بحیرہ ہند میں سمندری حیاتیات کے ماہرین کی ڈوبتے جزیرے کو بچانے کی کوشش


جزیرہ

BBC
</figure>&#1575;&#1606;&#1672;&#1740;&#1575; &#1575;&#1608;&#1585; &#1587;&#1585;&#1740; &#1604;&#1606;&#1705;&#1575; &#1705;&#1746; &#1583;&#1585;&#1605;&#1740;&#1575;&#1606; &#1705;&#1726;&#1604;&#1746; &#1587;&#1605;&#1606;&#1583;&#1585; &#1605;&#1740;&#1722; &#1586;&#1605;&#1740;&#1606; &#1705;&#1740; &#1575;&#1740;&#1705; &#1670;&#1726;&#1608;&#1657;&#1740; &#1587;&#1740; &#1662;&#1657;&#1740; &#1608;&#1575;&#1606; &#1580;&#1586;&#1740;&#1585;&#1729; &#1705;&#1729;&#1604;&#1575;&#1578;&#1740; &#1729;&#1746; &#1580;&#1587; &#1705;&#1746; &#1575;&#1585;&#1583; &#1711;&#1585;&#1583; &#1670;&#1605;&#1705;&#1578;&#1746; &#1606;&#1740;&#1604;&#1746; &#1662;&#1575;&#1606;&#1740;&#1608;&#1722; &#1662;&#1585; &#1587;&#1740;&#1606;&#1705;&#1681;&#1608;&#1722; &#1605;&#1575;&#1729;&#1740; &#1711;&#1740;&#1585;&#1608;&#1722; &#1705;&#1740; &#1705;&#1588;&#1578;&#1740;&#1575;&#1722; &#1605;&#1587;&#1604;&#1587;&#1604; &#1578;&#1740;&#1585; &#1585;&#1729;&#1740; &#1729;&#1740;&#1722;&#1748; &#1575;&#1587; &#1580;&#1586;&#1740;&#1585;&#1746; &#1662;&#1585; &#1740;&#1729; &#1575;&#1740;&#1705; &#1575;&#1606;&#1578;&#1729;&#1575;&#1574;&#1740; &#1605;&#1581;&#1601;&#1608;&#1592; &#1575;&#1608;&#1585; &#1606;&#1575;&#1586;&#1705; &#1582;&#1591;&#1746;&#1548; &#1711;&#1604;&#1601; &#1570;&#1601; &#1605;&#1606;&#1575;&#1585; &#1576;&#1575;&#1574;&#1740;&#1608;&#1587;&#1601;&#1740;&#1585; &#1585;&#1740;&#1586;&#1585;&#1608; &#1705;&#1740; &#1588;&#1585;&#1608;&#1593;&#1575;&#1578; &#1729;&#1608;&#1578;&#1740; &#1729;&#1746;&#1748;

ان پانیوں میں انڈیا کی سب سے زیادہ حیاتیاتی تنوع رکھنے والی اور طرح طرح کی ساحلی پٹیاں ہیں۔ یہاں انڈیا میں پائی جانی والی مچھلی کی 2200 اقسام کا 23 فیصد، کیکڑے کی 106 اقسام اور گھونگھوں کی 400 سے زیادہ اقسام کے ساتھ ساتھ انڈو پیسیفک کی بوٹل نوز ڈولفن، فنلیس پورپوئز اور ہمپ بیک وہیل بھی شامل ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ لاکھ ماہی گیر اپنے روزگار کے لیے اسی سمندری ذخیرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اور وان جزیرہ اس دنیا کا دروازہ ہے۔ اس جزیرے پر مرکزی ساحل سے کشتی کے ذریعے آدھے گھنٹے کی مسافت اور 47 دیہات تک باآسانی رسائی ممکن ہے جو اس بڑی آبادی والے ساحل کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

جزیرہ وان ماہی گیروں کے لیے طوفانوں سے بچاؤ اور محققین کے لیے ہمیشہ ایک مقبول مرکز رہا ہے۔ لیکن گزشتہ 50 برسوں سے یہ تیزی سے سکڑ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بن بیاہی ماؤں کےلیے موت کا جزیرہ

ایک جزیرہ جہاں بچے جینا نہیں چاہتے

عورتوں کے لیے ممنوع جزیرہ عالمی ورثہ قرار

سنہ 1986 میں جب ایشیا میں اپنی نوعیت کے پہلے ایسے محفوظ آبی علاقے خلیج منار بائیو ریزرو کا قیام بحیرہ لاکاڈائیو میں عمل میں لایا گیا تھا تو اس خطے میں اس طرح کے 21 جزیروں کو محفوظ کیا گیا تھا۔

اب یہاں صرف 19 ہی ہیں۔ دو جزیرے ڈوب چکے ہیں اور وان وہ اگلا جزیرہ ہے جس کو ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1973 میں وان 26.5 ہیکٹر (65 ایکڑ) پر مشتمل تھا، جو سنہ 2016 میں سکڑ کر صرف 4.1 ہیکٹر (10 ایکڑ) رہ گیا تھا۔

اس وقت کٹاؤ اتنا زیادہ تھا کہ محققین کا اندازہ تھا کہ یہ 2022 تک مکمل طور پر سمندر برد ہو جائے گا۔

جزیرہ

Getty Images
سمندری گھاس نوجوان مچھلیوں اور غیر فقاری جانوروں کو اپنے آپ کو چھپانے کے لیے صحیح ماحول مہیا کرتی ہے، جبکہ تحلیل شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے اور آکسیجن اور غذائیت سے بھرپور ماحول پیدا کرتا ہے

وان جیسے چھوٹے مگر ماحولیاتی نعمتوں سے مالا مال جزیروں کے ختم ہونے کی وجوہات، یہاں ماہی گیری کے ناپائیدار طریقے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور بڑی تعداد میں مرجان کی کان کنی ہیں، جن پر اب اس علاقے میں پابندی عائد کردی گئی ہے۔

جزیروں تک پہنچنے والی لہروں کو روکنے کے لیے مصنوعی چٹانیں بنائی گئیں اور وہ کارگر تھیں لیکن وان اور اس کے ہمسایہ جزائر کو طویل مدتی مستقبل دینے کے لیے پورے ماحول کو ہی محفوظ کیے جانے کی ضرورت تھی۔

جنوبی انڈیا کے قریبی ساحلی شہر تھتھوکودی میں سوگانتھی دیوداسن میرین ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی ایم آر آئی) کے سمندری حیاتیات کے ماہر گلبرٹ میتھیوز نے جزیرے کے ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے ایک سادہ سے سمندری پودے سی گراس یعنی سمندری گھاس کا سہارا لیا ہے۔

اکثر سمندری کائی کو غلطی سے سی گراس سمجھا جاتا ہے۔ سی گراس (سمندری گھاس) سمندر میں اگنے والے ایسے پودے ہوتے ہیں جو زیر آب اچھی طرح سے جڑوں، تنوں اور پتوں کے ساتھ اگتے ہیں۔ وہ پھول، پھل اور بیج پیدا کرتے ہیں اور سمندری ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

گلبرٹ میتھیوز کا کہنا ہے کہ ‘مرجان کی طرح یہ سمندری گھاس بہت سے سمندری جانوروں جیسے سمندری گھوڑے اور چھپکلی مچھلیوں کو رہائش فراہم کرتی ہے، جو سال بھر سمندری گھاس میں پائے جاتے ہیں۔’

سمندری گھاس نوجوان مچھلیوں اور غیر فقاری جانوروں کو اپنے آپ کو چھپانے کے لیے صحیح ماحول مہیا کرتی ہے، جبکہ تحلیل شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے اور آکسیجن اور غذائیت سے بھرپور ماحول پیدا کرتا ہے۔

اپنی تلچھٹ کو پھنسانے کی صلاحیت کے ساتھ سمندری گھاس قدرتی فلٹر کے طور پر بھی کام کرتی ہے، پانی کو صاف کرتی ہے اور کٹاؤ کی رفتار سست کرتی ہے۔

گلبرٹ میتھیوز نے سب سے پہلے سنہ 2008 میں وان جزیرے کے اطراف میں سمندری گھاس کا سروے کیا تھا۔ وہ ایک مہینے میں دو بار آٹھ آٹھ گھنٹے تک زیر آب غوطہ لگاتے۔ انھوں نے مایوسی کے کے ساتھ سمندری گھاس کے بہت سے گچھوں کو اپنے آس پاس تیرتے ہوئے دیکھا تھا۔

یہ جزیرے برصغیر میں سمندری گھاس کے سب سے ہرے بھرے باغات رکھتے تھے لیکن اب یہ باغات بکھر رہے تھے۔

یہ ٹہنیاں ماہی گیروں کی جانب سے ٹرالر کشتیاں چالنے کی وجہ سے ٹوٹی تھیں جو کم گہرے پانی میں دو یا دو سے زیادہ جال باندھتے ہیں۔ کم گہرے پانی میں مچھلی پکڑنا اور سمندری گھاس کو خراب کرنا انڈیا میں غیرقانونی ہے، لیکن نگرانی کے ناقص نظام کی وجہ سے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔

ٹرالر کشتیاں مچھلیوں اور خول دار آبی حیات کے شکار کے ساتھ ساتھ سمندری گھاس کی ہری ٹہنیوں کو بھی سمندر سے نکال لیتی تھیں جنھیں بعد میں ساحل کے ساتھ ہی ڈھیروں کی تعداد میں پھینک دیا جاتا۔

سمندری گھاس کو تباہ کر کے، ٹرالر چلانے والے ماہی گیر نادانستہ طور پر اس ماحولیاتی نظام کو برباد کر رہے تھے جس پر ان کا انحصار تھا۔ ان پانیوں میں سمندری گھاس کی کمی جو اس ماحولیاتی نظام کی بنیاد ہے، کے بغیر مچھلیوں کا ذخیرہ کم ہو گیا تھا۔

2011 سے 2016 کے درمیان کی گئی تحقیق میں گلبرٹ میتھیوز نے پایا کہ خلیجِ پالک میں جہاں بحرِ ہند کا پانی خلیجِ بنگال میں شامل ہوتا ہے، وہاں 45 مربع کلومیٹر سمندری گھاس کو نقصان پہنچا تھا۔ خلیج منار میں 24 مربع کلومیٹر سمندری گھاس تباہ ہو چکی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا خیال تھا کہ ان پانیوں میں سمندری گھاس کو بحال کرنے سے ہم جزیرے کو مضبوط بناسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اس کو بچا سکتے ہیں اور دوسروں کو سمندر برد ہونے سے روک سکتے ہیں۔’

میتھیوز جانتے تھے کہ سمندری گھاس کو بحال کرنا ایک چیلنج ہوگا۔ آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کی ماہرِ سمندری حیاتیات مشیل ویکاٹ کی سربراہی میں 215 مطالعوں کے عالمی جائزے سے پتا چلا کہ پوری دنیا میں سمندری گھاس تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

سنہ 1980 کے بعد سے ہر سال 110 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ان سمندری گھاس کے میدان جو انڈین شہر چندی گڑھ کے رقبے کے برابر ہیں، ہر برس ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ سنہ 1879 میں جب سے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے گئے ہیں، تب سے اب تک مجموعی طور پر دنیا سے 29 فیصد سمندری گھاس ختم ہوچکی ہے۔

لیکن اگر وان جزیرے کے آس پاس سمندری گھاس کو دوبارہ پیدا کیا جاسکتا ہے تو وہ کاربن جذب کرنے کے طور پر بھی کام کرسکتے ہیں۔

ایس ڈی ایم آر آئی کے ڈائریکٹر ایڈورڈ جے کے پیٹرسن کہتے ہیں کہ ’سمندری گھاس کی بوائی اور بحالی سے دنیا کے اس نازک حصے میں موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کا ایک حل ہے جو اکثر طوفانوں اور تیز ہواؤں کی زد میں رہتا ہے۔‘

پہلے محققین نے سمندر کی ریتیلی سطح سے سمندری گھاس کے گچھوں کو براہ راست کھینچنے اور انھیں ایسی جگہوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی جہاں سے یہ گھاس بری طرح ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اس سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ٹرالر کشتیوں نے ان کی محنت کو خراب کرتے ہوئے سمندری گھاس کو وہاں سے بھی اکھاڑ لیا۔

یہ بات واضح تھی کہ ٹیم کو دوسرا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم دنیا کے دوسرے حصوں میں استعمال ہونے والی بحالی کی اکثر تکنیکیں مہنگی اور زیادہ محنت طلب تھیں اس لیے یہ کام قابل عمل نہیں تھا۔

مثال کے طور پر، سمندری گھاس کو اگانے کا ایک معروف طریقہ اس کے بیجوں کو پھیلانا اور ان کی بوائی تھی لیکن یہ قابل عمل نہیں تھا کیونکہ ان کی کیاریوں کو سمندر کے اندر کھودنا اور ہر ایک بیج کو ہاتھ سے لگایا جانا تھا۔

میتھیوز اور ان کے ساتھیوں نے اگلے آٹھ برس سمندری گھاس کو بچانے کے لیے ایک بہتر طریقے پر کام کرنے کی کوشش میں گزارے۔ دریں اثنا جزیرے کا کٹاؤ جاری رہا اور سنہ 2013 میں وان جزیرہ سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ سنہ 2016 میں خلیج منار نے مرجان کی بدترین تباہی دیکھی جس میں اس کے 16 فیصد مرجان کے پودے ختم ہو گئے۔’

مرجان اور سمندری گھاس کی بحالی جڑواں منصوبے تھے، کیونکہ مرجان اور سمندری گھاس دونوں تیز لہروں کی راہ میں قدرتی رکاوٹ فراہم کرتے ہیں اور زمین کے کٹاؤ کو کم کرتے ہیں۔

ایس ڈی ایم آر آئی کے سائنس دانوں نے تب تک سمندری گھاس کی پیوند کاری کی بہتر تکنیک میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ نرم مرجانوں کی ماہر محقق مہالکشمی بوپاتھی نے اس نئے طریقہ کار کو آزمانے کے لیے سنہ 2016 میں اپنی ‘غوطہ خور ساتھی’ اراتھی اشوک جو خود بھی مرجان کے اسفنج کی ماہر ہیں کے ساتھ ٹیم میں شامل ہوگئی۔

ایک مہینے میں متعدد بار بوپاتھی اور اشوک کے دن کا آغاز صبح 5 بجے سمندر میں غوطہ لگانے کے ساتھ ہوتا۔ سب سے پہلے انھوں نے خلیج منار کے باقی ماندہ 19 جزیروں اور آبنائے پالک کے ساتھ ان مقامات کا جائزہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سے زیر زمین علاقوں کو زیادہ سمندری گھاس کی ضرورت ہے اور کن علاقوں میں ان کی زبردست افزائش ہو رہی ہے۔

مؤخر الذکر جگہوں سے نقصان کی شکار جگہوں کی بحالی کے لیے ’عطیہ‘ لیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے پودوں اور مچھلیوں کی آبادی کا حساب لگاتے ہوئے اس علاقے کے حیاتیاتی تنوع کا بھی جائزہ لیا۔

جہاں بہت ساری سمندری گھاس موجود تھی وہاں حیران کن طور پر سمندری حیات کی بہتات تھی۔ اشوک کہتی ہیں کہ ’مجھے ایک بڑی تعداد میں سمندری سفنج (مسام دار آبی جاندار جس کا ڈھاچہ مضبوط لچکدار اور باہم جڑے ریشوں پر مبنی اور جسم سبو نما تھیلی پر مشتمل ہوتا ہے) مل گئی جو 30 برس قبل ان پانیوں میں آخری بار دیکھنے کو ملی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ پرسرار مخلوق ہیں۔‘

اس کے بعد انھوں نے منتخب ڈونر سائٹوں سے سمندری گھاس کے بالغ پودے اکٹھے کیے۔ بیوپتی کا کہنا ہے کہ ‘ان کی کھدائی کرتے وقت آپ کو خاص طور پر محتاط رہنا پڑتا ہے۔’ ان پودوں کی دو طرح کی جڑیں ہوتی ہیں ایک جو عمودی طور پر اور دوسری افقی طور پر بڑھتی ہیں جنھیں نقصان پہنچائے بغیر ان پودوں کو نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیے

ماسکو میں ’خوابوں کا جزیرہ‘

جزیرے سے مسیحی مشنری کی لاش کی بازیابی کا کام معطل

انٹارکٹکا میں پگھلتا ’ڈومز ڈے‘ گلیشیئر

پودوں کو تھیلوں میں ڈالنے سے قبل بوپتھی اور اشوک نے انھیں سمندری پانی سے اچھی طرح دھویا تاکہ ان پر سے مٹی صاف ہو جائے۔ ابتدائی ناکام کوششوں سے معلوم ہوا کہ انھیں اضافی مٹی کے ساتھ کے ساتھ دوبارہ لگانے سے سورج کی روشنی رک جاتی تھی جس سے پودوں کی نشوونما رک جاتی۔

اس کے بعد ٹیم نے ان تھیلوں کو ان کشتیوں میں ڈالا جہاں دیگر ٹیم ارکان سمندری پانی سے بھرے کنٹینرز کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔ ان کنٹینرز میں ڈبو کر سمندری گھاس کو پھر ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹرانسپلانٹ کی جگہوں تک لے جایا جاتا ورنہ یہ پودے مر جاتے۔

جب یہ اپنے ہدف، یعنی سابقہ باغوں کی بنجر باقیات پر پہنچتے تو ان کے تنوں کو ایک مربع میٹر (11 مربع فٹ) کے ایک پلاسٹک کے فریم (کواڈریٹ) سے جوٹ کے دھاگوں سے باندھ دیا جاتا جس میں خانے بنے ہوتے۔ جوٹ کی چھ رسیاں ان خانوں سے تقریباً 120 تنوں کو باندھ سکتیں۔

جڑوں کو ویسے ہی چھوڑ دینا پڑتا تا کہ جب ٹرانسپلانٹ کیا جائے تو وہ زمین میں اپنی جگہ بنا لیں۔ موسم کے مطابق ٹیم روز ایسے 80 کواڈریٹ لگا دیتی جس میں ہر کسی میں تنے جڑے ہوتے۔ اگر یہ تنے خوش قسمت ہوتے تو یہ وان جزیرے کو آپس میں جوڑے رکھتے۔

اشوک کہتی ہیں کہ جڑوں کو زیرِ آب کیچڑ اور گرد آلود زمین میں اپنی جگہ بنانے میں دو سے تین ماہ لگے۔ جب انھوں نے جگہ بنا لی تو وہ واپس غوطہ لگا کر جاتے اور پلاسٹک کے ان خانوں کو باہر نکال لیتے۔

انھوں نے بحال ہو چکے مقامات کا قریبی معائنہ کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ سمندری گھاس اپنی جگہ بنا رہی ہے یا نہیں۔ ہر ماہ ٹیم سمندری گھاس کی نشوونما پر اثرانداز ہونے والے ماحولیاتی عوامل کو ماپتی جس میں پانی کا درجہ حرارت، نمکیات، تیزابیت، پانی میں ارتعاش، مٹی کا جمع ہونا اور آکسیجن کی سطح شامل ہیں۔

پانچویں ماہ تک ٹیم کو کامیابی کے آثار نظر آنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جزیرے کی سمندری گھاس واپس آ رہی ہے۔ ان پلاسٹک کے فریمز نے ان پودوں کو جڑ پکڑنے کے لیے درکار اضافی استحکام دیا۔

بوپاتھی کہتی ہیں کہ ‘ہم ان علاقوں میں حیاتیاتی تنوع میں اضافہ واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ یہاں پر ہم نے فِن فش، گھونگھوں، گھوڑا مچھلی اور سمندری کچھوے بھی دیکھے۔’ اس کے علاوہ جن سمندری گھاس کے باغات سے پودے لیے گئے تھے، انھوں نے بھی اپنی کمی کو واپس پورا کر لیا اور پہلے سے بھی زیادہ گھنے ہو گئے۔

مگر جب مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات واپس آنے لگی تو اس کے ساتھ ساتھ مچھیرے بھی واپس آ گئے۔ ماہیگیروں کے جالوں میں تازہ تازہ لگائی گئی سمندری گھاس بھی پھنسنے لگی۔ ٹیم غوطہ لگاتی اور کھینچ لیے گئے تنوں کو واپس ان کی جگہ پر لگاتی۔ اپریل اور ستمبر کے دوران خراب موسم کی وجہ سے ان کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی مگر باقی آٹھ ماہ جب سمندر پرسکون ہوتا تو بحالی کے پراجیکٹ میں تیز رفتاری کے ساتھ پیش رفت جاری رہتی۔

ٹرالروں کے خلاف دوڑ کا مطلب ہوتا کہ طویل عرصے تک پانی کے نیچے رہنا اور کشتی پر جلدی جلدی کھانا کھانا۔ بوپاتھی کو ایک موقع یاد ہے جب ایک مرتبہ انھوں نے ٹھنڈ لگ جانے کے باوجود غوطہ لگایا تھا جس سے ان کے ناک سے خون آنا شروع ہوگیا تھا۔ اشوک کو یاد ہے کہ مرجان کی چٹانوں کے پاس سے گزرتے ہوئے انھیں خراشیں لگ گئیں تھیں۔ مگر سمندری گھاس کو واپس اگتے ہوئے دیکھنا ان سب پریشانیوں کو دور کر دیتا۔ بوپاتھی کہتی ہیں کہ ‘ماحول کو واپس بحال ہوتے اور تنوع میں اضافہ دیکھنا ہی ہمارے لیے کسی انعام سے کم نہ تھا۔’

وان جزیرے کے کٹاؤ کو روکنے کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی جس کی وجہ سے یہ محقق اتنی لگن سے اپنے کام میں مصروف رہے۔ سمندری گھاس کے باغات کا ختم ہونا زمین پر جنگلات کے کٹاؤ کے طرح ہوتا ہے اور اس سے ایک تباہ کن سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کیونکہ سمندری گھاس درجہ حرارت میں تبدیلی کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں۔

انڈین شہر پونے کے انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹروپیکل میٹرولوجی میں موسمیاتی تبدیلی کی ماہر روکسی میتھیو کول کہتی ہیں کہ ‘حالیہ چند دہائیوں میں سمندروں کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ نے کاربن ذخیرہ کرنے والے سمندری گھاس کے باغات کو سکیڑ کر رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں عالمی حدت میں اضافہ ہوتا ہے۔’

آبی حیات

Getty Images
</figure><p>&#1575;&#1587; &#1587;&#1576; &#1705;&#1740; &#1608;&#1580;&#1729; &#1587;&#1746; &#1576;&#1608;&#1662;&#1575;&#1578;&#1726;&#1740;&#1548; &#1575;&#1588;&#1608;&#1705; &#1575;&#1608;&#1585; &#1575;&#1606; &#1705;&#1746; &#1587;&#1575;&#1578;&#1726;&#1740;&#1608;&#1722; &#1705;&#1740; &#1705;&#1608;&#1588;&#1588;&#1740;&#1722; &#1575;&#1608;&#1585; &#1576;&#1726;&#1740; &#1586;&#1740;&#1575;&#1583;&#1729; &#1576;&#1585;&#1608;&#1602;&#1578; &#1602;&#1585;&#1575;&#1585; &#1662;&#1575;&#1578;&#1740; &#1729;&#1740;&#1722;&#1748; &#1585;&#1608;&#1705;&#1587;&#1740; &#1705;&#1608;&#1604; &#1705;&#1729;&#1578;&#1740; &#1729;&#1740;&#1722; &#1705;&#1729; '&#1576;&#1581;&#1585;&#1616; &#1729;&#1606;&#1583; &#1705;&#1746; &#1587;&#1575;&#1581;&#1604;&#1608;&#1722; &#1705;&#1746; &#1587;&#1575;&#1578;&#1726; &#1587;&#1605;&#1606;&#1583;&#1585;&#1740; &#1711;&#1726;&#1575;&#1587; &#1705;&#1746; &#1576;&#1575;&#1594;&#1575;&#1578; &#1705;&#1740; &#1576;&#1581;&#1575;&#1604;&#1740; &#1605;&#1575;&#1581;&#1608;&#1604; &#1705;&#1740; &#1576;&#1602;&#1575; &#1605;&#1740;&#1722; &#1605;&#1583;&#1583; &#1583;&#1746; &#1587;&#1705;&#1578;&#1740; &#1729;&#1746;&#1748; &#1740;&#1729;&#1740; &#1591;&#1585;&#1740;&#1602;&#1729; &#1587;&#1575;&#1581;&#1604; &#1705;&#1746; &#1587;&#1575;&#1578;&#1726; &#1583;&#1740;&#1711;&#1585; &#1575;&#1602;&#1587;&#1575;&#1605; &#1705;&#1746; &#1605;&#1575;&#1581;&#1608;&#1604; &#1705;&#1746; &#1604;&#1740;&#1746; &#1576;&#1726;&#1740; &#1575;&#1587;&#1578;&#1593;&#1605;&#1575;&#1604; &#1705;&#1740;&#1575; &#1580;&#1575; &#1587;&#1705;&#1578;&#1575; &#1729;&#1746;&#1748; &#1575;&#1587; &#1587;&#1746; &#1705;&#1575;&#1585;&#1576;&#1606; &#1705;&#1746; &#1575;&#1582;&#1585;&#1575;&#1580; &#1605;&#1740;&#1722; &#1705;&#1605;&#1740; &#1575;&#1608;&#1585; &#1580;&#1587; &#1581;&#1583; &#1578;&#1705; &#1605;&#1605;&#1705;&#1606; &#1729;&#1608; &#1605;&#1608;&#1587;&#1605;&#1740;&#1575;&#1578;&#1740; &#1578;&#1576;&#1583;&#1740;&#1604;&#1740; &#1705;&#1746; &#1585;&#1580;&#1581;&#1575;&#1606; &#1705;&#1608; &#1662;&#1604;&#1657;&#1606;&#1746; &#1705;&#1740; &#1602;&#1608;&#1605;&#1740; &#1705;&#1608;&#1588;&#1588;&#1608;&#1722; &#1605;&#1740;&#1722; &#1605;&#1583;&#1583; &#1605;&#1604;&#1746; &#1711;&#1740;&#1748;' 

اب تک خلیجِ منار میں تباہ شدہ سمندری گھاس کے نو ایکڑ پر محیط رقبے کو بحال کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وان جزیرے اور دیگر تیزی سے کٹ رہے علاقوں مثلاً جزیرہ کوسواری، جزیرہ کریاچالی اور ولانگوچالی میں کامیاب ٹرانسپلانٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ خلیج پالک میں بھی جزیروں کے گرد دو مزید ایکڑ بحال کیے گئے ہیں۔ محققین کو امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سمندری گھاس خطرے کے شکار جانوروں مثلاً بحری گائے کو بھی یہاں متوجہ کرے گی۔

طویل مدتی حل سمندری گھاس کو خراب کرنے کے بارے میں انڈین قوانین کا نفاذ ہوگا۔ سنہ 2019 میں سمندر میں مچھلی کے شکار کو منضبط کرنے کا بل تجویز کیا گیا تھا۔ اگر یہ قانون بن گیا تو ماہی گیروں کی بڑی کشتیاں اور مشینی ٹرالروں کو ریاستی محکموں کے ساتھ خود کو رجسٹر کروا کر لائسنس لینا پڑے گا۔ انھیں مچھلی کے شکار کے لیے اجازت لینی پڑے گی جس سے بہتر نگرانی ممکن ہو سکے گی اور بالآخر خطے کی سمندری گھاس اور مرجان کی تباہی میں کمی آئے گی۔

پیٹرسن کہتے ہیں کہ اب تک وان جزیرے اور اس کے پڑوس میں مرجان اور سمندری گھاس کی بحالی کی مشترکہ کوششوں نے تباہ شدہ ساحلوں کو بحال اور مضبوط کیا ہے جس سے اب وہ کم خطرے کے شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ انڈیا کی اپنے ڈوب رہے جزیرے کو بچانے کی پہلی کوشش ہے۔

اور بظاہر یہ کامیاب ہو رہی ہے کیونکہ وان جزیرہ اب مستحکم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp