فواد حسین چوہدری: بے وقوف یا دلیر؟


31 اگست 2016 کو حلقہ NA 67 میں نوابزادہ اقبال مہدی کی ناگہانی موت کی وجہ سے ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوا جس میں فواد حسین چوہدری اور مطلوب حسین راجہ کے درمیان چناؤ کیا گیا جو کہ مختلف پارٹیوں کی حمایت کے باوجود تحریک انصاف کو شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑا تو بندہ ناچیز نے 3 ستمبر 2016 کو ایک تحریر میں لکھا تھا کہ اگر فواد حسین چوہدری اسی طرح حلقے میں ”متحرک“ رہے جیسے اس (ضمنی الیکشن) کی کمپئین کے دوران رہے تو وہ دن دور نہیں جب فواد چوہدری نوابزادے سے خاندانی نشست خالی کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اور بلآخر 25 جولائی 2018 کو تاریخ کی گھڑیوں نے نوابزادوں کی سیاست کے 12 بجا دیے اور NA 67 کی نشست پہ فواد حسین چوہدری براجمان ہو ہی گئے۔ چوہدری صاحب کا سیاسی کیریئر تو مختلف پارٹیوں سے جڑا رہا ہے مگر فی الحال پاکستان تحریک انصاف کے سائے میں یہ سفر جاری ہے۔

چوہدری صاحب با لحاظ پیشہ وکیل ہیں اور بطور میزبان نیو نیوز، اور جرنلسٹ بھی کام کرتے رہے ہیں اور سونے پہ سہاگہ سیاسی تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ سیاستدان ہونے کا مزہ بھی لے رہے ہیں۔ تحریر کا مقصد چوہدری فواد حسین کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا نہیں ہے بلکہ ایک سوال جو کہ تحریر کا موضوع بھی ہے قارئین کے سامنے رکھنا ہے۔

چوہدری صاحب وکیل، جرنلسٹ اور سیاست دان ہونے کے ناتے بولنے کے فن سے خوب آگاہ ہیں اور منہ میں آئی باتوں کو دھڑلے سے سر عام کہہ دینے میں ذرا بھی خوف نہیں رکھتے۔

اتفاقاً راقم کا تعلق بھی چوہدری صاحب کے حلقے سے ہی ہے اور کچھ دوستوں کے توسط سے چوہدری صاحب کے رکھ رکھاؤ سے واقفیت بھی رکھتا ہوں۔ جس وجہ سے یہ سوال ذہن میں آیا ہے کہ چوہدری صاحب ریاست کو جدید ریاست بنانے کے لئے ایسے بیان داغ دیتے ہیں اور اتنے لوگوں کی مخالفت مول لے لیتے ہیں یا صرف میڈیا میں رہنے کے لئے اختلافی بیان جاری کرتے ہیں۔

آسیہ مسیح کیس کا فیصلہ آیا تو فواد حسین چوہدری جو کہ اطلاعات و نشریات کے وزیر تھے نے میڈیا پریس میں آسیہ مسیح کی رہائی کو درست کہہ کر تمام جذباتی پاکستانیوں کی مخالفت مول لے لی۔ (میرے مطابق فواد صاحب نے ٹھیک کیا)

عید الفطر کا چاند دیکھنے کا حسب المعمول پنجاب اور کے پی کے کا سالانہ جھگڑا ختم کرنے کے لئے ایک نیا نظریہ پیش کر دیا اور پاکستان کے طاقتور طبقے (مولویوں ) کو بھی اپنے حریفوں میں شامل کر لیا۔ (میرے مطابق فواد چوہدری نے حالات کے تناظر میں بہترین فیصلہ کیا) ۔

7 فروری 2020 بروز جمعہ کو وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرار داد پارلیمنٹ میں پیش کی جو کہ کثرت رائے سے منظور بھی ہو گئی مگر چوہدری صاحب حسب المعمول مخالف بیانیہ جاری کر بیٹھے اور تقریباً 95 فیصد پاکستانیوں کی توپوں کا رخ بھی اپنی طرف موڑ لیا ہے۔

سوشل میڈیا پہ فواد چوہدری کو پاکستانی (جذباتی) قوم اس مخالفت پہ خوب طعنہ زنی کر رہی ہے اور گالیاں بھی دے رہی ہے جو کہ غلط اقدام ہے۔

اگر چوہدری صاحب نے ایک رائے سے اختلاف کر ہی لیا ہے تو کم از کم بطور سیاستدان اور وفاقی وزیر اختلاف رائے کا اتنا حق تو وہ رکھتے ہی ہیں کہ پارلیمنٹ میں اپنا مخالف نکتہ نظر پیش کر سکیں۔ نہ تو انہوں نے کسی اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا ہے جس وجہ سے گستاخ اور کافر ٹھہرائے جا رہے ہیں اور نہ ہی کسی اسلامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

بلکہ صرف ایک (انسان) وفاقی وزیر کی پیش کردہ رائے سے مختلف رائے دی ہے۔ (میرے مطابق چوہدری صاحب نے غلط رائے دی ہے کیونکہ اس کا ردعمل ایسا ہی آنا تھا جو آ رہا ہے ) ۔

مسئلہ فواد چوہدری کے خلاف عوامی ردعمل کا نہیں ہے بلکہ اس بات کا ہے ہم بطور قوم جدید دنیا میں کس مقام پہ کھڑے ہیں۔ جہاں اختلاف رائے پہ ایسی چھترول کی جاتی ہو وہاں جینا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ فواد چوہدری کے یہ اقدام دلیرانہ عمل ہیں یا سراسر بے وقوفی ہے جو کہ غیر مہذب معاشرے میں ایسے جدید بیان جاری کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے خواہ مخواہ لوگوں کو اپنا ایمان خطرے میں محسوس ہونے لگتا ہے۔فیصلہ آپ اپنی مرضی سے کریں۔

(ہمیں پاکستان کو جدید طرز پہ استوار کرنے کے لئے اپنے اپنے گریں انوں میں جھانکنا ہو گا۔ ہمیں ہر معاملے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ صبر وتحمل سیکھنا ہو گا۔ اخلاقیات کا سبق پڑھنا ہو گا۔ اختلاف رائے کو سننا اور برداشت کرنا ہو گا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments