او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس: سعودی عرب کی کشمیر پر ہچکچاہٹ سے پاکستان مایوس؟


سعودی عرب، شاہ محمود قریشی، او آئی سی، پاکستان، کشمیر، انڈیا، عمران خان، عادل الجبیر، دفتر خارجہ،

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی (درمیان) متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ امور شیخ عبداللہ بن زاید (دائیں) اور سعودی وزیرِ مملک برائے خارجہ امور عادل الجبیر (بائیں) کا اسلام آباد میں 4 ستمبر 2019 کو استقبال کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

جدہ میں اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تحت کونسل برائے وزرائے خارجہ (سی ایف ایم) کا 47 واں اجلاس آج سے شروع ہوگا جو 11 فروری تک جاری رہے گا۔

لیکن اس اجلاس میں اب زیادہ دلچسپی اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ سعودی عرب نے پاکستان کی کشمیر پر سی ایف ایم کا اجلاس بلانے کی درخواست اب تک قبول نہیں کی اور اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی ہچکچاہٹ پاکستان کے لیے مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے ملائیشیا کے اپنے حالیہ دو روزہ دورے میں ایک ملائشین تِھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر یک زبان نہیں ہے۔ ’ہم بٹے ہوئے ہیں۔۔۔ ہم ابھی تک کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہیں بلا سکے۔‘

لیکن اسی بارے میں دفترِ خارجہ کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ سعودی عرب ہچکچا رہا ہے۔ میں نے بذاتِ خود انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹ او آئی سی کے انڈیپینڈنٹ پرمننٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے پیش کی، لیکن اس کے باوجود کچھ خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔‘

یہ بھی پڑھیے

سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان کو کیا تسلی دے گا؟

مکہ اعلامیہ: فلسطین سے اظہار یکجہتی، اسلاموفوبیا پر تشویش

سعودی عرب نے او آئی سی میں آنے سے روک دیا: ایران کا الزام

سی ایف ایم کیا ہے؟

اگست 2019 میں انڈیا نے جب اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تو اُس کے ساتھ ساتھ کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات کا راستہ بھی بند ہوگیا۔

اس کے بعد سے پاکستان مختلف بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنا مؤقف بیان کرتا آرہا ہے اور ان پامالیوں کے نتیجے میں انڈیا کے خلاف کارروائی کا متمنی بھی ہے۔

او آئی سی 57 مسلمان اکثریت ممالک پر مشتمل کونسل ہے جس کے اندر بیشتر کمیٹیاں مسلم اُمّہ کو درپیش مسائل پر اپنی طرف سے تگ و دو کرتی رہتی ہیں۔

ان سبھی ممالک کے سربراہان کی مصروفیات اور ہفتہ وار ملاقات ممکن نہ ہونے کی صورت میں سی ایف ایم یعنی ان ممالک کے وزرا خارجہ کی ایک کونسل تشکیل دی گئی ہے، جو ان ممالک کے آپسی اور دیگر ممالک کے ساتھ مسائل اجاگر کرتے ہیں۔

دفترِ خارجہ کے ایک سینیر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ او آئی سی کا سی ایف ایم اجلاس دوسرا بڑا فیصلہ ساز اجلاس ہے۔

سی ایف ایم اجلاس ہر سال مختلف رکن ریاست میں ہوتا ہے۔ اب تک پاکستان نے چار سی ایف ایم اجلاس1970، 1980، 1993 اور 2007 میں منعقد کیے ہیں۔

جبکہ دفتر خارجہ کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ اگلے سال سی ایف ایم کا اجلاس اسلام آباد میں متوقع ہے۔

جہاں تک اس کے خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی بات ہے تو اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس فورم کو بروقت استعمال کیا جائے تو رکن ریاست اہم موضوعات پر دیگر مسلم ممالک کی توجہ لاسکتی ہے۔

او آئی سی کے تحت شکایات کا کوئی طریقہ کار تو نہیں ہے البتہ کشمیریوں کے حقوق اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی پامالیوں پر ایک جامع رپورٹ مرتب کی جاتی رہی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے کہا کہ ’سی ایف ایم میں شامل وزرائے خارجہ کا اثر و رسوخ اور لابی خاصی مضبوط ہوتی ہے، اور یہ مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین ان تمام معاملات پر دیگر ممالک کو اکٹھا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔‘

سعودی عرب، شاہ محمود قریشی، او آئی سی، پاکستان، کشمیر، انڈیا، عمران خان، عادل الجبیر، دفتر خارجہ،

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان جون 2019 میں او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے دوران

کشمیر پر سعودی حمایت کیوں ضروری؟

ریاض محمد خان نے کہا کہ بین الاقوامی فورمز سے زیادہ ہر ممبر ریاست کا اپنا اپنا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ ’اس اعتبار سے او آئی سی میں سعودی عرب کی بہت اہمیت ہے۔ ان کا ہیڈ کوارٹرز بھی وہیں ہے، فنڈنگ بھی سعودی عرب کرتا ہے۔‘

اس کے ساتھ اُن کا کہنا تھا کہ فلسطین کے معاملے پر بھی اگر کوئی سیر حاصل گفتگو ہوسکتی ہے تو وہ سعودی عرب کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ ’لیکن اب تک فلسطین پر عرب لیگ کے ذریعے یا کمیٹی کے اجلاس کے ذریعے بات نہیں کی گئی، تو یہ دو معاملات ہیں جو بار بار کہیں نہ کہیں رُک رہے ہیں۔‘

اسی بارے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (پی آئی آئی اے) سے منسلک سکالر معصومہ حسن نے بی بی سی کو بتایا کہ کشمیر کے معاملے پر زور زبردستی سے کام نہیں چلے گا۔

’ہم (پاکستان) سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہم تیل وہاں سے خریدتے ہیں اور سعودی عرب پاکستان میں اربوں کی سرمایہ کاری کررہا ہے تو پاکستان کشمکش میں ہے اور معاشی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ سعودی عرب کو مائل کرسکے۔‘

ملائشیا سمِٹ میں سعودی اصرار پر غیر حاضری

دسمبر 2019 میں ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کی سربراہی میں ’کوالالپمور سمٹ‘ ہوئی جس میں پاکستان نے شرکت نہیں کی۔

اس اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت کو سعودی عرب کے دباؤ کے تناظر میں دیکھا گیا تھا۔

عمران خان نے ملائشیا کے حالیہ دورے میں پچھلے دسمبر میں ہونے والے اجلاس میں غیر حاضری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوالالمپور میں ہونے والے سربراہی کانفرنس میں اس لیے شرکت نہیں کر سکے ’کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کے بہت قریب ہمارے کچھ دوستوں کو یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ کانفرنس اُمّہ کو تقسیم کردے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ واضح طور پر یہ ایک غلط فہمی تھی کیونکہ کانفرنس کے انعقاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد امّہ کی تقسیم نہیں تھا۔

اس واقعے کے بعد پاکستان کا کشمیر پر سی ایف ایم کا اجلاس بلانے کی درخواست کا مقصد ادل بدل کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ یعنی پاکستان اب سعودی عرب سے بدلے میں کشمیر پر سی ایف ایم کا اجلاس بلوانا چاہ رہا ہے، جس میں سعودی عرب کی دلچپسی نہیں ہے۔

سعودی عرب، شاہ محمود قریشی، او آئی سی، پاکستان، کشمیر، انڈیا، عمران خان، عادل الجبیر، دفتر خارجہ، ملائیشیا، ایران، مہاتیر محمد

ایران کے صدر حسن روحانی، ملائشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد، اور ترک صدر رجب طیب اردوغان کوالمپور سربراہی اجلاس کے دوران۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی

دفترِ خارجہ کے سینیئر افسر نے کہا کہ ’ہم کیسے بدلے کی امید کرسکتے ہیں؟ پاکستان کو بُری معیشت سے نمٹنے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں جس کے بدلے میں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر خاموش ہوجاتا ہے۔خاموش نا بھی ہونا چاہے تو مجبور کردیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کشمیر پر انڈیا کی جارحانہ پالیسی کے باوجود تمام خلیجی ممالک انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اس کے نتیجے میں کشمیر میں ہونے والی خونریزی دبا دی جاتی ہے۔‘

اسی حوالے سے ماہرین کا خیال ہے کہ آج ہونے والے اجلاس میں کشمیر پر ایک دو قراردادوں کے علاوہ کسی عملی اقدام کی امید زمینی حقائق کے منافی ہے۔

کشمیر ڈپلومیسی پر تنقید پر دفترِ خارجہ کا ردِعمل

پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس وقت دفترِ خارجہ کے کشمیر سے منسلک فیصلے اور اقدام پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ جس پر خلافِ توقع دفترِ خارجہ نے بھی اپنی حالیہ بریفنگ میں جواب دیا ہے۔

حال ہی میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے وزارتِ خارجہ کی کشمیر پر کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عمران خان مسئلہ کشمیر کو بہت آگے لے جاچکے ہیں، لیکن اُن کو اداروں کی طرف سے خاص طور پر وزارتِ خارجہ کی طرف سے کوئی خاص مدد حاصل نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی فورمز پر کشمیر میں 5 اگست کے بعد سے ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانی چاہیے۔

جب دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ کشمیر کوئی ایک روزہ ایونٹ نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے، جس کا پاکستان ایک اہم حصہ ہے۔‘

دوسری جانب او آئی سی کے فورم پر پاکستان کی ترجمانی کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ ’کچھ اوقات بات کرنے کے لیے موزوں ہوتے ہیں اور کچھ اقدام اٹھانے کے لیے، اس وقت پاکستان کے لیے بات کرنا موزوں ہے۔‘

او آئی سی چھوڑنے کی تجویز کتنی قابل عمل؟

جہاں ایک طرف وزارتِ خارجہ کی کارکردگی پر سوال کیے جارہے ہیں تو وہیں پارلیمان کے ایوان بالا کے چند ارکان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو او آئی سی سے نکل جانا چاہیے۔

اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھا کہ او آئی سی کا حال ’اقوامِ متحدہ سے بھی گیا گزرا‘ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ او آئی سی کبھی بھی مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچی، چاہے وہ 1990 کی دہائی میں بوسنیا اور فلسطین میں ہونے والی مظالم ہوں یا کشمیر کا مسئلہ ہو۔

انھوں نے تنقید کی کہ دنیا اور خاص کر مسلم ممالک مفاد پرست ہوچکے ہیں۔

سعودی عرب، شاہ محمود قریشی، او آئی سی، پاکستان، کشمیر، انڈیا، عمران خان، عادل الجبیر، دفتر خارجہ، ملائیشیا، ایران، مہاتیر محمد

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں اعلان کیے گئے منصوبے پر او آئی سی کے جدہ میں خصوصی اجلاس میں ایران کے مطابق ایرانی وفد کو نہیں آنے دیا گیا

لیکن جب یہی سوال ریاض محمد خان سے کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’او آئی سی کو چھوڑ کر پاکستان کیا حاصل کرلے گا؟ اُلٹا ہم مزید تنہائی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس وقت او آئی سی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کشمیر کے معاملے پر جدوجہد کرنی چاہیے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’چاہے پاکستان سعودی عرب کا ساتھ دے یا نہ دے، سعودی عرب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جبکہ پاکستان کو کشمیر اور ملک کی معیشت سے منسلک اقدام سوچ کر اٹھانے ہوں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp