبر کی تردید یا تصدیق کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز احسان اللہ احسان کا جو ویڈیو بیان سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا ، اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ 11 جنوری کو فوج کی حراست سے بھاگنے میں کامیاب ہؤا تھا۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ اس نے فروری 2017 میں ایک معاہدے کے تحت خود کو پاکستانی ایجنسیوں کے حوالے کیا تھا لیکن اس سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے بلکہ اسے اہل خاندان سمیت قید کرلیا گیا۔ اس لئے اس نے حراست سے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کی اور اس میں کامیاب رہا۔ احسان اللہ احسان کے اس پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں پاک فوج اور اپنی گرفتاری کے حوالے سے مزید معلومات سامنے لائے گا۔

احسان اللہ احسان کے فرار کی خبر ایک براہ راست ویڈیو پیغام کی صورت میں تو 6 فروری کو سامنے آئی ہے لیکن اس بارے میں گزشتہ ماہ سے ہی خبریں گشت کررہی تھیں۔ بھارت کے ایک اخبار نے جنوری کے دوران احسان اللہ احسان کے فرار کے بارے میں ایک سٹوری فائل کی تھی۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر بھی گشت کرتی رہی تھی اور بعض پاکستانی اخباروں نے بھی اسے شائع کیا لیکن مین اسٹریم پاکستانی میڈیا نے بھارتی میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی اس خبر کو اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس موقع پر بھی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا کسی دوسرے سرکاری ترجمان نے اس معاملہ پر اظہار رائے ضروری نہیں سمجھا۔ اب یہ خبر ایک باقاعدہ ویڈیو کے ذریعے عام ہوئی ہے جس میں پاکستانی ایجنسیوں کا نام لے کر براہ راست الزام تراشی بھی کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری یا عسکری ذرائع نے اس بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا ہے۔

پاکستانی میڈیا اس دوران یہ تصدیق کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ کیا یہ آواز احسان اللہ احسان ہی کی ہے جس نے 2017 میں خود کو پاک فوج کے حوالے کرتے ہوئے اپنا نام لیاقت علی بتایا تھا۔ اب جاری ہونے والی ویڈیو بھی اسی نام سے بنے ہوئے ا کاؤنٹ پر ریلیز کی گئی ہے۔ ماضی میں احسان اللہ احسان کے ساتھ رابطےمیں رہنے والے بعض پاکستانی صحافیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ آواز احسان اللہ احسان نامی شخص ہی کی ہے جو کئی سال تک تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان رہا تھا اور جس پر دہشت گردی کے متعدد واقعات کا براہ راست الزام بھی عائد ہوتا ہے۔ اس کا اعتراف اس بیان میں بھی کیا گیا تھا جو پاک فوج کی طرف سے احسان اللہ احسان کے پاکستانی حکام کے حوالے کئے جانے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔ احسان اللہ احسان جن سنگین جرائم میں مرتکب رہا ہے ، ان میں دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے علاوہ اکتوبر 2012 میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ بھی شامل ہے۔

پاک فوج کی حراست سے ایک بدنام اور خطرناک دہشت گرد کا یوں فرار ہوجانا دہشت گردی کے  خلاف جاری جنگ اور عالمی سطح پر پاکستان کی شہرت کے حوالے سے سنگین سوالات سامنے لائے گا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کوئی شخص جس کے بارے میں خود فوج نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے خود کو حکام کے حوالے کردیا ہے اور اسے حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ پھر اس شخص کے اعترافات کی تشہیر کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کےواقعات میں افغان ایجنسی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث رہی ہیں۔ سرکاری ذرائع مختلف اوقات میں دہشت گردی کے واقعات میں غیر ملکی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے رہے ہیں ۔ اس حوالے اپریل 2017 میں بلوچستان سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو بنیاد بنا کر خاص طور سے مقدمہ استوار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ البتہ پاکستان نے کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر کبھی بھارت پر براہ راست ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بھی پاکستان اور بھارت کے سرکاری مؤقف میں بہت فرق ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اسے بلوچستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور وہ حاضر سروس نیوی کمانڈر تھا جبکہ اس کے برعکس بھارت کا یہ کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو ریٹائرڈ افسر تھا اور ایران میں اپنا کاروبار کرتا تھا کہ پاکستان کے ایجنٹوں نے اسے اغوا کرلیا ۔

یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف تک پہنچا جہاں بھارت کو یادیو تک قونصلر رسائی کی سہولت مل گئی لیکن اس کے باوجود اس معاملہ کی پوری تصویر کبھی سامنے نہیں آئی۔ کلبھوشن کو ایک فوجی عدالت نے دہشت گردی کے الزامات میں سزائے موت دے رکھی ہے جس کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔ لیکن پاکستان نے اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا۔ یہ معاملہ ابھی تک دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تنازعہ اور بداعتمادی کا سبب بنا ہؤا ہے۔ احسان اللہ احسان کے فوج کی تحویل میں آجانے اور اس اعتراف کے بعد کہ طالبان کی دہشت گرد کارروائیوں میں بھارتی اور افغان ایجنسیاں ملوث تھیں،  کلبھوشن یادیو کے خلاف پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہو گیا تھا۔ لیکن اب اس کے پراسرار طور مفرور ہوجانے کے بعد کلبھوشن کے خلاف پاکستان کا مؤقف بھی کمزور پڑے گا۔ بھارت اس معاملہ کو کئی طریقے سے پاکستان کے خلاف استعمال کرسکتا ہے اور پاکستانی نمائندوں کے لئے اپنی پوزیشن واضح کرنا مشکل ہوجائے گا۔

سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ احسان اللہ احسان جیسا جانا پہچانا دہشت گرد تین برس تک فوج کی تحویل یا نگرانی میں رہا لیکن اس کے خلاف کسی الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ متعدد حلقوں کی طرف سے اس کے خلاف مقدمہ قائم کرنے اور دہشت گردی کے الزامات میں اسے سزا دلوانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مطالبہ کرنے والوں میں آرمی پبلک اسکول کے ورثا کی تنظیم بھی شامل تھی۔ احسان کے فرار کی خبر سامنے آنے کے پہلے اس معاملہ میں پشاور ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی تھیں جن میں احسان اللہ احسان کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ اب اس کے اچانک فرار ہوجانے کی وجہ سے یہ سوال شدت سے سامنے آئے گا کہ کیا سول حلقوں کی طرف سے اس شخص کے خلاف عدالتی کارروائی کے مطالبے اور اس کے مبینہ فرار میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ کیا احسان اللہ احسان کچھ ایسے رازوں کا امین تھا کہ کسی عدالت میں پیش ہونے کی صورت میں ان کے فاش ہونے کا خطرہ تھا ؟ اور ملکی ادارے اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔

خاص طور سے اس سوالات کی روشنی میں احسان اللہ احسان کے فرار کی خبروں پر سرکاری خاموشی ، افواہوں اور قیاس آرائیوں میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ اس سے ایک تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خطرناک لوگ بھی ملکی اداروں کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کوئی اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور قصور واروں کا تعین کرکے انہیں سزا دینے کی روایت قائم نہیں کرتا۔ احسان اللہ احسان کا فرار ہونا جتنا افسوسناک ہے اس پر خاموشی اختیار کرنا اتنا ہی تکلیف کا باعث اور نقصان دہ ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے دعوؤں کے باوجود عالمی سطح پر اب بھی بھارت یہ مقدمہ قائم کرتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں دہشت گرد عناصر سے قریبی رابطے رکھتی ہیں۔ اور وقت ضرورت انہیں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھارت تو یہ دلیل دینا چاہتا ہے کہ یہ مقصد مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارت میں دہشت گردی ہوسکتا ہے لیکن مشکوک عناصر سے پاکستانی ایجنسیوں کے تعلقات اور گرفتاری کے بعد بھی ان کے بارے میں نرم رویہ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تصویر کو دھندلاتا ہے۔

پاکستان کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اب بھی اس کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ پر ہے اور عالمی لیڈروں سے وزیر اعظم عمران خان کے روابط کے بارے میں تمام تر دعوؤں کے باوجود کسی ملک نے یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ اس اس فہرست سے پاکستان کا نام نکلوانے یا بلیک لسٹ میں شامل نہ کرنے کے معاملہ میں پاکستان کی مدد کی جائے گی۔ شاہ محمود قریشی نے یہ ضرور کہا ہے کہ امریکہ سے اس بارے میں رابطہ ہؤا ہے تاہم حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والی امریکی سفارت کار ایلس ویلز نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا تھا کہ پاکستان کے پاس اس فہرست سے نکلنے کا آسان راستہ یہ ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے مشورہ پر عمل درآمد کرے۔ اب ایک عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد کی پراسرار گمشدگی اور اس پر ایجنسیوں کی خاموشی دہشت گردی، پاکستان اور فوج کا کردار کی تکون پر شبہات کے گہرے سایے ڈالنے کا باعث بنے گی۔

مئی 2011 میں ایبٹ آباد پاک فوج کی اکیڈمی کے ہمسایہ میں مقیم اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لئے امریکی فوج کے حملہ کے حوالے سے ابھی تک قوم کو حقیقت حال کا علم نہیں ہوسکا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسامہ بن لادن وہاں کس کی اجازت سے رہتا تھا اور اگر پاکستانی ایجنسیاں اس سے بے خبر تھیں تو  یہ ان کی نااہلی تھی یا کسی خفیہ مفاد کی تکمیل کے لئے جان بوجھ کر اس کی موجودگی سے نظریں چرائی جاتی تھیں۔ اسی طرح اس سوال کا جواب بھی دینا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ پاکستانی سرزمین پر امریکہ حملہ کیا براہ راست پاکستان کی خود مختاری پر حملہ نہیں تھا اور کیا بروقت اسے نہ روک کر عسکری کمزوری کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ اس معاملہ پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ کبھی عوام کے مطالعہ کے لئے عام نہیں کی گئی۔

اب احسان اللہ احسان فوج کی حراست سے مفرور ہؤا ہے۔ یہ واقعہ قومی سلامتی کے اداروں کی صلاحیت اور نیت کے بارے میں شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ اس خبر پر تفصیلات بتانے سے گریز کرکے شبہات اور بے یقینی کو تقویت دی جارہی ہے۔ یہ طرز عمل عوام اور فوج کے درمیان اعتماد کے رشتہ کو کمزور کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments