منا بھاگ گیا، ‘توں ماما لگدا ایں؟’


دو ایک روز پہلے میں اپنے شریر بھانجے کو لے کر بازار گئی۔ گو میں نے اپنے تئیں کس کر اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا مگر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایک پیار کرنے والی خالہ، اپنے معصوم اور شریر بھانجے کا ہاتھ کتنی سختی سے پکڑ سکتی ہے؟ بچہ بار بار ہاتھ چھڑاتا تھا اور یہ جا وہ جا۔

بھاگتے ہوئے وہ کہیں کپڑوں کے تھان اچھالتا تھا تو کہیں سڑک کنارے کھسے سجائے موچیوں کے جوتے بکھیرتا تھا، کہیں پھل والوں کے ٹوکرے الٹاتا تھا تو کہیں دہی بھلوں کے کونڈے پھوڑتا تھا۔ اسی بھاگم دوڑ میں کوئی زخمی بھی ہوا ہو گا، کسی بچے کو ضرب بھی لگی ہو گی۔

ہو جاتا ہے، ایسا بھی ہو جاتا ہے مگر لوگ تھے کہ زرافوں کی طرح گردنیں اچکا اچکا کر دیکھنے لگے، سب کو ایک ہی دھن لگی تھی، ‘بچہ کس کے ساتھ ہے۔’

ظاہر ہے اس قدر ٹوہ میں رہیں گے تو معلوم ہو ہی جائے گا کہ یہ بچہ، کس کا بچہ ہے؟ بس جی یہ معلوم ہو نے کی دیر تھی کہ راہ چلتوں نے میرا ناک میں دم کر دیا۔

پکڑ پکڑ کر بتانا شروع کر دیا، ‘آپ کا منا وہ جا رہا ہے، آپ کا منا یہ جا رہا ہے، آپ کے منے نے اب یہ کر دیا، آپ کے منے نے وہ بھی کیا تھا۔’

کان لپیٹ کے ناک کی سیدھ میں چلتے چلے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ سو میں بھی چلتی رہی۔ مگر اس پہ بھی لوگوں کو چین نہیں پڑا۔

بار بار یہ ہی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں کہ کوئی بیان کیوں نہیں دے رہیں ؟ اب آپ ہی بتائیں آپ اگر میری جگہ ہوتے تو کیا اس نازک موقعے پہ بیان دیتے پھرتے ؟

شرارتی بچوں کے بزرگوں کو اکثر اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

دروازے پہ کوئی قرض خواہ آ جائے اور ان سے کہا جائے کہ انھیں کہہ دو ابا جان گھر پہ نہیں تو جا کر یہ ہی بکتے ہیں کہ ابا جان کہہ رہے ہیں وہ گھر پہ نہیں۔

چاہے اس کے بعد قرض خواہ ابا جان کا گریبان ہی کیوں نہ پھاڑ جائے، انھیں اپنے ہنسی ٹھٹھول کے موقعے چاہیے۔

کبھی ان سے اپنی معصومیت میں کسی کے گھر کا کوئی قیمتی برتن ٹوٹ جائے، یا کچھ اور نقصان ہو جائے تو ہر وقت جھوٹ بولنے والے یہ ہی بچے من کے سچے بن جاتے ہیں اور لاکھ گھورنے اور ‘ہیں، ہیں’ کرنے پر بھی اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں ۔

یوں بڑوں کو خوار کرا کےجانے ان کی کس حس کو تسکین ملتی ہے؟ بچے شریر ہوں تو کیا بڑے شفقت کا چلن چھوڑ دیتے ہیں؟ آپ ہی کہیئے کیا بچوں کے ساتھ بچہ بنا جاتا ہے؟

بردباری، تحمل اور بزرگی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ ان کو نبھانا ہماری روایت ہے۔ احمد فراز نے شاید اسی موقعے کے لیے فرمایا،

اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے

کہنے کا مقصد یہ کہ بچوں کی شرارت سے اگر کسی کا سر پھوٹ جائے، کسی بزرگ کی ٹوپی گر جائے، چشمہ چوری ہو جائے، کھڑکی کا شیشہ تڑخ جائے تو کیا یہ بہت بڑا جرم ہے ؟

یہ تو معصومیت ہے اور اس معصومیت کی سزا بھی کیا دی جا سکتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ گھڑی بھر کو کان پکڑوا دیے جائیں، دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر دیا جائے۔ بہت ہوا تو ایک آدھ دن باہر کھیلنے سے منع کر دیا جائے، اس سے زیادہ کیا کریں ؟ کیا بچے کی جان ہی لے لیں ؟

مگر بھئی آج کل کے لوگ، جانے کیوں بچوں کو روبوٹ سمجھتے ہیں۔ ذرا کسی نے اچھل کود کی ، فورا شکایتیں لے لے کر ٹوٹ پڑے۔

اس حد تک دق کرتے ہیں کہ کبھی کبھار بچوں کو نانا کے گھر بھی بھیجنا پڑ جاتا ہے ۔ تس پہ بھی لوگوں کے دلوں میں بس ہی گھلا کرتا ہے، ذرا چین نہیں پڑتا۔ ڈائن سا کلیجہ ہو گیا ہے زمانے کا۔

بچوں کا تو چھوڑیں ان کے منہ تو ایسے کھل گئے ہیں اور زبانیں ایسے پھسلنے لگی ہیں جیسے آڑھی گوٹ پہ میرٹھ کی قینچی کہ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ غیاب پہ بھی بھٹیارنوں کے چنے ہی بھن رہے ہیں ۔

تڑ تڑ، بے لگام ،بے تکان بولے جا رہے ہیں ۔ چلا گیا، بھگا دیا، سرکاری مہمان تھا، فلاں تھا، الاں تھا۔

کوئی فرماتا ہے، اس کا انٹرویو کیوں کیا گیا تھا؟ تو کیا منہ سی کے بٹھا دیتے؟ اللہ رکھے منہ میں زبان تھی بولا۔ اب جلنے والے جلا کریں تو کسی کا کیا دوش؟

کسی دوسرے نے بے پر کی اڑائی کہ دوحا مذاکرات کی وجہ سے آزاد کیا۔ کوئی ارشاد فرماتا ہے کہ ترکی چلا گیا۔

بھئی تم لوگوں کو کوئی اور کام نہیں؟ جاؤ جا کے آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرو۔ اپنے گھر کی روٹی چینی پوری کرو، پٹرول، بجلی اور گیس کو رو۔

یہ کیا کی ہر معاملے میں ناک دے رہے ہو، ہر بات میں ٹانگ اڑا رہے ہو۔ سن لیا، بھئی سن لیا، ایک دفعہ چھوڑ ہزار دفعہ سن لیا کہ احسان اللہ احسان حراست سے فرار ہو گیا۔

مگر خبطیوں کی طرح ایک ساں دہرائے جا رہے ہیں، ‘آپ کا منا وہ جا رہا ہے، آپ کا منا یہ جا رہا ہے، آپ کے منے نے یہ کر دیا، آپ کے منے نے وہ کیا تھا۔’

کیا تھا تو کیا تھا۔ منا جانے، منے کی خالہ جانے آپ کون ہوتے ہیں فکر کرنے والے۔ دوسرے لفظوں میں، ‘توں ماما لگدا ایں؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).