آئزک سنگر کی سلائی مشین نے خواتین کی زندگی اچانک کیسے سہل کی


سنہ 1899 میں آئزک میرٹ سنگر کی سلائی مشین کا اشتہار

شیونگ مصنوعات بنانے والی کمپنی جیلیٹ کے اشتہارات زہریلی مردانگی کے خلاف ہیں۔ اسی طرح بڈوایزر ایسے مخصوص کپ بناتا ہے کہ وہ لوگ جو کسی مخصوص صنف سے تعلق نہیں رکھتے انھیں اپنی شناخت پر ناز محسوس ہو۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو ’ووک کیپیٹل ازم‘، یعنی اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے سماجی مسائل اور تحریکوں کا سہارا لینے کی یہ مثالیں نئی محسوس ہوں لیکن ووک کیپیٹل ازم اتنا نیا بھی نہیں ہے جتنا شاید آپ سمجھ رہے ہوں۔

سنہ 1850 میں سماجی ترقی کو یقینی طور پر مزید آگے بڑھنا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

طلبا کے لیے ’مردانہ حقوق‘ کی کلاسز

’مرد خواتین سے بہتر ہیں‘ کیا بچے یہی پڑھتے ہیں؟

فیشن ایبل کپڑوں کی سستے دام دستیابی کیسے ممکن ہوتی ہے؟

اس سے کچھ برس پہلے ایک امریکی مہم جو الزبتھ کیڈی سٹینٹن نے خواتین کے حقوق کے کنونشن میں عورتوں کے لیے ووٹ کے حق کا مطالبہ کر کے ایک تنازع پیدا کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ ان کے حامی بھی پریشان تھے کہ یہ بہت ہی غیرمعمولی خواہش ہے۔

پیلا بیج

اسی دوران بوسٹن میں اداکاری میں ناکامی کا سامنا کرنے والا ایک شخص اپنی قسمت کو ایجادات کے میدان میں آزمانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس نے ایک ورکشاپ کے شو روم میں جگہ کرائے پر لی۔ وہ شخص پرامید تھا کہ لکڑی پر کندہ کاری کرنے والی اس کی مشین فروخت ہو سکے گی۔ لیکن اب اس کا رواج ختم ہو رہا تھا۔ کوئی بھی اسے خریدنا نہیں چاہتا تھا۔

ورکشاپ کے مالک نے اس مایوسی کا شکار ہونے والے موجد کو بلایا اور اسے ایک اور پراڈکٹ دکھائی جو کہ ایک سلائی مشین تھی۔ وہ بہت اچھی طرح کام نہیں کرتی تھی۔ کئی دہائیوں تک بہت کوششوں کے باوجود کوئی بھی ایک کارآمد سلائی مشین نہیں بنا پایا تھا۔

واضح طور پر یہ ایک اچھا موقع تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت درزیوں کی اجرت بہت کم تھی۔

نیویارک ہیرالڈ کے مطابق ’ہم کسی اور طبقے کی خاتون کے بارے میں نہیں جانتے کہ انھیں اپنے کام کی اتنی کم اجرت ملتی ہو یا پھر وہ اس سے زیادہ تنگ دستی اور مشکلات کا سامنا کرتی ہوں۔‘

ایک شرٹ بنانے میں 14 گھنٹے لگتے تھے اور اِس وقت کو کم کرنا کسی خزانے کو پانے سے کم نہیں تھا۔

یہ فقط درزی ہی نہیں تھے جو کہ مشکلات کا سامنا کر رہے تھے بلکہ بہت سی مائیں اور بیٹیاں ایسی تھیں جن سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ کپڑے خود سیئیں۔

مصنفہ سارہ ہیل کے بقول یہ کبھی نہ ختم ہونے والا اور بہت پہلے شروع ہونے والا کام ہے۔ اور یہ ان خواتین کے لیے ایک طویل اور تھکا دینے والا کام ہے۔

بوسٹن کی اس ورکشاپ میں اس موجد نے اس مشین کا جائزہ لیا اور اسے کہا گیا کہ وہ اس کا جائزہ لیں اور اس کے بارے میں رائے دیں۔

’آپ اس واحد چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو عورتوں کو خاموش رکھتی ہے۔‘


اداکاری میں ناکامی کے بعد موجد بننے والے اس شخص کا نام آئزک میرٹ سنگر تھا۔ وہ ایک شعلہ صفت، کرشماتی اور سخی انسان تھے لیکن وہ بہت سخت طبیعت کے مالک بھی تھے۔ وہ خواتین کے بہت دلدادہ تھے اور ان کے بچوں کی تعداد 22 تھی۔

آئزک میرٹ سنگر

کئی برس تک وہ تین خاندانوں کی کفالت کرتے رہے اور ان خاندانوں کے افراد کو ایک دوسرے کے بارے میں علم بھی نہیں تھا۔ ان میں سے ایک عورت نے یہ شکایت کی کہ انھوں نے انھیں مارا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ سنگر خواتین کے حقوق کے فطری حامی نہیں تھے۔ اگرچہ ان کے برتاؤ نے شاید کچھ خواتین کو اس مقصد کے لیے متحد کر دیا ہو۔

ان کی سوانح عمری لکھنے والے روتھ برینڈن کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کی وجہ سے خواتین کے حقوق کی تحریک مضبوط ہوئی۔

سنگر نے سلائی مشین کے پہلے نمونے کا تجزیہ کیا۔

انھوں نے ورکشاپ کے مالک کو بتایا کہ وہ مشین کے گول پہیے کو ایک عمودی لائن پر آگے اور پیچھے کی جانب حرکت دیں گے اور مشین میں سوئی جو کہ افقی سمت خمدار حالت میں ہے اسے سیدھا اوپر نیچے کی جانب کریں گے۔

سنگر نے اس تبدیل شدہ مشین کے ڈزائن کو اپنے نام سے رجسٹر کروا کر مشینوں کو فروخت کرنا شروع کیا۔ یہ بہت متاثر کن ڈیزائن تھا اور یہ کارآمد ثابت ہوا۔ یہ مشین ایک گھنٹے میں ایک شرٹ تیار کر سکتی تھی۔

سلائی مشین

پہلی سنگر سلائی مشین کو سنہ 1851 میں لائسنس ملا۔

بدقسمتی سے انھیں اپنی سلائی مشین کے لیے ایسی بہت سی دیگر ایجادات کا سہارا لینا تھا جو پہلے سے دیگر موجدوں کی جانب سے رجسٹرڈ تھیں۔ مثال کے طور پر شٹل، سوئی، کپڑے کو دھاگے کی مدد سے سینے میں مدد دینے والے لاک سٹچ کا پرزہ وغیرہ۔

سنہ 1850 میں سلائی مشین کی نام نہاد جنگ کے دوران متحارب مینیوفیکچررز سلائی مشین بیچنے سے زیادہ ایک دوسرے کو حاصل رجسٹرڈ حقوق کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

آخر کار وکیلوں نے اپنے سر جوڑے اور اس جانب نشاندہی کی کہ ان کے درمیان چار طرح کے لوگ ہیں جو ایک مشین بنانے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کے رجسٹرڈ حقوق رکھتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو لائسنس دیں اور اکھٹے ہو کر کام کریں تاکہ ہر شخص کو سلائی میں مدد ملے۔


پھر قانونی رکاوٹوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سلائی مشین کی مارکیٹ اوپر گئی اور سنگر اس پر چھا گئے۔

دوسرے لوگ تو مشین کی تیاری کے لیے جدید طریقۂ کار پر منتقل ہو گئے جسے اس وقت امیریکن سسٹم کہا جاتا تھا، لیکن سنگر پرانی ڈگر پر ہی تھے۔ کئی برس تک ان کی مشینوں میں ہاتھ کے ذریعے بننے والے پرزے اور سٹور سے خریدے گئے پرزہ جات ہی استعمال ہوتے رہے۔ ان میں میں پیچ اور بولٹس وغیرہ شامل تھے۔

سنگر اور ان کے کفایت شعار بزنس پارٹنر ایڈورڈ کلارک مشین بنانے کے فن کی داغ بیل ڈالنے والوں میں ہیں۔

سلائی مشین بہت مہنگی ہوتی تھی یہ ایک اوسط گھرانے کے لیے کئی ماہ کی آمدن جتنی قیمت رکھتی تھی۔

کلارک اس حوالے سے خریداروں کے لیے ایک نیا آئیڈیا لے کر آئے۔ آئیڈیا یہ تھا کہ خاندان ہر ماہ کچھ ڈالر ادا کر کے مشینوں کو قسطوں پر لے سکتے ہیں اور جب رقم پوری ہو جائے تو وہ مشین کے مالک بن جائیں۔

سنگر سلائی مشین کا اشتہار

اس کی وجہ سے بری شہرت کی حامل یعنی کئی سال پرانی اور کم قابل اعتماد مشینوں کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد ملی۔

یوں سنگر کی جانب سے ان کے ایجنٹس جن کے ذریعے لوگ یہ مشین خریدتے تھے انھیں مشین کو چیک کرنے کے لیے واپس بلایا جاتا تھا۔

ابھی بھی اس کی مارکیٹنگ میں مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور وہ مسئلہ عورت کے خلاف عداوت کا تھا۔

اس وقت دو ایسے کارٹون سامنے آئے جس میں ایک میں ایک مرد پوچھتا ہے کہ آپ سلائی مشین کیوں خریدیں گے جب کہ آپ باآسانی کسی سے شادی کر سکتے ہیں۔

دوسرے کارٹون میں ایک سیلزمین کہتا ہے کہ عورتوں کو اپنی عقل بہتر کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔

اس کا بے تکا پن سمجھ آتا ہے۔

اس تعصب پر مبنی انداز نے ان شہبات میں اضافہ کیا کہ ایک عورت اتنی مہنگی مشین بھی چلا سکتی ہے۔

سنگر کے بزنس کا انحصار اس پر تھا کہ خواتین اسے استعمال کر سکتی ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ خود عورتوں کو اپنی زندگی میں کتنی عزت دیتے ہیں۔

انھوں نے نیویارک میں براڈ وے کے مقام پر ایک دکان خریدی اور ایک نوجوان خاتون کو مشین کی رونمائی کے لیے نوکری پر رکھا۔ اس کے لیے بہت سے لوگ وہاں آئے۔

سنگر کے اشتہاروں میں خاتون کو فیصلہ ساز دکھایا گیا۔

اسے براہ راست خاندان کی خواتین کو بیچا جاتا تھا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو معاشی طور پر خود کفیل ہونا چاہیے۔ ہر خاتون جو مشین چلانا جانتی ہو وہ سالانہ ایک ہزار ڈالر کما سکتی ہے۔

سنہ 1860 میں نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ کسی اور ایجاد نے ہماری ماؤں اور بیٹیوں کے لیے اتنی آسانی نہیں پیدا کی۔ اس سے درزنوں کو بہتر معاوضہ بھی ملتا ہے اور محنت بھی کم کرنی پڑتی ہے۔

سنہ 1907 کی سلائی مشین

اس میں بھی ٹائمز نے صنفی تعصب کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس ایجاد کو بھی مرد کی عقلمندی کے مرہون منت قرار دیا۔

پھر بھی ہمیں کسی عورت سے پوچھنا چاہیے۔

سنہ 1860 میں سارہ ہیل لکھتی ہیں ’سوئی والی عورت رات کو آرام کے قابل ہے۔ اس کے پاس دن کو خاندان کے دیگر کام کرنے اور تفریح کے لیے وقت ہے۔ کیا یہ دنیا کے بہت بڑے فائدوں میں سے نہیں ہے۔‘

بہت سے لوگ سرمایہ دارانہ نظام میں کمپنیوں کے فائدے کے لیے سماجی تحریکوں کے استعمال پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ فقط مزید شراب، استرے اور دیگر اشیاء بیچنے کے لیے ایک دھوکہ ہے۔

شاید ایسا ہی ہے۔

سنگر یہ کہنا پسند کرتے تھے کہ انھیں فقط پیسے سے غرض ہے۔

لیکن وہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ ذاتی فائدے بھی سماجی ترقی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp