اسلامک ری پبلک آف تھارن کلف اور نیاگرا کی جلوہ آ رائیاں(سفر نامۂ کینیڈ ا۔ 5 )


کینیڈا میں ہماری عارضی رہائش حامد بھائی کا گھر تھا، جو ٹورنٹو کے مرکز سے 40 منٹ مشرق کی جانب، تھارن کلف Thorncliffe) ) نامی بستی میں واقع ہے۔ وہاں داخل ہوتے ہی عجیب سا احساس دامن گیر ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ پاکستان یا افغانستان کے کسی علاقے میں آ گئے ہوں۔ وہاں پر رہائش پذیر لوگ تھوڑے سے اداس اور بلا وجہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر رہائش فلیٹوں میں ہے۔ بلڈنگ کی لفٹ ہو، پارکنگ ایریا ہو یا پھر فٹ پاتھ، پاس سے گزرتے لوگ ایک دوسرے سے نظریں چراتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ ہیلو، ہائے تو کجا سلام دعا یا مسکراہٹ کا تبادلہ تک نہیں کرتے۔

یہاں دار السلام نامی ایک مسجد بھی موجود ہے۔ یوں بقول شخصے، اس جگہ کو ”اسلامک ری پبلک آف تھارن کلف“ کہا جا سکتا ہے۔ یہاں پر ایک اقبال ریسٹورنٹ ہے، جہاں فرائی مچھلی بہت اچھی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اقبال اسٹور ہے۔ جہاں ہر قسم کی اشیاء خورد و نوش بمعہ پاکستانی و ہندوستانی مصالحہ جات دستیاب ہیں۔ البتہ، اس علاقے میں میخانہ نام کی کوئی شے سرے سے ناپید ہے۔

تھارن کلف میں اکثر بزرگ حضرات سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح لیے نظر آئیں گے اور کسی اجنبی کو دیکھ کر سلام دعا کرنے کی بجائے منہ دوسری طرف پھیر لیں گے۔ اسی طرح وہاں پر خواتین سے آداب و تسلیمات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ دعائیہ کلمہ سن کر خواتین آپ کو ایسے گھورتی ہیں جیسے کوئی نا زیبا پیش قدمی کر دی ہو۔

یہاں زیادہ تر چینی، افغانی اور پاکستانی آباد ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے مسجد میں دینی درس و تدریس کا انتظام ہے۔ حامد بھائی سماجی خدمات (Community Service ) میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں نے حامد بھائی سے گزارش کی کہ مسلمان بچوں کی دینی تعلیمات، قرائت اور حفظ کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی اور مروجہ اخلاقی روایات اپنانے کی تربیت کا بندو بست بھی کیا جانا چاہیے۔ اور بچوں کو ایک بہتر اور خوش اخلاق انسان بنانے پر بھی زور دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ عمر رسیدہ افراد کے لیے تعلیم بالغاں کی شکل میں جدید طرز معاشرت سے آگاہی کا بندوبست بھی کیا جانا چاہیے۔ اس بات پر حامد بھائی مسکرا دیے۔

کیلگری سے واپس ٹورنٹو آکر ہمارے پاس کینیڈا میں ابھی تین دن اور تھے۔ ہم نے ایک دن مرزا یسین بیگ اور ڈاکٹر سہیل کے ساتھ گزارنے کا عہد کر رکھا تھا۔ دوسرے دن کینیڈا ون ٹی وی پر انٹرویو اور تیسرا دن رخت سفر باندھنے کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔

اگلے دن صبح سویرے ڈاکٹر سہیل نے ہمیں تھارن کلف سے لیا اور مسی ساگا میں مقیم مرزا یاسین بیگ کے ہاں پہنچے۔ مرزا یاسین بیگ ایک باکمال مزاح نگار ہیں۔ آپ کینیڈا ون ٹی وی چینل سے ”جوڑ توڑ“ کے نام سے نشر ہونے والے، ایک طنز ومزاح پر مبنی سیریل کے نہ صرف لکھاری ہیں بلکہ ڈرامے کا مرکزی کردار ( علیل جبران) بھی ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ طنز و مزاح پر مبنی دو کتب، ”پارچے“ اور ”دیسی لائف ان کینیڈا“ کے مصنف بھی ہیں۔

نیاگرا کی آبشاریں ہم نے اس سے قبل دیکھ رکھی تھیں۔ چنانچہ، طے ہوا کہ اس دفعہ نیاگرا آن دی لیک  کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہوا جائے۔ ضلع نیاگرا انگوروں کے وسیع باغاتVineyards اور لاتعداد وائنریز Wineries، یعنی شراب کشید کرنے کی بھٹیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں دنیا کی بہترین وائین بنتی ہے۔ انگور کے باغات کی سیر کو نکلیں تو آپ کو جگہ جگہ خوبصورت کیبن نظر آئیں گے۔ یہ وائن شاپس ہیں۔ جن کے برآمدے جنت کا نظارہ پیش کرتے ہیں کیونکہ وہاں حوران خلد جو انگور کے تازہ اور مہکتے خوشوں کی طرح خوبصورت ہیں، آ پ کو وہاں کی کشید شدہ وائن چکھنے کے لئے پیش کرتی ہیں۔ وہاں کی خاص سوغات آئس وائن ہے۔ جس کا خمیر منفی درجہ حرارت میں زیر زمین پرورش پاتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو کوئی سوغات خریدنے کے لیے اندر کیبن میں جا سکتے ہیں جہاں پر قدرے کم نرخوں کے عوض آپ کی پسند کی مئے ناب دستیاب ہوتی ہے۔

نیاگرا شہر کی خاص بات وہاں پر موجود ایک تھیئٹر The Royal George Hall ہے جس میں ہر سال جارج برنارڈ شا کے ڈراموں کا میلہ لگتا ہے۔ ملک بھر سے آئے ارباب ذوق ایک ہفتے تک اس مشہور انگریزی ڈرامہ نگار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اس کے ڈرامے لایؤ دیکھتے ہیں۔ ہال کے سامنے انیسویں۔ بیسویں صدی کے عظیم تخلیق کار، جارج برنارڈشا کا ایک دلآویز مجسمہ بھی نصب ہے۔ ایک سو ساٹھ ڈراموں کے مصنف، اور ادب کے نوبل انعام یافتہ آئرلینڈ کے باسی جارج برنارڈ شا کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ دلکش انداز ہمیں بہت بہایا۔ ہم پر یہ بات عیاں ہوئی کہ حقیقت پسند، روشن خیال اور ترقی پسند قوموں کے ہیرو بڑے لیڈر، تخلیق کار، ادیب، شاعر اور فلسفی ہوتے ہیں۔ حملہ آور، جنگجو اور لٹیرے نہیں ہوتے۔

مجسمہ دیکھنے کے بعد ہمارے دل میں اس حسرت نے انگڑائی لی : کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور یا اسلام آباد کے کسی چوراہے پر یا الحمراء جیسے مقامات پر، ڈاکٹر انور سجاد، سعادت حسن منٹو، حسینہ معین، اشفاق احمد، منو بھائی، ریاض بٹالوی اور امتیاز علی تاج جیسے ڈرامہ نگاروں میں سے کسی کے مجسمے کیوں نصب نہیں ہو سکتے؟ مگر یہ اس صورت ممکن ہے جب حکومت فن اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کا کوئی پروگرام رکھتی ہو۔ اور معاشرہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ مگر جس معاشرے میں فنون لطیفہ کو لہو و لعب سے تعبیر کیا جائے، وہاں پر فنکار وں کے مجسمے نہیں، مرگ انبوہ کا ماتم ہوتا ہے اور گمنام مقبرے بنتے ہیں۔

شفاف اور نیلے پانی سے جھل تھل، وسیع و عریض جھیل انتاریو نے کنگسٹن کی طرح شہر نیاگرا کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ شہر کی سیر کے دوران آپ تازہ مچھلی کے کباب، مئے ناب اور ہر طرف بکھری رنگینیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ایک خوبصورت گالف کورس اور کشتی رانی کی سہولت کے علاوہ جھیل کنارے قدرے بالیں مقام پر ایک اوپن ائر ریستوران بھی ہے۔ جہاں پر ہم نے اپنی پسندیدہ آب جو او ر سینڈوچ کے ساتھ ہلکا پھلکا لنچ کیا۔

نیاگرا شہر کی سیر کے دوران مرزا یاسین بیگ نے تصویر کشی کے علاوہ اپنے مخصوص انداز میں طنزو مزاح پر مبنی دلکش جملوں سے ہمیں محظوظ کیے رکھا۔ شام ڈھلنے تک ہم لوگ تھکاوٹ اور بھوک سے نڈھال ہو چکے تھے۔ شہر کے مرکز ی علاقے میں ایک دلفریب ریستوران میں ڈنر کے دوران مختلف ادبی موضوعات زیر بحث جاری رہی۔ نیاگرا کی یادیں لے کر رات گئے تھارن کلف میں واپسی ہوئی۔

اگلے روز، بارہ بجے، کینیڈا ون ٹی وی پر حمیرا شامی نے ہمارا انٹرویو کرنا تھا۔ انھوں نے صبح نو بجے ہی ہمیں لانے کے لئے اوبرUber ہماری رہائش پر بھجوا دی تھی۔ دو دہائیوں سے کینیڈا میں مقیم، توانائی سے بھرپور اور ہمہ جہت، حمیرا شامی ایک کامیاب ٹوور آپریٹر Tour Operator ہیں۔ وہ بیرون ملک سے کئی سیاحتی وفود کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے، لے جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی کام بھی خوب دل جمعی سے کرتی ہیں۔ آپ چترال جیسے دور دراز، دشوار گزار اور پس ماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے تعلیم و تربیت کے مراکز بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ حمیرا شامی صحافی بھی ہیں اور ”کینیڈا ون“ ٹی وی پر ایک پروگرام کی پروڈیوسر اور میزبان بھی۔

حمیرا نے ہمارا بطور مترجم اور لکھاری قریب پون گھنٹے کا انٹرویو کیا۔ گفتگو خاصی دلچسپ رہی۔ میں نے ان کو اپنی تازہ کتب بھی پیش کیں۔ انھوں نے میری ادبی کاوشوں کو دل کھول کر داد دی۔ میں ان کی مہمان نوازی، حوصلہ افزائی اور قدر دانی کا سپاس گزارہوں۔ انٹرویو کے بعد وہ مجھے ایک لبنانی ریستوران میں لے گئیں۔ جس کا ماحول عربی نخلستان جیسا تھا۔ دنبے کے کباب، مرغ قورمہ، لبنانی چٹنی، عربی نان اور حمیرا شامی کی کامیاب زندگی کی دلچسپ داستان نے دیر تک ایک طلسماتی سماں باندھے رکھا۔

شام ڈھلنے سے قبل ہم واپس اسلامک ری پبلک آف تھارن کلف پہنچ چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments